عمران خان جیت گئے. mansoor afaq
دیوار پہ دستک

عمران خان جیت گئے

عمران خان جیت گئے

یونانی فلاسفر ’’پر ہو‘‘ سکندر اعظم کے ساتھ ہندوستان آیا تھا۔اس سفر نے اسے ہندو فلسفے سے روشناس کیا تھا۔ قدیم تاریخ میں اس کا ایک واقعہ درج ہے کہ دریائے جہلم کے کنارے اس نے اس دور کے پنڈت جمع کئے اور ان کے سامنے فلسفہ ٔ تشکیک کے حق میں ایک پُر مغز اور پُر دلیل تقریر کی وہ بہت متاثر ہوئے ۔ دوسرے دن پھر انہیں جمع کیا گیا اور’’پر ہو‘‘ نے تشکیک کے خلاف ایک پر زور تقریر کی۔ یہ تقریر کسی طرح بھی پہلی تقریر سے کم نہیں تھی گزشتہ روز اس نے جو دلائل دیئے تھے وہ سننے والوں کے دل میں اتر گئے تھے اور دوسرے دن بھی اس نے جو کچھ کہا وہ بھی ناقابل تردید تھا۔جب اس سے پوچھا گیا کہ یہ کیا ہے؟تو کہنے لگا اسی کو تشکیک کہتے ہیں۔ حواس خمسہ سے تعلق رکھنے والے دلائل کوئی اتنی اہم چیز نہیں کہ جس پر یقین کی بنیاد رکھی جا سکے۔ میں جب بھی پاکستانی سیاست دانوں کے بارے میں سوچتا ہوں تو مجھے ’’پرہو‘‘ یاد آجاتا ہے ۔یہ بھی عجیب دانشور ہیں ایک دن بھرپور انداز میں مذاکرات کے خلاف تقریر کرتے ہیں، ان کے بے مقصد ہونے کے دلائل فراہم کرتے ہیں جو واقعی ناقابل تردید ہوتے ہیں مگر پھر اگلے روز مذاکرات کے حق میں بیان جاری فرما دیتے ہیں۔ اس وقت جب طالبان کے ساتھ مذاکرات کامیابی کی سمت رواں دواں ہیں اور نوازشریف قوم کو بہت جلد ایک بڑی خوشخبری سنانے کااعلان کر چکے ہیں مجھے یہ کہتے ہوئے خوشی محسوس ہورہی ہے کہ عمران خان جیت گئے ہیں ۔کم از کم ایک سیاست دان تو ایسا ہے جو شروع سے آخر تک ایک موقف پر کھڑا ہے ۔کون نہیں جانتا کہ واحد عمران خان ایک ایسی شخصیت ہیں جنہوں نے ہردور میں طنز و دشنام کے لپکتے ہوئے تیروں میں بھی طالبان کے ساتھ مذاکرات پر روز دیا ہے حتیٰ کہ اس جرم میں انہیں ’’طالبان خان ‘‘ تک کہا گیا مگر پھر وہ وقت آتا چلا گیا کہ تمام سیاسی پارٹیاں انہی کے منشور کو مانتی چلی گئیں یعنی طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حق میں ہوتی گئیں۔اگر مذاکرات واقعی کامیاب ہوجاتے ہیں تو پھر اس کا کریڈٹ صرف عمران خان کو دیا جانا چاہئے کیونکہ وہی واحد ایک ایسے لیڈر ثابت ہوئے جنہوں نے بہت پہلے بھانپ لیا تھا کہ ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ صرف اور صرف طالبان سے مذاکرات کرکے ہی کیا جا سکتا ہے۔

بات کا آغاز ایک یونانی فلاسفر سے کیا تھا۔ یونان کی ایک اور شخصیت یاد آگئی ہے جس نے جلاوطن ہونے کے بجائے زہر کا پیالہ پینا زیادہ بہتر سمجھا تھا یعنی سقراط…سقراط سے جب کہا گیاکہ یہ کیامعمہ ہے ۔ہم جب ڈلفی کی کاہنہ سے پوچھتے ہیں کہ سب سے عقل مند آدمی کون ہے تو وہ تمہارانام لیتی ہے اور جب تم سے پوچھتے ہیں تو تم کہتے ہو میں کچھ نہیں جانتا، سقراط نے کہا ’’میں بھی سچ کہتا ہوں اور وہ بھی غلط نہیں کہتی ،دراصل ہم سب کچھ نہیں جانتے ، ہم سب جاہل ہیں تم میں اور مجھ میں صرف اتنا فرق ہے کہ تمہیں اپنی جہالت کاعلم نہیں اور مجھے اپنے جہل کا علم ہے‘‘۔

کچھ لوگوں کے نزدیک سقراط کا یہ عمل درست نہیں تھا وہ سمجھتے ہیں کہ اسے جلاوطن ہو جانا چاہئے تھا یعنی نظریات اتنی قیمتی شے نہیں کہ ان کے لئے زندگی قربان کر دی جائے یقیناً وہ جو زندگی کے ہر معاملے کو کاروباری انداز میں دیکھتے ہیں،انہیں ایسا ہی سوچنا چاہئے ۔میں نواز شریف کو بھی اسی قبیل کے لوگوں میں شمار کرتا ہوں اور یہی کاروباری ذہانت ان کی کامیابیوں کا بڑاسبب ہے مگر میرے جیسے لوگ جو شخصیات کو تاریخ کے تناظر میں دیکھتے ہیں انہیں نواز شریف کے مقابلہ میں عمران خان زیادہ کامیاب دکھائی دیتا ہے ۔اب میرے نزدیک گزشتہ انتخابات میں بظاہر کامیابی نواز شریف کو حاصل ہوئی۔

مگر حقیقت میں جیت عمران خان گئے ہیں۔ میں اس بات کو اس طرح دیکھتا ہوں کہ جیسے عمران خان اپنے جلسے میں اسٹیج سے گرے تو عیادت کیلئے شہباز شریف اور نواز شریف دونوں پہنچ گئے ۔چلیں اس بات کو انسانی ہمدردی کے زمرے میں بھی لیا جا سکتا ہے مگر اس بات کا کیا جواب دیا جاسکتا ہے کہ ہم لوگ برسوں سے یہی دیکھتے آرہے تھے کہ جب کوئی وزیر اعظم بن جاتا ہے تو لوگ اس سے ملنے جاتے ہیں، وہ لوگوں سے ملنے نہیں جایا کرتا اور نواز شریف تو اس معاملے میں خاصے مشہور ہیں وہ پارٹی کے بڑے بڑے لیڈروں سے مہینوں اپنے گھر میں ملاقات نہیں کرتے، کجا ملاقات کیلئے کسی اور کے گھر جائیں۔ ایسی شخصیت کا عمران خان کے گھر جا کر اس سے ملنا عمران خان کی جیت نہیں تو اور کیا ہے۔میرے خیال میں نوازشریف اچھی طرح جانتے ہیں کہ پاکستانی قوم کی اکثریت عمران خان کے ساتھ ہے۔

میں ڈلفی کی کاہنہ تو نہیں مگر کوئی شخص اگر مجھ سے پوچھے کہ موجودہ سیاست دانوں میں پاکستان کا سب سے عقلمند آدمی کون ہے، تو میں کسی توقف کے بغیر کہوں گا ’’عمران خان ‘‘۔ بے شک وہ سقراط کی طرح اپنی جہالت کا عالم بھی نہیں۔

اس معاملہ میں وہ بھی ہم میں سے ہے جنہیں اپنے جہل کا علم نہیں لیکن اس ابنوہِ جیب ِ تراشاں میں وہ ایک اکیلا دیانت دار آدمی ہے جو پاکستان کیلئے زہر کا پیالہ تو پی سکتا ہے، اپنے لئے جلاوطن نہیں ہوسکتا۔

mansoor afaq

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے