
طارق مرزا
طارق مرزا
میں بریڈفورڈ کوگرتی ہوئی کپڑے کی ملوں کے حوالے نہیں پہچان سکا تھا۔میں اسے جاوید اختر بیدی کی شاعری کی ہفت پہلو انقلابی روشنی سے بھی نہیں پہچان سکا تھا جو برطانیہ کے اردو ادب میں قوسِ قزح کا خلاصہ ہے۔میں نے بریڈفورڈ کو صرف طارق مرزا کے حوالے سے سمجھا اور پرکھا تو مجھے عجیب و غریب حد تک خوبصورت نظر آیا ۔مجھے طارق مزرا کے لفظوں میں پتھر کی قدیم سلوں کاایسا انعکاس دکھائی دیا جوطباشیری چہروں کی مستعار تابندگی کی ماہیت کو پلٹ پلٹ کر نارنجی کررہاہے۔جوچہروں اور پتھر کی سلوں سے نکلتی ہوئی اجلی دھوپ سے شراب کشید کرتا ہے۔ہاں وہی شراب کارتھوسیا carthusia فرقے کے عابدوں کا مشروب تھی۔میں جو انجانے خوف ، بے نام جھجک اور ظلمتِ ذات کے مقفل شدہ تابوت میں زندگی کی دھڑکنیں گنتا رہتاتھا۔طارق مرزا سے مل کر مجھے یہ انکشاف بڑا عجیب لگا کہ چیزیں خوبصورت ہوتی ہیں اورمظالم سے بے نیازحسنِ تناسب برقرار رکھتی چلی آرہی ہیں۔ان پر فطرت اپنی تمام بے کوشش اختراعی علامتوں اور بے ساختہ تخلیقی رحمتوں کے ساتھ سایہ فگن ہے۔
طارق مرزا اس حوالے سے بھی برطانیہ کا ایک عجیب و غریب شاعر ہے کہ اس کی بنیاد میں اردو زبان یا اردو شاعری کی کوئی اینٹ موجود نہیں جوہجرت کے وقت رختِ سفرمیں اس کے ساتھ آئی ہو ۔وہ اس وقت یہاں آیا تھا جب اس کی عمر چند سال تھی ۔وہ یہیں کے سکولوں میں پڑھااور اسی انگلش زبان کے ماحول پروان چڑھا ۔ آکسفورڈ یونیورسٹی سے پٹرولیم میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی اور پھر اردو زبان میں شعر کہنے لگا۔یہ ایک انتہائی حیرت انگیز اورناقابل ِ یقین وقوعہ کیسے رونما ہوا۔میں نے اس بات کو سمجھنے کیلئے اس کے کلام کا بڑی باریک بینی سے جائزہ لیا ہے۔اور میں یہ کہنے میں کوئی باگ محسوس نہیں کرتا کہ وہ واقعتاً یورپ کا نمائندہ شاعر ہے ۔اس کی شاعری پڑھ کر یہی ا حساس ہوتا ہے کہ وہ کہیں لیک ڈسڑکٹ میں جھیل کے کنارے کسی پب کے باہراُگے ہوئے بیچ پر بیٹھ کسی سے کہہ رہا ہے۔
جدائی اب ضروری ہو گئی ہے
میں دل ہوں اور تجھ سے بھر گیا ہوں
میں نے مسلسل بائیس سال اس سے گفتگو کی ہے۔مگر ابھی تک مشرق و مغرب کے اس اشتراک کو پوری طرح سمجھنے میں کامیاب نہیں ہوا ۔ میں نے ایک دن اس سے پوچھا کہ یہ جو تم نے شعر کہا ہے کہ
یہ میرے شہر کی فطرت ہے طارق
ہوا کو چوڑیاں پہنائے رکھنا
یہ تو مشرق کا تجربہ ہے ۔ مغرب کا نہیں۔یہ تم نے کہاں سے لیاہے۔ تو کہنے لگا مجھے بچپن سے کانچ کی چوڑیوں کی آواز بہت اچھی لگتی ہے ۔میں نے یونیورسٹی کے دنوں میں اپنی ایک انگریز دوست کو چوڑیوں کا ایک ڈبہ پاکستان سے منگوا کر تحفہ میں دیا مگر اس نے وہ چوڑیاں پہنی نہیں ۔ اور جب میں نے اس بات کا اصرار کیاتو اس نے وہ تحفہ مجھے لوٹا دیا۔میں نے کونی فر(conifer)کے در خت کی ایک شاخ سے تمام پتے نوچ کر اس میں وہ چوڑیاں بھر دیں اور پھر جب ہوا چلی توجھولتی شاخ سے چوڑیوں کے گیت اترنے لگے۔اس شعر کا اس واقعہ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں مگرمجھے لگتا ہے کہ لاشعوری سطح پر یہ مغرب میں مشرق کی تلاش کا کوئی عمل ہے۔اسی غزل کا ایک اور شعر بھی یاد آرہا ہے
محبت میں ضروری تو نہیں ہے
کسی کو عمر بھر اپنائے رکھنا
آج کے دور میں ایڈز کا مرض ایک ایسا موضوع ہے۔جس پرسیمینار تو منعقد کرائے جاسکتے ہیں لمبی لمبی طویل تقریریں تو کی جاسکتی ہیں ،مضمون اور کتابیں لکھی جاسکتی ہیں حتیٰ نظم کہی جاسکتی ہے مگراس موضوع پر غزل کاشعر کہنا بہت مشکل کام ہے۔کیونکہ غزل کے شعر میں اگر تغزل نہ رہے تو اس کاکھردراپن بھونڈی شکل اختیار کر لیتا ہے۔لیکن طارق نے اس موضوع پر ایسا شعرکہا جوہر لحاظ سے ایک مکمل اور بھرپور شعر ہے
جسم کے نئے رواج سے خوف آتا ہے
تیز بخار ہے اور علاج سے خوف آتا ہے
اسی غزل کا ایک شعر یاد آرہا ہے
جیب میں لے کر ماچس کی تیلی پھرتا ہوں
مجھ کو اپنے سرد مزاج سے خوف آتا ہے
اس شعر کا پہلا مصرعہ صرف طارق ہی کہہ سکتا تھا کیونکہ یہ خالصاً مغربی چیز ہے کہ جیب سے ماچس کی صرف ایک تیلی نکال کراور اسے اپنے بوٹ کے موٹے تلوے سے رگڑ کرسلگاتے ہوئے سگریٹ جلانے کے عمل سے مشرق میں رہنے والوں کی واقفیت نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہ مغرب کے انتہائی کھردرے،وحشی اور سرد مزاج لوگوں کا پسندیدہ عمل ہے۔لیکن ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اردو ادب کے دامن کو ایسے اشعار بھرنے والا یہ شاعر گمنام کیوں ہے۔میرے نزدیک اس کی وجہ صرف اور صرف طارق مرزا کی بد مزاجی ہے ۔ میں اس بدمزاجی کو اس کی فقیرانہ روش یا بے پروائی بھی کہہ سکتا تھا۔مگر سچ یہ ہے کہ بے پروائی یا اپنی انتہا کو پہنچتی ہے تو بد مزاجی میں بدل جاتی ہے ۔اس بدمزاجی کا اندازہ لگانے کیلئے یہی کافی ہے کہ جن دنوں وہ شیل پاکستان کا چیف ایگزیکٹو ہوا کرتا تھا میں بھی کچھ دن کراچی میں اس کے مہمان خانے میں رہائش پذیر ہوا۔ان دنوں جون ایلیا روزانہ شام ڈھلتے سے ذرا پہلے وہاں آجاتے تھے اور رات دیر تک وہاں گفتگو کرنے کے ساتھ ساتھ کچھ لکھتے بھی رہتے تھے۔ میں نے ایک دن طارق سے پوچھا کہ میں ایک بار پہلے یہاں آیا تھا تو اقبال مہدی سارادن یہاں بیٹھ کر تصویریں بنا رہا ہوتا تھااب یہ جون ایلیا ۔۔۔یہ یہاں کیا لکھتے رہتے ہیں تو طارق نے ہنس کر کہا کہ ڈیڑھ ماہ ہو گیا ہے۔ میری کتاب کا دیباچہ لکھ رہے ہیں میں نے حیرت سے پوچھا کہ اتنے دنوں میں پوری کتاب لکھی جاسکتی ہے طارق پھر ہنس پڑا اور بولا ”موصوف اس وقت تک ساٹھ صفحات لکھ چکے ہیں اور مجھے لگتا ہے کہ کوئی چار پانچ سو صفحات پر مشتمل دیباچہ لکھیں گے “۔وہ کتاب او ر دیباچہ تو خبر نہیں کب شائع ہو مگرمجھے جو طارق مرزا کے اشعار یاد ہیں وہ درج کئے دیتا ہوں ۔
کوئی ساری رات کا جاگا جلتا ہے
جیسے تیل میں ڈوبا دھاگا جلتا ہے
میں نے اس کو دیکھا اور پسند کیا
اور پھر اس پر ہر دروازہ بند کیا
روز اس شہر کے ہر چہرے کی رم بدلتی رہتی ہے
جیسے ایک طواف اپنی سم بدلتی رہتی ہے
کھڑا ہوں بے سرو سامانیوں میں
نمک رہتا ہے جیسے پانیوں میں
ایسے ایک تہائی اس کا روپ بکھر جائے
جیسے دو پیڑوں کے بیچ دھوپ بکھر جائے
سرخ لبوں کا مدہم داغ پیالی پر
چھوڑ گئی وہ ایک چراغ پیالی پر
پورا سورج آجاتا ہے کمرے میں
بعض اوقات تو ایسی راتیں پڑتی ہیں
کتنا مشکل تیرے درد سے یاری کرنا
ایک رفتار سے چیتے کی سواری کرنا
گزرا ہوا کل اور ماضی نہیں رکھتا
میں ساتھ کبھی اپنے ریاضی نہیں رکھتا
میرے بعد تو ایسے ختم ہوا ہے عشق
جیسے کفر مدینے میں نہیں آسکتا
کیلنڈر میں گم رہتے ہو کیوں طارق
آٹھواں دن تو ہفتے میں نہیں آسکتا
mansoor afaq

