صرف فوج کی طرف دیکھنا درست نہیں. mansoor afaq
دیوار پہ دستک

صرف فوج کی طرف دیکھنا درست نہیں

صرف فوج کی طرف دیکھنا درست نہیں

وہ جومعاشی ترقی کیلئے وزیر اعظم نواز شریف کو گالف کھیلنے کا مشورہ دیتے ہیں انہی جیسے ایک دوست نے وزیر اعظم کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ کیا خوش نصیب آدمی ہیں۔جب عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کے دھرنے اپنے عروج پر تھے تواللہ نے سیلاب بھیج دیا۔ عمران خان نے ملک گیر پہیہ جام ہڑتال کی کال دی تو سانحہ پشاور ہوگیا۔میرا شمار نواز شریف کے حامیوں میں نہیں ہوتا اس کے باوجود مجھے یہ جملے سن کر بہت تکلیف ہوئی ۔(ہوئے تم دوست جس کے، دشمن اس کا آسماں کیوں ہو)میرے نزدیک کسی کی بربادی سے کسی کی خوش قسمتی کا فیصلہ کرنا بہت سفاکانہ اور کراہت آمیز عمل ہے۔ اس حوالے سے ایک ایرانی کہاوت ہے کہ بادشاہ کاخیال تھا کہ صبح سویرے جو اجنبی سامنے آئے وہ انسان کیلئے خوش قسمتی یا بدقسمتی کی علامت بن جاتا ہے۔بادشاہ شکار کیلئے نکلا تو اس کی نظر ایک تیزچلتے ہوئے اجنبی پر پڑی۔بادشاہ نے اسے پکڑ کر بند کردینے کا حکم دے دیا۔ اتفاق سے اس روز شکار بہت اچھا ہوا ۔بادشاہ نے شکار سے واپسی پر اس اجنبی کوبلایا اور کہا تم بادشاہ کیلئے خوش بخت ثابت ہوئے ہو۔ بتائو تمہیں کیا انعام دیا جائے۔ اس اجنبی نے بادشاہ سے کہا کہ اگر کسی دن کی سعادت یا نحوست کا دار ومدارپہلے ملنے والے اجنبی پر منحصر ہے تو کیا میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ آپ کا ملنا میرے لئے کتنی بڑی بدبختی تھا کیونکہ میں اپنے قریب المرگ بیٹے کے علاج کے لئے حکیم کو بلانے جا رہا تھا اور آپ نے پکڑ کر بند کرادیا میں سارا دن بھوکا پیاسا رہا ادھر گھر کی پریشانی الگ تھی۔ میں سمجھتا ہوں یہ میری زندگی کا منحوس ترین دن تھا کاش مجھے صبح سویرے آپ کو دیکھنے کا اتفاق نہ ہوا ہوتا۔درویشوں کے نزدیک تو خیراتفاق کوئی شے ہے ہی نہیں۔کائنات میں کچھ بھی اتفاقات کا نتیجہ نہیں۔ سب کچھ پہلے سے طے شدہ ہے بلکہ اب تو سائنس بھی اِسی نتیجے پر پہنچتی جارہی ہے۔سائنس کے مطابق قدرت نے انسانی جینزمیں سب کچھ درج کردیا ہے اورایک ایک جین پر درج شدہ معلومات کئی کئی لاکھ صفحات پر آتی ہیں۔ بالوں کا رنگ، آنکھوں کی ساخت، جسم اور چہرے کے خدوخال، قد،زندگی بھر جو بیماریاں ہوتی ہیں وغیرہ وغیرہ تو اس میں درج ہوتی ہی ہیں۔سائنس کے مطابق پْرتشدد رجحانات بھی جین میں موجود ہوتے ہیں یعنی یہ بھی جین میں تحریر ہے کہ کسے مجرم بننا ہے۔نطفے کے جین پر تحقیق کرنے والوں کا کہنا ہے کہ اس نطفے کے جین سے جو زندگی پیدا ہونی ہےاس کے خاتمے کا وقت بھی اس میں درج ہے۔یعنی کہ خوش قسمتی کیلئے آدمی جو اچھے برے حالات پیدا کرتا ہے وہ بھی دراصل لوحِ تقدیر پر رقم ہوتے ہیں۔

آئیے ذرا اس بات پر نظر ڈالتے ہیں کہ نصیب کیا ہے اور خوش نصیب کون ہے۔قسمت یا مقدر خدا کے مقرر کردہ قانون کو کہتے ہیں۔مثلا پانی جب تک پانی ہے اس کا مقدر ہے کہ وہ مائع ہو اور نشیب کو بہے۔مگر یہی پانی جب اپنی حالت تبدیل کرلیتا ہے اور بخارات بن جاتا ہے تو اس کا مقدرہے کہ وہ نشیب کی بجائے بلندی کی طرف اٹھتا ہے۔ وہ مائع نہیں رہتا۔ گیس بن جاتا ہے۔یہی پانی جب جم کر برف بنتا ہے تو اس کا مقدر پھر بدل جاتا ہے۔پانی کی مختلف حالتیں کسی اور عامل کے عمل سے بدلتی ہیں مگر انسان اپنی حالت خود بدلتا ہے۔اور وہ جو حالت اختیار کرلیتا ہے۔اسی پر خدا کا مقرر کردہ قانون لاگو ہو جاتا ہے۔

اور خوش نصیب کون ہے؟ اس سوال کا ایک جواب تو وہ ہے جو واصف علی واصف نے دیا تھا کہ خوش نصیب وہ ہے جو اپنے نصیب پر خوش ہے مگرکچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ خوش نصیب وہ ناراض آدمی ہے جسے راضی کرنے کیلئے نصیب سرگرداں پھرتا ہے۔نواز شریف کی خوش قسمتی پر بات کرتے کرتے ہم کہیں اور نکل گئے ہیں۔کسی نے یہ بھی کہا ہے کہ واقعی نواز شریف خوش نصیب آدمی ہیں کہ انہیں راحیل شریف جیسا سپہ سالار نصیب ہوا ہے۔مگر میرا خیال ہے’’حاصل کیلئے صرف صحیح شخص ہی کافی نہیں ہوتا صحیح وقت اور صحیح جگہ کا تعین بھی ضروری ہے۔‘‘اپنے جملے کی تھوڑی سی وضاحت کیلئے ایک واقعہ درج کر رہا ہوں’’محی الدین ابن عربی کے ایک مریدِ خاص جعفر بن یحییٰ تھے۔جب وہ اپنے وقت کے سب سے بڑے شیخ کی تلاش میں اسپین سے مکہ پہنچے تو وہاں سبز جبہ پوش نے انہیں کہاتم جس کی تلاش میں مشرق میں آئے ہو زمانے کا وہ استاد مغرب میں موجود ہے اور ابھی تمہاری تلاش میں ایک کمی بھی ہے۔جہاں سے آئے وہیں واپس چلےجائو۔ وہ وہیں ہے۔حاتم طائی کے قبیلے سے تعلق رکھتا ہے۔العربی کا بیٹا ہے۔ محی الدین نام ہے۔جعفر محی الدین کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے ایک درس گاہ میں پہنچا اور محی الدین کا پوچھا تو کسی نے ایک طالب علم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ محی الدین ہے وہ اس وقت کتاب ہاتھ میں لئے ایک کمرے سے عجلت میں نکل رہا تھا۔جعفر نے اس نوجوان کو حیرت سے دیکھا اور روک کر پوچھا’’کہ اس زمانے کا سب سے بڑا استاد کون ہے۔تو محی الدین نے کہا ’’مجھے اس سوال کا جواب دینے کیلئے کچھ وقت چاہئے‘‘جعفر نے اس سے پوچھا کہ طائی قبیلے کے العربی کے تم ہی بیٹے ہو۔ تو محی الدین نے کہا ’’ہاں میں ہی ہوں۔ جعفر بولا’’تو پھر مجھے تمہاری ضرورت نہیں‘‘تقریباً تیس سال کے بعد جعفر اس ہال میں داخل ہوا جہان محی الدین ابن عربی تقریر کر رہے تھے۔انہوں نے جعفر کے اندرداخل ہوتے ہی کہا’’جعفر بن یحییٰ اب جب میں تمہارے سوال کاجواب دینے کے قابل ہوں تو تمہیں اس کی ضرورت نہیں۔تیس سال پہلے جعفر تم نے کہا تھاتمہیں میری ضرورت نہیں۔ کیا اب بھی تمہیں میری ضرورت نہیں ہے۔اس سبز جبہ پوش نے تیس سال پہلے تمہاری تلاش میں کسی کمی کا تذکرہ کیا تھا وہ کمی وقت اور جگہ کے تعین کی تھی۔‘‘

ملک حالتِ جنگ میں ہے۔سانحہ پشاور کرنے والے تاج محمد عرف رضوان جیسے قاتل گلی کوچوں میں دندناتے پھررہے ہیں ۔شکار پور کی قربان گاہ اور اس کے بعدلاہور کے دل میں پولیس لائن کے باہر خود کش حملہ چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ ہم سب کے گھر میدان جنگ بنے ہوئے ہیں ایسی صورت حال میں سپہ سالار کیا کرے۔کس کس مسجد کے سامنے اپنے سپاہی تعینات کرے۔کس کس دفتر کو تحفظ دے ۔کس کس تعلیمی ادارے میں جھانک کر دیکھئے کہ اندر کہیں خود کش جیکٹیں تو نہیں بن رہیں ۔جس تعلیمی ادارے میں تاج محمد عرف رضوان نے تعلیم حاصل کی ہے۔اس سے کون سوال کرے کہ تم لوگوں نے یہ کیسی تعلیم دی ہے۔ان اساتذہ سے کون پوچھے جنہوں نے اسے علم کے زیور سے آراستہ کیا ہے کہ تم نے یہ کیسا انسانیت کادشمن فرد بنایا ہے۔جو کتابیں پڑھ کر وہ بچوں کا قاقل بنا ہے وہ کس نے لکھی ہیں کہاں سے آئی ہیں۔ یہ سارے کام صرف سپہ سالار نہیں کر سکتا۔ سو اِس جنگ کو جیتنے کیلئے حکومت کا صرف افواجِ پاکستان کی طرف دیکھنا درست نہیں۔ اسے چاہئے کہ پوری قوم کو تیار کرے کہ وہ ان دہشت گردوں کے خلاف اٹھ کھڑی ہو۔

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے