
صدر ِ پاکستان کا انتخاب
صدر ِ پاکستان کا انتخاب
ستائیس رمضان المبارک متبرک دن تھا جب پاکستان وجود میں آیا تھا۔ مسلمانوں نے اس دن روزہ رکھا تھا، نمازیں پڑھی تھیں مگر اعتکاف میں نہیں بیٹھے تھے۔سیاسی عمل میں پورے روز شور سے حصہ لیا تھا پھر اس دن غدر کی صورتحال بھی پیدا ہوگئی تھی۔کہیں ہندوؤں کی اور کہیں مسلمانوں کی دکانیں لوٹی گئی تھیں۔ لوگوں نے ایک دوسرے کو قتل کیا تھا۔ مجبور عورتوں نے خودکشیاں کر لی تھیں۔مگر ایک آزاد اسلامی ملک کے حصول کا مقصد ان سب باتوں سے عظیم تر تھا سو یہ تمام باتیں اب صرف تاریخ ِ پارنیہ کا حصہ ہیں مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ تخلیق پاکستان کیلئے ستائیس رمضان المبارک کا دن کیوں طے ہوا۔ یقینا چودہ اگست کی تاریخ طے کرتے ہوئے قائداعظم محمد علی جناح جانتے ہوں گے کہ چودہ اگست ستائیس رمضان المبارک کا مقدس دن ہے سو انہوں نے قیامِ پاکستان جیسے مقدس کام کیلئے اسی مقدس دن کا انتخاب بہتر سمجھا ہو گا اور اگر یہ تسلیم کرلیا جائے کہ اس تاریخ کے طے کرنے میں مسلمانوں کا کوئی ہاتھ نہیں تھا، اتفاق سے وہ دن ستائیس رمضان المبارک کا دن تھا تو یہ اور بھی بڑی بات ہوگی کیونکہ پھر یہ کہنا پڑے گا کہ تخلیقِ پاکستان کیلئے خود اللہ تعالیٰ نے ستائیس رمضان المبارک کادن منتخب کیا تھا۔
پاکستان کی تاریخ میں یہ دن ایک مرتبہ پھر بڑے اہم موڑ پر اتفاق سے آنے والا تھا مگر رہ گیا۔ نئے جمہوری صدر کے انتخاب کادن طے شدہ شیڈول کے مطابق ستائیس رمضان المبارک بن گیا تھا یعنی نئے صدر کے ساتھ اس متبرک دن کی برکتیں بھی شامل ہونے والی تھیں مگر افسوس کہ کچھ نادان دوستوں نے قوم کو اس مبارک موقع سے محروم کر دیا۔ عدالت میں صدارتی انتخابات کی تاریخ تبدیل کرانے کے لئے درخواست دائر کر دی اور یہ جواز پیش کیا کہ اس دن اراکین ِ پارلیمنٹ عبادت میں مشغول ہوں گے اس لئے ممکن ہے ووٹ ڈالنے نہ آسکیں۔عدالت نے بھی ستائیس رمضان المبارک کی تحریم کا خیال رکھتے ہوئے فوراً تاریخ کی تبدیلی کا آرڈر جاری کر دیا اور نہ سمجھی میں تاریخ پاکستان کے ایک اور مقدس دن کو گنوادیا۔کسی نے یہ سوچا ہی نہیں کہ ستائیس رمضان المبارک کو اگر یہ ملک وجود میں آ سکتا ہے تو صدر کا انتخابی عمل کیوں نہیں انجام دیا جا سکتا تھا۔
پیپلزپارٹی نے اس آرڈر پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے صدراتی انتخابات سے بائیکاٹ کا اعلان کردیاہے اوربائیکاٹ کا اعلان کرتے ہوئے رضا ربانی نے فرمایا ہے کہ الیکشن مہم کیلئے وقت نہیں دیا گیا۔ اتنا کم وقت ہے کہ میں کوئٹہ یاکراچی جاکر انتخابی مہم نہیں چلا سکتا۔ مجھے ان کے اس بیان پر بھی بڑی حیرت ہوئی۔شاید وہ سمجھتے ہیں کہ اگرانہیں وقت ملاہوتا تو وہ مختلف پارٹیوں کو کچھ لوگوں کو ”لوٹے“ بنانے میں کامیاب ہوجاتے۔مجھے رضا ربانی جیسے شخص سے ایسے بیان کی توقع نہیں تھی۔صدارتی انتخابات کا تو ایک ایک ووٹ گنا ہوا ہے اور اس کا فیصلہ امیدواروں نے نہیں، سیاسی پارٹیوں نے کرنا ہوتاہے پھر نون لیگ کی واضح اکثریت بھی سب کے سامنے ہے ایسے میں اس طرح کا بیان انہیں زیب نہیں دیتا تھا۔
پیپلزپارٹی کا بائیکاٹ بظاہر تو کوئی حیثیت نہیں رکھتا مگروہ اس بات کی خبر ضرور دے رہا ہے کہ پیپلزپارٹی نون لیگ کی حکومت کے خلاف اپنی احتجاجی مہم کا ابھی سے آغاز کرچکی ہے۔تحریک انصاف اگرچہ صدارتی انتخاب میں حصہ لے رہی ہے مگر عمران خان نے بھی احتجاجی تحریک کی تاریخ کااعلان کردیا ہے۔ایسی صورتحال میں نون لیگ متحدہ قومی موومنٹ کے سہارے آگے بڑھنے کی کوشش کر رہی ہے مگر متحدہ کے سہارے میں چکناہٹ بہت ہے، اس پر کسی کا ہاتھ مشکل سے جمتاہے۔ اپنے ڈاکٹر طاہر القادری نے بھی پچھلے دنوں ان کے سہارے پر اعتماد کیا تھامگر ہاتھ میں صرف چکنائی آئی تھی۔
کچھ قوتیں تحریک انصاف کو بھی مشورہ دے رہی ہیں کہ وہ بھی صدراتی انتخابات سے بائیکاٹ کااعلان کردے اگر تحریک انصاف نے انتخابات والی رات یہ فیصلہ کرلیا تویہ صدارتی انتخابات سچ مچ منسوخ کرنے پڑجائیں گے اور میری اطلاع کے مطابق کچھ ایسا ہی ہونے والا ہے۔ شیخ رشید نے انتخاب سے بائیکاٹ کرتے ہوئے عمران خان کو جو مشورہ دیا ہے اس پر مسلسل غور ہورہا ہے شیخ رشید نے اپنے مشورے میں کہا ہے کہ ”ممنون حسین کو پاکستان کا صدر بنانا اٹھارہ کروڑ عوام کی توہین ہے، وہ موزوں آدمی نہیں ہیں ۔کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ جو بہت زیادہ طاقتور لوگ شیخ رشید کے ووٹر ہے یہ مطالبہ دراصل ان کی طرف سے ہے۔ سو بہتری اسی میں ہے کہ ن لیگ صدراتی انتخاب ستائیس رمضان المبارک کو ہی کرائے اور تمام سیاسی پارٹیوں کو اس میں شریک ہونے پر راضی کرے۔
کچھ لوگ یہ بھی لکھ رہے ہیں کہ آئندہ صدر کی حیثیت چوہدری فضل الٰہی والی ہوگی اور ساتھ یہ لطیفہ بھی درج کر دیا کہ ان دنوں اچانک راولپنڈی کی دیواروں پر یہ نعرے لکھا ہوا نظر آنے لگا کہ”چوہدری فضل الٰہی کو رہا کرو“۔ ایجنسیوں نے تلاش شروع کردی کہ یہ نعرہ کون لکھ رہا ہے آخر کار وہ ایک کمبل پوش کو گرفتار کرنے میں کامیاب ہو گئیں۔ جب کمبل اتارا گیا تو وہ خود چوہدری فضل الٰہی تھے یعنی ممنون حسین بھی دیواروں پر اپنی آزادی کیلئے خود نعرے لکھتے پھر رہے ہوں گے حالانکہ یہ بات قطعاً درست نہیں۔ بے شک اٹھارہویں ترمیم میں صدر سے بہت اختیارات واپس لے لئے ہیں مگر بہت سے اختیارات رہنے بھی دیئے گئے ہیں۔ پاکستان کا آئندہ صدر بے شک قومی اسمبلی نہیں توڑ سکے گا مگر وہ اتنا بھی کمزور نہیں ہوگا کہ اہم ترین معاملات میں اپنی ٹانگ نہ اڑا سکے۔
mansoor afaq

