صادقین کا واسطہ ہے . mansoor afaq
دیوار پہ دستک

صادقین کا واسطہ ہے

صادقین کا واسطہ ہے

ان دنوں مجھے پاکستانی عوام تھور کے وہ پودے لگ رہے ہیں جنہیں صادقین نے انسانی شکل عطا کر دی تھی۔ تھور کا اثر لوگوں کے نقش و نگار میں بہت نمایاں نظر آرہا ہے۔ صادقین کی پینٹنگ میں انسانی اعضاء کے مشاہدے سے تھور کے پودے کا بصری احساس ابھرتا ہے جس سے دو واضح علامتیں سامنے آتی ہیں ایک تو انسان کی نامساعد حالات کے خلاف مسلسل جنگ اور پھر فتح اور دوسری علامت اخلاقی اور تہذیبی اقدار کا زوال ہے جو صادقین تھور کی خارداری اور بدصورتی کو بڑھا کر سامنے لاتے ہیں اس کا اندازہ صادقین کی اس تصویر سے بآسانی لگایا جا سکتا ہے جس میں ایک سربریدہ آدمی زمین پر لیٹا ہوا ہے اس کے ایک ہاتھ میں اپنا کٹا ہوا سر ہے جس پر پرندے نے گھونسلا بنا رکھا ہے اور انڈے دیئے ہوئے ہیں اور اس کے بازوئوں میں مکڑیوں کے جالے بنے ہوئے ہیں۔ اگر صادقین آج زندہ ہوتا تو شاید کٹے ہوئے سر میں پرندوں کا گھونسلا بنانے کے بجائے لہو میں لتھڑی ہوئی فاختہ کا مرقد بناتا۔بازوئوں میں زیتون کی ٹوٹی پھوٹی شاخیں رکھتا۔ آنکھوں کے گڑھوں کو چشمِ شدت پسند کی چمک عطا کرتا اور خودکش دھماکوں میں مرنے والوں کی بوٹیاں’ صحبت‘ کی پرات پرقوس کی صورت میں سجادیتا۔

علامہ ظفر اللہ شاہ نے صادقین کی ایک پیٹنگ دیکھتے ہوئے بڑے دکھ سے کہا تھا، آہ جب مذہبی شدت پسند پورے ملک پر قابض ہوجائیں گے تو یہ عظیم پینٹنگ بھی آگ میں جھونک دی جائے گی۔ میں نے غور سے اس پینٹنگ کی طرف دیکھا تو یہ وہی تخلیق تھی جس نے صادقین کو مصوری کی دنیا میں ایک بڑے مصور کی حیثیت سے پہچان دی تھی ،یہ 1962کی بات ہے جب پہلی بار صادقین نے اپنی یہ تصویر پیرس میں آرٹ کے مشہور مرکز ’’بیانال‘‘ (BIENNIAL)میں بھیجی تھی۔ اس تصویر کانام ہے’’وہی عشائے اخیر۔ سہ ماتمی رنگوں میں مستغرق‘‘(THE LAST SUPPER)یہ تصویر تجریدی آرٹ کا ایک شاہکارہے یعنی تجسیم سے منزہ فن پارہ ہے اور وہاں صادقین کو خصوصی انعام دیا گیااس کے اس شاہکار پر بڑے بڑے ناقدین ِفن نے تبصرے لکھے۔ لی ہارو(LE HARVE)جیسے مشہور ترین آرٹ میوزیم میں صادقین کو جگہ دی گئی ان کی چودہ تصویروں کو وہاں آویزاں کیا گیااور پھر صادقین ان لوگوں کی نگاہوں کا مرکز بن گیا جو لیونارڈو ڈاونچی اور پکاسو وغیرہ کی تصویریں جمع کرتے تھے۔

یہ سب باتیں جب نہاں خانہ ذہن سے باہر آئیں تو مجھے علامہ ظفر اللہ شاہ کے جملے کی خوفناکی کا مکمل احساس ہوا اور میں نے علامہ صاحب سے کہا،یہ کیسے ممکن ہے کیا مذہبی شدت پسند قرآن و حدیث کا علم نہیں رکھتے، کیا ان کی نظر سے یہ آیت نہیں گزری۔یعملون لہ مایشاء من محاریب وتماثیل(34/13)حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق قرآن حکیم میں یہی آیا ہے نا کہ انہوں نے مختلف علاقوں کے نادرہ کار صناع اپنے ہاں جمع کر رکھے تھے‘‘۔ علامہ صاحب کہنے لگے’’تماثیل کا لفظ مجسمہ اور تصویر دونوں کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ تصاویر اور مجسموں کیلئے ابتداء میں احتیاط برتی گئی کیونکہ اسلام نے بت پرستی کا قلع قمع کرنا چاہا تھا۔ جب مسلم معاشرہ میں بت پرستی کا اندیشہ باقی نہ رہا تو علماء نے اس سلسلے میں پہلے کی شدت چھوڑ دی اور نرم گوشے پیدا کر لئے بڑے بڑے مدعیان شریعت جو ماضی قریب میں تصویر اتروانا تو کیا تصویر دیکھنا بھی حرام سمجھتے تھے اب خوش ہو کر تصویریں کھنچواتے ہیں اخبارات میں اپنی تصویریں دیکھ کر خوش ہوتے ہیں، ٹی وی پر پروگرام لیتے ہیں اور اپنے جلسوں کی فلمیں بنواتے ہیں جہاں تک مجسمہ سازی کا تعلق ہے کچھ سال پہلے مولانا مودودی کو شاہ فیصل ایوارڈ دیا گیاتھا یہ ایوارڈ کیا تھا اس کے Medalمیں شاہ فیصل مرحوم کی تصویر ڈھلی ہوئی تھی یہ تو تصویر سے آگے بڑھ کر مجسمہ کی ذیل میں آتی ہے۔

علامہ ظفر اللہ شاہ نے شدت پسندوں کے حوالے سے جو کچھ کہا اگرچہ اس وقت اس کی صداقت پر کسی کو یقین نہیں آسکتا لیکن مستقبل کی پیش گوئیاں کرنے والے چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ اگر فوری طور پر ان کے خلاف کوئی بھرپور آپریشن نہ کیا گیا تو یہی کچھ ہو گا بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ۔ میری معلومات کے مطابق مذہبی شدت پسندوں کی حمایت یافتہ کچھ اسلامی تنظمیوں نے تقریباً دوماہ پہلے دبئی میں اسلامی فنڈنگ کرنے والوں کو ایک پریزنٹیشن دی۔ جن میں انہوں نے داتا دربار، مادھو لال حسین کا دربار، میان میر کا مزار، سلطان باہو کے مزار کی ویڈیو دکھائیں کہ دیکھئے لوگ قبروں کو سجدے کر رہے ہیں۔ انہوں نے ان سب مزارات کو شرک کے بڑے بڑے مراکز قرار دیا اور کہا انہیں تباہ کرنا کسی بت خانے کو گرانے سے زیادہ ثواب کا کام ہے۔اطلاعات کے مطابق انہیں اس مقصد کیلئے فنڈنگ فراہم کردی گئی ہے اور دو ہزار چودہ میں ان تمام مزارات کو بموں سے اڑا دینے کی پلاننگ تیار کر لی گئی ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے شام میں سیدہ بی بی زینب، حضرت خالد بن ولید اور حضرت عمار بن یاسرکا مزار تباہ کیا گیا بلکہ ان کی لاش بھی قبر سے نکال لی گئی جسے حکومتی فوجوں نے دہشت گردہوں سے چھین کر دوبارہ دفن کیا۔

میں شدت پسندوں کے ہاتھوں سے ان عمارات کی تباہی بھی دیکھ رہا ہوں جہاں کی لوحوں پر صادقین کے ہاتھ مشیعت گھماتی تھی۔ جہاں اس نے اُقلیدسی نقاشی کی تحریک(CUBISM) درج کر دی ہے۔ جو قنوطی معکوس اور واژگوں تصویروں سے مرصع ہیں۔ جہاں قرآنی خطاطی کا الوہی تخیل پھیلا ہوا ہے۔ بہرحال اس وقت صادقین کی بنائی ہوئی لاہور کے عجائب گھر کی چھتیں خطرے میں ہے۔مادھولال کے مزار پر ڈالے جانے والی دھمالوں تلے ریموٹ کنٹرول بم نصب کر دئیے گئے ہیں ۔سخی شہباز قلندر کے دربار پر بجنے والی ڈھولک میں بارود بھرا جارہا ہے۔ خانقاہوں کی دہلیز لہو سے تر ہونے والی ہے۔ تہذیب و ثقافت کے چیتھڑے اڑنے والے ہیں….وقت بہت کم ہے مگر کسی کو احساس ہی نہیں۔جنابِ نواز شریف آپ کو صادقین کا واسطہ ہے جو کچھ بھی کرنا ہے فوری طور پر کیجئے۔

mansoor afaq

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے