شرم ناک . mansoor afaq
دیوار پہ دستک

شرم ناک

شرم ناک

شرم عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مفہوم”حیا“ کا ہے اور” ناک“ فارسی زبان کا لاحقہ ہے ۔ جیسے ”نم ناک “ زہر ناک “ ”افسوس ناک“ وغیرہ ۔اردو دائرہ معارف العلوم کے مطابق اس لفظ کا پہلامفہوم شرمیلا، شرمگیں اور باحیا کا ہے۔ لغت کے مطابق اردو شاعری میں اس لفظ کا استعمال کچھ اس طرح ہوا ہے
خلوت نہیں محال بتِ شرم ناک سے
دورِ زمانہ حلقہ بیرونِ در تو ہو
اس ترکیب کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ ایسا فعل جس سے خجالت اور شرم لاحق ہو۔ عمران خان نے یقینا اس لفظ کو اسی مفہوم میں استعمال کیا ہے مگر یہ سوال اپنی جگہ پر ہے کہ کیا یہ گالی ہے یا نہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ اگر یہ گالی ہے تو پھر کس کس کو نکالی جا چکی ہے۔ منقبتِ حضرت علی میں آسمان کو پڑتی ہوئی یہی گالی دیکھئے
سرمہ ہے چشم ِعرش کا پائے علی کی خاک
قدرِ بلند دیکھ کے گردوں ہے شرم ناک
اس شعر میں دیکھئے شاعر نے یہی گالی کیسے اپنے محبوب کی پلیٹ میں رکھ دی ہے
ملنا رقیب سے ترا کتنا ہے شرم ناک
میں شرمسار خود سے ہوں تیرے مزاج پر
یہ شعر دیکھئے ۔ شبِ وصال کی وضاحت میں شبِ شرم ناک کی ترکیب کیسے استعمال ہوئی ہے،لطف آگیا ہے
احوالِ وصل کچھ تو ہو آنکھوں کے سامنے
دل کہ کرے تلاش شبِ شرم ناک کی
میرا خیال ہے یہاں معاملہ گالی سے زیادہ ”انا“ کا ہے۔ یہ ”انا“ بھی کیا چیز ہے ۔ حضرت اقبال کے پاس پہنچے تومردِ مومن کی ”خودی“ بن جائے اور جنابِ غالب کی گلی میں جانکلے تو عاشق کے ”پندار“ میں ڈھل جائے ۔ میرا عمران خان کو یہی مشورہ ہے کہ وہ غالب کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے پندار کا صنم کدہ ویران کر دیں اور کچھ دیر”طوافِ کوئے ملامت“ کی خوبصورتی سے دل بہلائیں وگرنہ
کھلنا نہیں جنہوں نے یہ ایسے کواڑ ہیں
دونوں طرف اناؤں کے اونچے پہاڑ ہیں
توہین ِ عدالت کے اس مقدمے پرتحریک انصاف کے ایک کارکن نے مجھ سے بڑا ”معصومانہ “ سوال کیا”کہ کیا عمران کا لفظ شرم ناک کا استعمال کیابہت خطرناک ہے، تو مجھے منصور حلاج یاد آگئے جنہیں شبلی کے پھولوں کی چوٹ تختہ دار کی تڑخ سے زیادہ محسوس ہوئی تھی۔
وہ جانتا تھااِس میں یہ بولتا ہے کون
منصور چیخ اٹھا، شبلی جو پھول مارا
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ چند ریٹرننگ افسروں کی وجہ سے پوری عدلیہ کو بدنام کرنا بری بات ہے توعمران خان کو اس بات کا خیال کرنا چاہئے مگراِن چھوٹی عدالتوں پر بھی کسی کو تو نظر رکھنی چاہئے جن کی کارکردگی پر لوگ نکتہ چینی کرتے سنے جاتے ہیں۔ انتخابات کے دنوں میں بھی اس حوالے سے اکثر شکایات سننے میںآ تی رہیں، جن پر میڈیا میں بھی آواز اٹھائی گئی پولنگ اسٹیشنوں پر دھاندلی کی ویڈیوز بھی دکھائی گئیں مگر شاید عدیم الفرصتی کی وجہ سے کسی کی نظر ان پر نہیں پڑی۔احمد مشتاق کا ایک شعر یونہی یاد آگیا ہے۔اس منظر نامے سے اس کا تعلق تو نہیں مگر سن لیجئے
میں نے کہا کہ دیکھو یہ میں یہ ہوا یہ رات
اس نے کہا کہ میری پڑھائی کا وقت ہے
جہاں تک عمران خان کے اس بیان کا تعلق ہے کہ میں معافی نہیں مانگوں گا کیوں کہ میں نے عدالت کی توہین نہیں کی ہے تو عمران خان کو اپنے اس بیان پر نظرثانی کرنی چاہئے انہیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ پاکستان میں عدلیہ کی آزادی کیلئے خود انہوں نے کتنی محنت کی ہے سواس وقت ایک نعمت ِ غیر مترقبہ کی حیثیت سے آزاد عدلیہ ہم سب کیلئے ایک محبوبہ جیسی ہے اور محبوبہ کا وقار ملحوظ رکھنا عشاق پر فرض ہوتا ہے۔ اس سے تو ہزار مرتبہ معافی مانگی جاسکتی ہے۔ویسے عمران خان نے چھوٹی عدالتوں کے انتخابات میں کردار پر” شرم ناک“ کا لفظ استعمال کیا ہے۔اس لئے توہین عدالت کا مقدمہ بھی انہی چھوٹی عدالتوں میں ہونا چاہئے تھا۔ سپریم کورٹ کو درمیان میں آنے کی ابھی ضرورت نہیں تھی۔ اب اگرچیف جسٹس کا دھیان اس طرف آہی گیا ہے تو ہمیں معافی مانگ کر آگے بڑھ جانا چاہئے اسی میں ہم سب کی بہتری ہے۔بقول عطاالحق قاسمی
بہتر یہی ہے جاں کی اماں پائیے عطا
اُس شوخ وشنگ یارکے تیور خراب ہیں

mansoor afaq

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے