شدت پسندی. mansoor afaq
دیوار پہ دستک

شدت پسندی

شدت پسندی

میں جب پیدا ہوا تھا تو ایوب خان نے مارشل لاء لگا رکھا تھاپھر یحییٰ خان نے لگا دیاپھر ذراساجمہوریت کا دور دیکھاتو ایک اور مارشل لاء پاکستان کی تاریخ میں مدو جزر پیدا کرنے لگا۔گویا میں کہہ سکتا ہوں کہ تیغوں یعنی سنگینوں کے سائے میں پل کر جوان ہوا ہوں۔سنگینوں کے سائے میں پل کر جوان ہونے والے فنکار کی سائیکی جیسی ہونی چاہئے۔ شاید میری سائیکی ویسی ہی ہے۔خوف کی کسی طویل رات میںعلامتوں اور استعاروں کی مدد سے روشنی اور خوشبوکی گفتگو۔۔ اتنے دھیان اور خیال سے ۔۔ کہ کہیں ذرا سی لغزش سے پائوں کسی زنجیر پر نہ جا پڑے۔میری سائیکی پر سب سے گہرے اثرات جنرل ضیا ء کے دور میں مرتب ہوئے ۔جب ضیاء نے مارشل لاء لگایا تو میں اس وقت پندرہ سولہ سال کاتھا۔مجھے انہی دنوں یوں محسوس ہونے لگا تھا کہ ہم بارہ پندرہ کروڑبے بال و پر پرندے ہیں۔قیدی بھی نہیں ہیں اور اڑ بھی نہیں سکتے۔جوانی ذرا بھرپور ہوئی تو کچھ دوستوں نے افغانستان جاکر جہاد کرنے پر مائل کرنے کی کوشش کی تو میں انہیں اپنے استادگرامی سید نصیر شاہ کے پاس لے گیا۔شاہ صاحب نے روس کے حق میںاور امریکی جہاد کے خلاف تقریباً گھنٹہ بھر گفتگو کی مگر میرے دوست نہ مانے اور امریکی جہاد پر چلے گئے۔یہ چار نوجوان تھے ان میں ایک شہید ہوگیا ۔اور دوواپس آگئے تھے۔چوتھے کا کچھ پتہ نہیں ۔

وہ افغانستان میں ہی رہ گیا تھا۔واپس آنے والے دوستوں نے مجھے کہا۔’’ شاہ صاحب ٹھیک کہتے تھے ۔ جب ہم نے روسی فوج کے ایک افغانی سپاہی کو قتل کیا تو اس وقت اس کی زباں پر کلمہء طیبہ رواں تھا جب ہم نے اس کی تلاشی لی تو اس نے اپنے سینے پر سورۃ یٰسین باندھی ہوئی تھی۔ میں نے پوچھا ۔سچ سچ بتائو تم گئے کیوں تھے۔توان میں سے ایک نے اپنے محلے کے ایک مولوی صاحب کاحوالہ دے کر کہا کہ انہوں نے کہا تھا کہ تم میںسے ہر شخص کے گھر میں ہر مہینے بیس ہزار روپے پہنچ جایا کریں گے اور واپسی پرتمہیں ایک ایک کلاشن کوف بھی دی جائیگی۔ اس زمانے میں بیس ہزار روپے خاصی بڑی رقم تھی۔پھر مولوی صاحب نے مرنے پرجنت کی بشارت دی ہوگی۔

مذہب کے نام پر رُکی ہوئی زندگی اور اس پر حکومتی نوازشات کی بارش کب یہ سوچنے دیتی ہے کہ ہوا ساکت ہے یا چل رہی ہے ۔خیال منجمد ہے یا رواں دواں ۔یہ معلوم کرنا وہاںممکن نہیں رہتا کہ اندھیرے میں جو سفر جاری ہے وہ ہمیں آگے کی طرف لے جارہا ہے یا پیچھے کی طرف۔اسی امریکی جہادِ افغانستان نے ایسے ہزاروں مجاہد پیدا کئے جنہیں اُس جہادعظیم سے فتح کے نشے کے ساتھ ساتھ خاصا مال غنیمت بھی ملا۔مال ِ غنیمت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ میں 1992میں جب میانوالی کے پہاڑی علاقے میں ڈرامہ سریل ’’پتھر‘‘ پروڈیوس کر رہا تھا۔تو جس کمپنی سے ٹیکینکل سہولتیں حاصل کی تھی اس کا سربراہ بھی اسی جہاد کا ایک مجاہد تھا ۔ اس کے پاس جو گاڑی تھی وہ بالکل ویسی ہی تھی جیسی امریکی فوجی فلموں میں استعمال کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ان مجاہدین کے دماغ آسمان پر پہنچ گئے تھے ۔پھرجب ان پاکستانی مجاہدوں نے پاکستانی حکومت کی سپورٹ سے ملا عمر کے ساتھ مل کر کابل پر قبضہ کرلیاتو ان کے دماغ ہی خراب ہوگئے۔انہوں نے اپنی مجاہد فورس کو بڑھانے کیلئے تقریباً ہر شہر کی دوچار مسجدوں میں کیمپ کھول لئے۔ایک مخصوص نقطہ ء نظر کے مولویوں نے جہاد فی سبیل اللہ کی تبلیغ کا سلسلہ تیز کردیا یعنی قتال فی سبییل اللہ کا کلچر عام ہوگیا۔مسلم امہ کی ایک حکومت اور پوری دنیا کو فتح کرنے کی سوچ بیدار کی گئی جس کی وجہ سے پاکستانیت کو بہت نقصان ہوا۔کشمیر سے لے کرکابل تک ہر پہاڑی راستے پر ایسے نعرے جگمگانے لگے ۔’’امریکہ کی بربادی تک ۔جنگ رہے گی جنگ رہے گی‘‘۔ خبر تو یہاںتک آئی کہ افغانستان میں شد ت پسندوںنے اٹامک اسلحہ کی تیاری کے متعلق کام کرنا شروع کردیا تھااورایک مشہور ایٹمی سائنسدان بشیرالدین محمود بھی افغانستان تشریف لے گئے۔تھوڑا بہت کام کیا بھی۔ یہ تھے وہ مجاہدین جوافغانستان میں امریکہ سے شکست کھانے کے بعد پاکستان کے دشمن بن گئے کہ پاکستان نے ہمارا ساتھ کیوں نہیں دیا۔حقیقت یہ ہے کہ پاکستان ان کا ساتھ اس لئے نہ دے سکا تھاکہ ان میں سے اکثریت علم کے خلاف تھی ۔جن کے دماغوں پر صرف خون سوار تھا۔عقل کی کوئی بات ان کے دماغ میں آتی ہی نہیں تھی۔امریکی حملے سے بچنے کیلئے پاکستانی حکومت کی طرف سے انہیں بہت سے راستے بتائے گئے تھے مگرانہوں نے ایک بات بھی نہیں مانی تھی۔الٹا جنرل پرویز مشرف کو قتل کرنے نکل پڑے تھے ۔یوں پاکستان میں دہشت گردی کا سلسلہ شروع ہوگیا۔دنیا بھر کی پاکستان مخالف قوتیں ان کی پشت پناہی کرنے لگیں۔ایک اسلامی ملک نے بھی مسلک کی بنیاد پر ان کی ہر ممکن مدد کی ۔ان میں سے کچھ طالبان ایسے تھے۔ جنہوں نے کہاکہ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی سے ہماراکوئی تعلق نہیں۔اس وجہ سے اچھے اوربرے طالبان کی اصطلاحیں سامنے آئیں۔اور پھر معاملہ یہاں تک پہنچا کہ سولہ دسمبر کا سورج نے اچھے اور برے دونوں طرح کے طالبان کا مکمل خاتمہ کردیا۔

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے