
شام تک دیکھئے کیا ہوتا ہے
شام تک دیکھئے کیا ہوتا ہے
شاعرِ لاہور نے کہا تھا ۔’’ترا مکہ رہے آباد مولا۔ مرے لاہور پر بھی اک نظر کر‘‘سنا ہے آج لاہور کافیصلہ ہونا ہے۔دیکھتے ہیں کہ کرم کی کوئی نئی نظر ہوتی ہے یا فضل ِ ربی کا وہی پرانا تسلسل جاری و ساری رہتا ہے ۔مسلمانوں کے نزدیک آوازِ خلق ،نقارہ ِ خدا ہوتی ہے۔شام تک نقارہ بج جائے گا۔کچھ ہی دیر میں مغرب و مشرق کی گھنٹیاں بج جائیںگی کہ داتا کی نگری بدستور نواز شریف کے ساتھ کھڑی ہے یا اُس نے تحت ِ لاہور کا کوئی نیا وارث چُن لیا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ شریف فیملی ایک طویل عرصے تک لاہوریوںکے دلوں پر قابض رہی ۔اُن کے تصرف و تسلط کا پھیلائو دیکھئے۔ یہ انیس سو چوراسی کی بات ہے۔ میری نئی نئی عطاالحق قاسمی سے دوستی ہوئی تھی ۔میانوالی اور لاہور ایک ہوئے تھے۔ان دنوں وہ ایم او کالج میں پڑھایا کرتے ہیں ۔میں پندرہ دن کیلئے لاہورآیاتھااور یہ معمول بنا لیا تھا کہ روزانہ دس گیارہ بجے ان کے پاس پہنچ جاتا تھا۔وہاںامجد اسلام امجدبھی ہوتے تھے۔ اورلوگ آتے جاتے رہتے تھے ۔روزانہ ایک آدھ ایسا غریب بھی آجاتا تھا جسے قاسمی صاحب ایک چٹ کے ساتھ میاں شریف کے پاس بھیج دیتے تھے کہ حامل رقعہ ہذاکی امداد کی جائے ۔انہی میں سے دو ایک لوگ میری موجودگی میںقاسمی صاحب کے پاس مٹھائی لے کر بھی آئے کہ آپ کی مہربانی سے ہمارا کام ہوگیا۔آج سوچتا ہوں کہ صرف قاسمی صاحب کے کہنے پر میاں شریف ایک سال میں دو ڈھائی سو لوگوں کی امداد کرتے تھے ۔قاسمی صاحب جیسے ان کے کئی اوربھی احباب ہونگے۔یعنی وہ ہزاروں لوگوں کی امداد کرتے ہونگے۔ ان کی تعداداگر ایک سال میں دس ہزار بھی قراردے دی جائے تواس وقت تک لاہور میں ایسے کئی لاکھ لوگ ہونگے جو دل کی گہرائیوں سے شریف فیملی کے ممنون ہونگے۔ جنہیں نوکریاں ملی ہونگی۔ پیلی ٹیکسیاں ملی ہونگی، چھوٹے قرضے ملے ہونگے ۔ کاروبار میں مدد ملی ہوگی ۔سائیکلیں ملی ہونگی ۔سلائی مشینیں ملی ہونگی ۔ریڑھیاں ملی ہونگی ۔ نقد امدادملی ہوگی ۔
اسی طرح پنجاب کی بیوروکریسی کے ساتھ شریف خاندان کے مراسم بھی پاک چین دوستی کی طرح ہمالیہ سے اونچے اور سمندر سے گہرے ہیں ۔جس افسر کا بھی ایک بار اِن لوگوں سے واسطہ پڑگیاوہ انہی کا گرویدہ ہو گیا ۔حتی کہ عہدِ زوال میں بھی وہ تعلق برقرار رہے ۔ میرے ایک دوست جو بہت بڑے افسر ہیں ۔ اب بھی شہباز شریف کے ساتھ ہیں۔وہ 98ءمیں نواز حکومت کے غیر آئینی خاتمے کےبعد ڈیڑھ سال بڑی مشکل میں رہے اور پھر جدہ سے پیغام آیاکہ وہی کرو جو ایسے حالات میںعقلمند کیا کرتے ہیں۔ابھی جب نواز شریف نے حکومت بنائی تو خاصے وزیر ایسے سیانے جوپرویز مشرف کے ساتھی تھے ۔میںنے کسی سے سوال کیا کہ’’ یہ کیامعاملہ ہے‘‘ تو اس نے ہنس کر کہا ’’یہ وہ لوگ ہیں جو کہیں بھی ہوں سمجھو کہ نواز شریف کے ہیں ۔یہ تو لوگوں کے ساتھ شریف فیملی کی محبت کی داستان ہے۔اگرلاہور میں ہونے والے تر قیاتی کاموں کی طرف دیکھا جائے تو پچھلے تیس سال میں اِس خاندان کے پاس جب بھی پنجاب کی حکومت آئی ہے اس نے بجٹ کاایک بڑا حصہ صرف لاہور پر خرچ کیا ہے۔
آج کے انتخاب میں نون لیگ کو ایک برتری یہ بھی حاصل ہے کہ اس وقت پاکستان میں اس کی حکومت ہے اورحلقہ ایک سو بائیس میںوہ وزرا ء بھرپورکردارادا کر رہے ہیںجو لوگوں کیلئے فائدہ مند ہوسکتے تھے۔ بے نظیرانکم سپورٹ پروگرام کی چیئر پرسن ماروی میمن تک پہنچی ہوئی ہیں۔پنجاب پولیس اور الیکشن کمیشن کو بھی اِس پارٹی سے جدا نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اس پارٹی کی پاکستان میں حکومت ہے ۔لوگوں کے ذاتی مفادات بھی انہی سےوابستہ ہیں ۔ آئی جی سے ایس ایچ او تک سبھی انہی کے ہے ۔ پٹواری سے ہوم سیکرٹری تک سبھی انہی کی بات پرسرِ تسلیم خم کرتے ہیں اورپھرایاز صادق کی انتخابی مہم کے انچارج خودوزیر اعلیٰ پنجاب کے فرزند ہیں۔ایک طرف یہ فیملی ہے ۔ دوسری طرف اکیلاعمران خان ہے۔جس نے اپنی ہتھیلی پر ایک خواب رکھا ہوا ہے ۔ نئے پاکستان کا خواب ۔کرپشن اور ناانصافی سے پاک پاکستان کا خواب۔ہر شخص کے دروازے پر روزگار پہنچانے کا خواب۔ہر طرح کی لوڈشیڈنگ کے مکمل خاتمے کا خواب۔قوم کی عزتِ نفس بحال کرنے کا خواب۔صحت مند اور سرسبز و شاداب پاکستان کا خواب۔ایک ترقی یافتہ مملکت کا خواب اور اس کے ساتھ خواب پورا ہونے کا محکم یقین۔یہی سوال آج کا اہم ترین سوال ہے کہ کیا خواب فتح مند ہوگا ۔
کیا روشنی اور خوشبو کےگیت گونجیں گے ۔کیاشعور کی سطح اتنی بلندہوچکی ہے کہ لوگ چھوٹے چھوٹے مفادات بھول کر نئے پاکستان کے خواب کی تعبیرپر مہر لگائیں گے ۔ ویسے خوبصورت خوابوں کی تعبیر تلاش کرنا توانسانی فطرت میں شامل ہے۔لوگ کوئی خواب دیکھ لیتے ہیں اور پھر ساری عمر اُسی کو مژگاں میں پروتے رہتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے بھی کچھ ایسے ہی خواب قوم کی پلکوں پر سجائے تھے مگرتعبیرکی تلاش میں انہیں پھانسی پر جھولنا پڑگیا تھا۔اس کے برعکس علامہ اقبال نے ایک دلربا خواب دیکھا تھاجسے قائداعظم محمدعلی جناح نے تعبیر عطا کردی تھی۔ شام تک دیکھئے کیا ہوتا ہے ۔لیکن یہ طے شدہ بات ہے کہ جو فیصلہ آئے گا وہ بڑے دور رس نتائج کا حامل ہوگا۔

