
سکل ڈیولپمنٹ کونسل
سکل ڈیولپمنٹ کونسل
سکل ڈیولپمنٹ کونسل ، جیسا کہ نام سے ظاہر ہے سرکارکی بنائی ہوئی ایک کونسل ہے جو ملک وملّت ایسے فنون کو فروغ دینے کے لیے قائم کیا ہے جن کی ہمہ وقت قومی صنعت کو ضرورت رہتی ہے۔یہ دراصل ایک اور سرکاری محکمے نیشنل ٹریننگ بیورو کے الحاق سے کام کرنے والا ایک خود مختار ادارہ ہے۔ سکل ڈیولپمنٹ کونسل کی چار بڑی شاخیں ہیں جو علی الترتیب اسلام آباد، کراچی، لاہور، اور پشاور میں کام کررہی ہیں۔صوبائی کونسلز کا حال تو پہلے سے ابتر تھا البتہ اسلام آباد سکل ڈیولپمنٹ کونسل گزشتہ سالوں میں کماحقہْ کام کیا۔ پٹرولیم، سول انجنیئرنگ، مکینکل انجنیئرنگ، الیکٹریکل انجنیئرنگ حتٰی کہ کمپیوٹراور سافٹ ویئر ڈیولپمنٹ میں بھی اسلام آباد کونسل نے ہزاروں بے روزگار ڈپلومہ اور ڈگریز ہولڈرز کو اعلیٰ درجے کا ہنر مند بناکر نہ صرف روزگار فراہم کیا بلکہ ملک و قوم کو ایک مثبت اور تعمیری کام پر لگانے کی راہ سجھائی۔اسلام آباد سکل ڈیولپمنٹ کونسل کے ساتھ بہت سے حکومتی ادارے بطور کلائنٹ آرگنائزیشن جڑے رہتے ہیں اور سال میں گاہے بگاہے اپنے ملازمین کو جدید ٹیکنالوجی کی تربیت دلوانے کے لیے کونسل کے کالج میں بھیجتے رہتے ہیں۔
دو روز قبل مجھے سکل ڈیولپمنٹ کونسل اسلام آباد کے مارکیٹنگ ایگزیکٹو بلال احمد کا ایک خط موصول ہوا۔ جن میں اسلام آباد کونسل کو درپیش نامساعد حالات کا اجمالی خاکہ تھا۔ میں اپنے قارئین کے لیے وہ خط من و عن شائع کررہا ہوں۔
"برادرم! آپ دانشورلوگ ، سیاسی کالم لکھتے ہیں۔ کبھی قومی محکموں اور اداروں میں ہونے والے واقعات پر بھی نظرِ عنایت ڈالا کریں۔سکل ڈیولپمنٹ کونسل اسلام آباد جو بین الاقوامی طور پر ایک پاکستان کا ایک قابل ِ فخر ادارہ ہے گزشتہ چند دنوں سے بند پڑا ہے۔ ہمارے چیئرمین میاں فرید ہیں۔ جو ایک بہت بڑے صنعت کار بھی ہیں۔ جناب! سکل ڈیولپمنٹ کونسلز کے چیئرمین ہمیشہ صنعت کار اور مل اونرز ہی کیوں ہوتے ہیں؟ میں نے ایک مرتبہ یہی سوال اپنے سی او سے کیا تھا تو انہوں نے جواب دیا تھا کہ چونکہ حکومت کو یہ اْمید ہوتی ہے کہ وہ لوگ اپنی فیکٹریوں کے ملازمین کو ٹریننگ دلوانے کے لیے کونسل بھیجیں گے اور اس لیے ہمیشہ سے کونسل کا چیئرمین کوئی نہ کوئی مل اونر یا سرمایہ دار ہوتاہے۔ میاں فرید سے پہلے ایک اور صنعت کار امتیاز راستگار اسلام آباد کونسل کے چیئرمین تھے۔ تو جناب! میں نے یہ دیکھا ہے کہ آج تک کونسل کی کلاسز میں کسی مل یا فیکٹری کا کوئی انجنیئر یا سب انجنیئر کسی طرح کی تربیت کے لیے نہیں آیا۔ جب سے کونسل وجود میں آئی ہے کوئی ایک ٹرینی بھی ایسا ثابت نہیں کیا جاسکتا جو چیئرمین کی ذاتی ملوں سے یا بورڈ آف ڈائریکٹرز کی ملوں سے یہاں تربیت کے لیے آیا ہو۔ اس کے برعکس صنعت کاروں کو کونسل کا چیئرمین بنانے کا ہمیشہ نقصان ہی ہوا ہے۔
وہ پرائیویٹ دنیا سے آئے لوگ ہوتے ہیں اور سرکاری اداروں کی سربراہی کی صلاحیتوں سے مکمل طور پر محروم ہوتے ہیں۔ موجودہ چیئرمین نے آتے ہی اسلام آباد کونسل کو اپنی مِل سمجھ لیا اور تب سے اب تک ہرچیز ذاتی ملکیت کے قانون کے تحت چلتی رہی۔ لیکن اب آکر ہمارے سی او محمد ریاض نے انہیں ٹوکنا شروع کردیا تھا۔ اب آکر ٹوکنے کی ایک خاص وجہ یہ بھی تھی کہ چیئرمین میاں فرید کا ایک ذاتی ملازم طاہر کونسل کے اکاوٴٹننٹ سے بہت سی رقم اور بہت سے بِل چھین کرلے گیا تھا۔ اس پر سی او صاحب کو بہت غصہ آیا اور انہوں نے چیئرمین سے شکایت کی۔ بس پھر کیا تھا ؟ چیئرمین مِل اونر تھے۔انہوں نے سی او محمد ریاض کو فوری طورپر ان کی کرسی سے ہٹانے کا حکم نامہ جاری کردیا۔جبکہ ایک سرکاری ادارہ ہونے کی وجہ سے وہ ایسا کرنے کے مجاز نہ تھے۔ اگر کوئی محمد ریاض کو ان کے عہدے سے ہٹا سکتا تھا تو وہ کونسل کا بورڈ آف ڈائریکٹرز تھا۔ لیکن چیئرمین نے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی میٹنگ کال کرنے کی بجائے سی او محمد ریاض کو نہ صرف عہدے سے ہٹانے کا لیٹر جاری کردیا بلکہ ساتھ ہی پولیس بھی بلا لی۔ہمارے سی او نے یہ صورتحال دیکھی تو بہتر سمجھا کہ اب سب کچھ میڈیا کے سامنے آجائے ، چنانچہ پولیس کے ساتھ جانے سے پہلے انہوں نے ٹی وی والوں کو کال کردی۔کیمرہ مین فوری طور پر پہنچ گئے۔ ساری صورتحال ، پولیس کی موجودگی میں ان کے سامنے رکھی گئی لیکن افسوس کہ میڈیا بھی ایک سرمایہ دار کے پیسوں کی چمک میں آگیا۔ سوائے ایک چینل کے ، باقی تمام چینلز نے کوریج ہی نہ دی۔
اب کئی روز سے کونسل بند ہے۔جاری کلاسز اچانک روک دی گئی ہیں۔ ملک بھر سے آئے ہوئے طالب علموں کو عجیب صورتحال کا سامنا ہے۔ ٹرینیز ہر روز کونسل آتے اور باہر گیٹ پر کھڑے رہ کر واپس چلے جاتے ہیں۔ بعض نہایت حساس اداروں میں جاری ٹریننگ کورسز یکلخت رْک گئے ہیں۔ یہی نہیں ملازمین کی تنخواہوں کے چیکس پر چیئرمین محض اس لیے دستخط نہیں کررہے کہ اگر وہ دستخط کردیتے ہیں تو یہ ثابت ہوجائے گا کہ انہوں نے محمد ریاض صاحب کو سی او تسلیم کرلیا ہے۔ کیونکہ انہوں نے جو ٹرمینیشن لیٹر جاری کیا ہے اس پر پچھلے مہینے کی 25 تاریخ ڈالی گئی ہے۔
اور اس طرح سیکڑوں لوگوں کو بلاوجہ پریشان کیا جارہا ہے۔ خدارا اگر آپ کی وساطت سے حکومت کچھ سنتی ہے تو میری بس اتنی سی درخواست ہے کہ کونسل کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی میٹنگ بلائی جائے اور اتنے سنگین مسائل کو میٹنگ میں ڈسکس کیا جائے۔ چیئرمین نے غلط ہونے کا سب سے بڑا ثبوت ہی یہی ہے کہ اْنہوں نے اتنے بڑے بڑے واقعات کے بعد بھی ابھی تک بورڈ آف ڈائریکٹرز کی میٹنگ طلب نہیں کی اور نہ بورڈ ممبران نے زحمت کی کہ ہرسال اتنے بڑے بڑے فنڈز تو کھا جاتے ہیں ، لیکن ذرا پتہ تو کریں کہ ہمارے نام پر چلنے والی کونسل میں ہوکیا رہا ہے؟”
میں نے اپنے قارئین اور متعلقہ حکام تک اس نوجوان کی بات پہچانے کے لیے اس خط کو اپنے کالم کا حصہ بنایا ہے۔ اب سوچ رہا ہوں کہ نئی حکومت بن رہی ہے۔ میاں نواز شریف اسلام آباد پہنچنے ہی والے ہیں۔ اور وہ خود ایک بہت بڑے انڈسٹریلسٹ ہیں۔ یقیناً آنے والے چند ہی دنوں میں سکل ڈیولپمنٹ کونسل کا مسئلہ بھی کسی نہ کسی طرح حل ہوہی جائیگا۔ میرا اب یہ بھی خیال ہے کہ نئی حکومت کے ساتھ چیئرمین کی وفاداریوں کو بھی مدنظر رکھا جائے گا اور نوازشات یا بے رْخی ہردوطرح کا ردِ عمل براہِ راست چیئرمین اور بورڈ آف ڈائریکٹرز کی سیاسی وفاداریوں کے ساتھ منسلک ہے۔ چنانچہ سی او محمد ریاض ہوں یا ملازمین میں سے کوئی اور فرد ان کو چاہیے کہ وہ اپنا بوریا بستر لپیٹنے کا بھی گاہے بگاہے سوچتے رہیں تو کوئی مضائقہ نہیں۔ویسے یہ بات ہے کتنی عجیب کہ ایک سرکاری محکمے کو ایک پرائیویٹ سربراہ چلاتا ہے۔

