سچائی ہم سے روٹھ گئی ہے . mansoor afaq
دیوار پہ دستک

سچائی ہم سے روٹھ گئی ہے

سچائی ہم سے روٹھ گئی ہے

فرمان ِ نبوی ہے کہ ہلاک ہوجائے وہ شخص ، تباہ و برباد ہوجائے وہ شخص جو جھوٹ بولتا ہے۔
میں آج بہت مایوس ہوں۔ بہت افسردہ ہوں۔یہ خبر میرے لئے بہت زیادہ تکلیف کا باعث ہوئی ہے کہ 90فیصد ارکان اسمبلی نے کاغذات ِ نامزدگی میں کہیں نہ کہیں جھوٹ کا سہارا ضرور لیا ہے۔47فیصد ارکانِ اسمبلی نے انکم ٹیکس ادا نہیں کیا۔ یہ ریلیاں یہ جلوس…یہ جمہوریت کی سڑکوں پر… دیر تک جلتے ہوئے کالے کاجل ٹائر… اپنے حقوق کی تلاش میںنکلی ہوئی یہ غربت زدہ زندگی … سوال کرتے ہوئے تباہ حال انسانی ڈھانچے ۔۔ بچوں سمیت خود کشیاں کرتی ہوئی مفلوک حال مائیں …یہ ڈاکٹر طاہر القادری… یہ عمران خان ۔یہ کیا کرلیں گے۔مجھے تو آج یہی سچ لگ رہا ہے کہ یہ سرمایہ دارانہ نظام ہی اک نہ ختم ہونے والی رات ہے۔ لوگ شاید ٹھیک کہتے ہیں کہ جتنے نظرئیے بھی اس نظام ِ زر کے خلاف آئے ہیں۔تاریخ میں ان کی عمر چند لمحوں کے برابر ہے یہی ظلم کا نظام یہی جھوٹ کا نظام ہمیشہ سے ہے اور شاید آنے والے انسان کا بھی یہی مقدر ہے سو نظام نہیں بدل سکتا۔ صرف چھوٹے چھوٹے انقلاب لائے جاسکتے ہیں۔یعنی اندھیرے کمرے میں چراغ جلائے جا سکتے ہیں ۔ تاریک گلیوں میں لائٹس لگائی جا سکتی ہیں۔ حکومتی تندورں پر دوچار روپے کی روٹی بیچی جا سکتی ہے۔غریبوں کے میلے میلے بچوں کیلئے اجلے اجلے اسکول کھولے جا سکتے ہیں۔ کسی بیمار بڑھیا کی دوائی خریدی جا سکتی ہے۔دوچار ہزار نوجوانوںکو قرضہ دیا جاسکتا ہے۔مگر نظام نہیں بدلا جا سکتا… مساواتِ محمدی کے خواب دیکھے جا سکتے ہیں ۔مگر تعبیرایک سوالیہ نشان کی طرح تاریخ کی آنکھوں میں چبھ رہی ہے۔پھر خیال آتا ہے کہ میں کوئی تعبیر کا ٹھیکیدار تو نہیں ہوں۔اپنی حیثیت تو اس پرندے کی ہے ۔وہی پرندہ جوچونچ میں پانی کا ایک قطرہ لے جا رہا تھاجب آتشِ نمرود جلائی گئی ۔کسی نے اس سے پوچھا کہ یہ پانی کا قطرہ لے کر کہاں جا رہے ہو تو کہنے لگا آتشِ نمرود کو بجھانے جا رہا ہوں۔پوچھنے والا ہنس پڑا اور بولا کہ میلوں تک پھیلی ہوئی آتشِ نمرود تیرے اس ایک قطرے سے کیسے بجھے گی تو اس نے کہا میں تو صرف اپنا نام لگانے والوں میں نہیں آگ بجھانے والوں لکھوانا چاہتا ہوں ۔۔

مگر اس بات کا دکھ تو بہت ہے کہ سچائی من حیث القوم ہم سے روٹھ گئی ہے۔لوگ ویران مقبروں کی طرح دکھائی دیتے ہیں اور شہر سنسان مسجدوں کی طرح…ایک طرف مہنگائی ہے جس نے سانس لینا دشوار کر رکھا ہے اور دوسری طرف خوف کی فضا ہے ۔ہر پرندے سے یہی اطلاعات ملتی ہیں کہ کچھ لوگ اپنے جسموں سے باردو کے ڈھیر باندھ کر پہاڑوں سے اتر آئے ہیں۔شمال کی خوبصورت بلندیاں… جہاں برف پگھلتی تھی اورٹھنڈے پانی کی بل کھاتی ندیاں زندگی کو سیراب کیا کرتی تھیں۔وہاں آگ کے دریا بہنے لگے ہیں ۔ ہر لمحہ میری گلیوں میں آنچ کی شدت بڑھتی جارہی ہے ۔ موت کا کھیل جاری ہے۔فتح کیلئے ہر ناجائز عمل کو جائز قرار دے دیا گیا ہے۔ہارنے کا حوصلہ کسی میں نہیں… جتن ہر کوئی کھیڈے ہارن کھیڈ فقیرا۔یہ وہ فقیر نہیں جو بادشاہِ وقت کو کاغذ کے پرزے پر لکھ کر بھیج دیا کرتے تھے۔کہ کیا تم چاہتے ہو ہم دلی کا تخت کسی اور کے حوالے کردیں۔تخت دلی کا ہو یا اسلام آباد کا۔چیف جسٹس چاہے افتخار محمد چوہدری ہوں یا کوئی اور۔سچائی کی عالمگیر جنگ تاریخ کے ایوانوں میں کبھی نہیں رکی۔تلواریں بجتی رہی ہیں۔ڈھالیں ٹوٹتی رہی ہیں۔نیزوں کی انیوں پر سر بلند ہوتے رہے ہیں….فقیر ہار کر بھی تاریخ کی کتابوں میںفتح کے جلوس نکالتے رہے۔مگرافسوس اس فتح کی عمربہت مختصررہی ۔ یہی جھوٹ بولنے والے یہی دھوکے دینے والے ، یہی فریب کار یہی طاقتور ہمیشہ سے اقتدار میں چلے آرہے ہیں۔ دکھ بڑھتا جا رہا ہے۔ اداسی گہری ہوتی جارہی ہے ۔

ہمارے گھر میں ایک’’ کانی چارپائی ہوتی تھی۔اس کا ایک پایہ بٹھانے کی کوشش کرتے تھے تو دوسرا خراب ہو جاتا تھا دوسرا بٹھاتے تھے تو تیسرا کونا خراب ہوجاتا تھا۔تیسرے کو ٹھیک کیا جاتا تھا تو چوتھا خراب ہو جاتا تھا۔ میرے بابانے اس کا نام پاکستان رکھا ہوا تھا۔اب تو اس چارپائی کے چاروں پایوں میں ’’کان‘‘ درآئی ہے۔روشنی کی کوئی کرن کسی طرف دکھائی نہیں دیتی۔ہرطرف اقتدار کے بھوکے گدھ دکھائی دیتے ہیں ۔بے شک یہ اقتدار کا گھوڑا…بڑا بے وفا ہے زیادہ دیر کسی کو بھی اپنی پیٹھ پربیٹھنے نہیں دیتا۔یقیناً کل کسی اور کے ہاتھ باگ پر ہوںگے اور پرسوں کسی اور کے پائوں میں رکاب ہوگی۔ لیکن ماضی حال اور مستقبل کے سارے سوار ایک ہی قبیلے کے لوگ ہوتے ہیں۔ زر پرستوں کایہ قبیلہ نظام زر کا نگہبان ہے….حکومت مسلم لیگ نون کی ہو یا تحریک انصاف کی ۔پیپلز پارٹی ہو یا کوئی پرویز مشرف اقتدار میں ہو۔۔اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یہ تمام صرف سرمایہ دارانہ نظام کی بقا کیلئے سر گرم ِ عمل ہیں ۔عدالت گاہوں سے بھی توقع فضول ہے کہتے ہیں دنیا کے تمام بڑے جرائم عدالت گاہوں میں ہوئے ہیں۔ سقراط کی موت کا فیصلہ بھی عدالت گاہ میں ہوا تھا عیسیٰ کو صلیب پرسجانے کاحکم بھی ایک عدالت سے دلایا گیا تھا۔ منصور حلاج کوبھی سولی پرلٹکانے کافیصلہ قاضی القضاۃ نے دیا تھا۔ گلیلیو کے لئے بھی موت کی سزا عدالت ہی نے تجویز کی تھی۔ پاکستانی عدالتوں میں بڑے بڑے جرائم ہوئے ہیں۔ دوستو معاف رکھنا میں آج بہت مایوس ہوں۔ نوے فیصد ارکان اسمبلی کے جھوٹ میرے پائوں کے نیچے سے زمین کھینچ لی ہے۔

mansoor afaq

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے