
سلیم شہزاد اسٹریٹ
سلیم شہزاد اسٹریٹ
میں نے اپنی موٹربوٹ دریائے سین کے کنارے پر روک دی اور پھر مونا لیزا بھی میرا ہاتھ پکڑ کر بوٹ سے اتر آئی۔ہم شانزے لیزے کی طرف بڑھ رہے تھے ایفل ٹاور کی بلندیاں ہماری پشت پر تھیں ۔پھر ہم نے سڑک کے بیچ بنی ہوئی نپولین بونا پارٹ کی یادگار کراس کی اور تھوڑا سا چل کر لیونارڈو ڈوِنچی ا سٹریٹ میں آ نکلے ۔مونا لیزا کے قدم کچھ تیز ہوگئے وہ جلدی سے جلدی اپنے خالق کی گلی سے نکل جانا چاہتی تھی ۔خیر ہم بالکل ساتھ ہی پکاسو روڈ پر مڑ گئے ۔وہاں سے والٹیئر روڈ پر جا نکلے۔ابھی تھوڑی سی دور گئے تھے کہ فرائیڈ ایونیو آگیا ۔پھر سارتر اسٹریٹ سے ہوتے ہوئے ہم سلیم شہزاد ا سٹریٹ پرآگئے۔اونچی اونچی بلڈنگوں میں گھری ہوئی یہ پتلی سی سڑک پیرس کے بالکل وسط میں تھی اس سڑک کا نام پہلے لارڈ بائرن ا سٹریٹ ہوا کرتا تھا ۔چند قدم چلے تو ہمیںاپنے بائیں طرف پاکستانی سفارت خانہ دکھائی دیا۔(پاکستان زندہ باد)
جیسے ہی گلی ختم ہونے کو آئی تو سامنے ایک کافی شاپ پر’’ روسو ‘‘اور’’پکاسو‘‘بیٹھے انقلابِ فرانس کی پینٹنگز پرگپ شپ کررہے تھے۔یہیںجنرل ڈیگال سے بھی علیک سلیک ہوئی ۔ چند قدم اور اٹھائے تو سامنے سارترکھڑا تھا وہ ہمارے ساتھ ساتھ چلنے لگا اُس نے مجھے مبارک باد دی کہ فرانسیسی حکومت نے یہ گلی سلیم شہزاد کے نام سےمنسوب کی ہے ۔اُس پاکستانی صحافی کے نام جس نے خونِ دل میں انگلیاں ڈبو کر سچ لکھا اور زندہ جاوید ہوگیا ۔شہادت کے مرتبے پر فائز ہوا۔میں جو پاکستانی ہوںمجھے لگا کہ ابھی میرا ضمیر زندہ ہے ۔
اور پھرمونا لیزا پکاسو کی کسی پینٹنگ میں گم ہوگئی اور میںصادقین کی بصری فرہنگ سے باہر نکل آیا۔مجھے محسوس ہوا جیسے لاہور کے الحمرا آرٹ سینٹر کے درمیان پارک میں بیٹھے ہوئے علامہ اقبال کے پاس کھڑا ہوں۔مجھے قریب ہی منوبھائی دکھائی دئیے جو آہستہ آہستہ چلتے ہوئے کشور ناہیدکی طرف جارہے تھے اور مجھے ان کا لکھا ہوا ایک کالم یاد آگیا ’’قتیل شفائی روڈ جس پر احمد ندیم قاسمی بھی رہتے ہیں ‘‘ احمد ندیم قاسمی اور قتیل شفائی ساتھ ساتھ رہتے تھے اور اسے حسنِ اتفاق کہئے کہ سڑک کا نام رکھنے والے حکام کی دوستی قتیل شفائی سے تھی۔سو انہوں نے وہ سڑک اپنے دوست کے نام پر منسوب کردی گئی۔اور منو بھائی سر پیٹ کر رہ گئے ۔اب وہاں سے احمد ندیم قاسمی کا مکان تو کہیں اورمنتقل نہیںکر سکتے تھے۔سو انہیں لکھنا پڑ گیا۔ ’’قتیل شفائی روڈ جس پر احمد ندیم قاسمی بھی رہتے ہیں ‘‘
مگردوستو! اہل ِفرانس بڑے بے مروت ہیں۔وہ تعلقات یا مفادات پر سڑکوں کے نام نہیں رکھتے۔وہاںاتنی آسانی سے سڑکیں کسی کے نام سے منسوب نہیں ہوتیں۔وہاں کسی کے نام سڑک یا گلی کے منسوب ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ کسی کی عظمت کو اپنی نسلوں کے حوالے کرنا چاہتے ہیں۔اور اس کام کیلئے پوری چھان بین کی جاتی ہے ۔اور اگر کہیں کوئی غلطی سرزد ہوجائے تو لوگ کورٹ چلے جاتے ہیں کہ آنے والی نسلوں کو گمراہ کیا جارہا ہے ۔
گزشتہ چند سالوں میںحکومت پنجاب نے بھی بڑے سوچ سمجھ کر سڑکوں کے نام رکھے ہیں۔وارث میرسے منسوب انڈرپاس یاد آگیا ہے ۔وارث میرپاکستانی صحافت میں ایک بہت ممتاز نام ہے۔ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے ہمیشہ جابر سلطان کے سامنے کلمہ ء حق کہا ۔ایک دن طارق مرزاجس نے یورپ میں پیدا ہونے کے باوجوداردو زبان میں کمال کی شاعری کی ہے۔ وہ اور میں لاہور میںکچھ دوستوں کے ساتھ کہیں جارہے تھے۔ نہر والی سڑک پر وارث میر انڈر پاس سے گزرے تو طارق نے پوچھا کہ یہ وارث میر کون تھے چونکہ طارق کی ساری زندگی مغرب میں گزری تھی اس لئے وہ انہیں نہیں جانتا تھا۔ ایک ادیب دوست جس کا حکومتی معاملات میں بڑا عمل دخل ہے۔کہنے لگا،دراصل ہم جب اِس انڈر پاس کا نام رکھ رہے تھے تو کچھ لوگ چاہتے تھے کہ اسے پنجابی کے عظیم شاعر وارث شاہ کے نام سے منسوب کیا جائے اور کچھ دوستوں کاخیال تھا کہ اس انڈرپاس کا نام اردو زبان کے عظیم شاعر میر تقی میر کے نام پر رکھا جائے جب جھگڑا بہت بڑھ گیا توطے یہ پایا کہ دونوں کا نام ملا کر رکھ دیتے ہیں سو اس لئے اس کا نام وارث میر انڈر پاس رکھ دیا گیا‘‘مجھے ہنسی بھی آئی اور تکلیف بھی ہوئی ۔لگا کہ اہل قلم اہل صحافت کو برداشت نہیں کرپا رہے۔میں نے طارق سے کہاکہ یہ مذاق کر رہے تھے وارث میر اردو صحافت کا ایک بہت بڑا نام ہے۔
یورپ والوںمیں ایک اچھی یا بری بات یہ ہے کہ وہ سڑکوںیااداروں کے نام زندہ شخصیات کے ناموں پرکم رکھتے ہیں چاہے وہ شخصیت وزیر اعظم یا صدر مملکت ہی کیوں نہ ہو۔ آپ کو برطانیہ میں کہیں ٹونی بلیئر روڈ یا ڈیوڈکیمرون اسپتال دکھائی نہیں دے گا۔وہاں انہی شخصیات سے کچھ منسوب کیا جاتا ہے جنہیں تاریخ بھلا نہیں سکتی۔مثال کے طور پربرطانیہ کی ایک سڑک نواب علی کے نام سے بھی منسوب کی گئی ہے ۔نواب علی ایک فوجی تھے جنہوں نے دوسری جنگ عظیم میں برطانیہ کیلئے شاندار خدمات سرانجام دی تھیں۔جرمنی میں دریائے نیکر کے قریب ایک سڑک علامہ اقبال کے نام سے بھی منسوب ہے۔اسپین کے شہر بارسلونا میں ایک سڑک محترمہ بے نظیر بھٹو کے نام سے منسوب کی گئی ہے ۔نیویارک کی ایک سڑک ایک پاکستانی نژاد امریکن نوجوان سلمان ہمدانی کے نام سے بھی منسوب ہے ۔ ناروے کی ایک سڑک روبینہ رانا کے نام سے منسوب کی گئی ہے روبینہ رانا معروف شاعر جمشید مسرور کی وائف تھیں۔یہ صرف یورپ کی باتیں ہیں وگرنہ دنیا میں میں نے بڑی بڑی عجیب سڑکوں کے نام بھی دیکھے ہیں۔
mansoor afaq

