سزائے موت . mansoor afaq
دیوار پہ دستک

سزائے موت

سزائے موت

سابق ہوجانے والے صدر مملکت آصف زرداری نے فرمایاتھاکہ یورپی منڈیوں تک رسائی کیلئے ضروری ہے کہ موت کی سزا ختم کر دی جائے ۔کچھ لوگوں نے سوال اٹھایا کہ یورپ نے یہ بات امریکہ سے تو کبھی نہیں کہی۔

بے شک دنیا کے پچاس ممالک ایسے ہیں جہاں سزائے موت کا قانون منسوخ کردیا گیا ہے مگر ابھی تک دنیا کی ساٹھ فیصد آبادی جن ممالک سے تعلق رکھتی ہے وہاں سزائے موت کا قانون موجود ہے جن میں سرفہرست امریکہ ، چین ، بھارت اور انڈونیشا ہیں۔ سزائے موت پر پابندی کا رجحان زیادہ پرانا نہیں یہ 1977ء کی بات ہے جب پہلی بار دنیا کے سولہ ممالک نے سزائے موت پر پابندی عائد کی تھی اور پھر یہ رجحان بڑھتا چلا گیا۔پچھلے دس سالوں سے کئی ممالک میں مجرموں کو سزائے موت سنائی گئی مگر اس پر عملدرآمد نہیں کیا گیا۔ دو ہزار دس تک ایسے17 ہزار مجرم موجود تھے جن کی سزا پر عملدرآمد ہونا باقی تھا۔

اس فہرست میں چین شامل نہیں ہے کیونکہ وہ اس سلسلے میں کوئی معلومات فراہم نہیں کرتا ۔ خیال کیا جاتاہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ چین میں لوگوں کو سزائے موت دی جاتی ہے ۔وہاں ایک محدود اندازے کے مطابق ہر سال دس ہزار لوگوں کو سزائے موت دی جاتی ہے کیونکہ چین میں کرپشن کے جرم کی سزا بھی موت ہے ۔نومبر دوہزار بارہ میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی کمیٹی میں ایک سو دس ممالک نے اس سزا کے خلاف ووٹ دیئے تھے جب کہ انتالیس ممالک نے اس کے حق میں ووٹ دیئے تھے اور چھتیس ممالک نے اس ووٹنگ میں حصہ ہی نہیں لیا تھا۔ یہ ووٹنگ ہر دو سال کے بعد کرائی جاتی ہے دو ہزار دس میں اس سزا کے خلاف ووٹ دینے والوں کی تعداد ایک سو سات تھی اور اب تو یہ سزا شاعری کا موضوع بھی بن چکی ہے۔

پھانسی بھی اک قدیم روایت ہے قتل کی
اِس جرم کی سزا کوئی بہتر تلاش کر

سزائے موت ختم کرنے کی تحریک جن لوگوں نے دنیا میں چلائی ہے وہ اس سزا کو ختم کرنے کیلئے پانچ بڑے اہم دلائل دیتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ یہ وہ سزا ہے جو واپس نہیں ہو سکتی۔ دنیا میں بے شمار ایسے مقدمات سامنے آئے ہیں جن میں پھانسی پانے والا شخص بعد میں بے گناہ ثابت ہوا ہے ۔دوسرا یہ کہ یہ وحشت ناک سزا جرم کو روکتی نہیں ہے کیونکہ جسے سزا ملتی ہے وہ مرچکا ہوتا ہے۔ وہ اس دوران کس کیفیت سے گزرا ہے، یہ نہیں بتا سکتاجب کہ اس کے مقابلے میں عمر بھر کی سزا مجرم کو بھی اس بات کا احساس دلاتی رہتی ہے کہ اس نے جرم کیا ہے ۔

دوسرے لوگ بھی اس سے سبق سیکھتے ہیں۔مرنے کے متعلق تو زیادہ ترلوگوں کا یہی خیال ہے کہ جس دن موت لکھی ہوئی ہے جہاں لکھی ہوئی ہے وہیں مرنا ہے ۔اسی وجہ سے جن ممالک میں سزائے موت ختم کی گئی ہے وہاں جرائم میں کمی آئی ہے۔ کینیڈا نے بیس سال پہلے اس سزا کو ختم کیا تھا وہاں جرائم کی شرح چالیس فیصد تک کم ہو گئی ہے۔ تیسرا کسی شخص کو سزائے موت دینے سے انسانیت کے دکھ کم نہیں ہوتے بلکہ بڑھ جاتے ہیں۔کچھ خاندان پہلے قتل کی وجہ سے درد میں مبتلا ہوتے ہیں اور کچھ اور خاندان سزائے موت کی وجہ سے اسی لاعلاج درد کا شکار ہوجاتے ہیں۔ چوتھا یہ سزائے موت کا عمل معاشرے پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے جب لوگوں کو اس بات کی خبر ملتی ہے کہ فلاں شخص کو پھانسی دے دی گئی ہے تو وہ پھانسی باقاعدہ تماشا بن جاتی ہے۔ پانچواں، دنیا کے بے شمار ممالک میں زیادہ تر قتل کرنے والے نفسیاتی سطح پر بہت بیمار لوگ ہوتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہوتی ہے کہ ان کا باقاعدہ علاج کیا جائے مگر وہاں یہ دیکھنے کا رواج ہی نہیں ہوتا کہ مجرم کی ذہنی حالت کیسی ہے پھر زندہ رہنا انسان کا بنیادی حق ہے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل بھی اس بات کو انسان کا پہلا حق قرار دیتی ہے کہ اس کی زندگی کا تحفظ کیا جائے۔

پاکستان میں اس وقت آٹھ ہزار قیدی ایسے ہیں جنہیں سزائے موت سنائی چکی ہیں مگر عملدرآمد نہیں کیا گیاان میں سے ایک ہزار سے زائد لوگوں کو یہ سزاملے ہوئے پندرہ سال ہو گئے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے پچھلے پانچ سالہ دور میں صرف دو لوگوں کو سزائے موت دی گئی ہے۔ان پر عملدرآمد فوجی عدالتوں نے کرایا تھا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے سزائے موت کا قانون ختم کرنے کا بھی اعلان کیا تھا پیپلز پارٹی کی طرف سے ان کے دور میں کوئی خاص پیشرفت نہیں کی گئی تھی۔ بس ایک آرڈیننس جاری کیا گیا تھا جس کی ہر تین ماہ بعد توسیع کردی جاتی تھی۔

نون لیگ کی حکومت نے اقتدار میں آتے ہی یہ اعلان کیا تھا کہ فوری طور پر موت کی سزاؤں پر عملدرآمد کرائے گی مگر حکومت کو اپنا یہ فیصلہ مبینہ طور پر طالبان کی خواہش پر واپس لینا پڑا۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کے جرم میں دی گئی کسی بھی سزائے موت پر آج تک عملدرآمد نہیں ہوسکا۔اس لئے نون لیگ کی حکومت نے بھی یہی بہتر سمجھا ہے کہ جب تک مذاکرات کا عمل مکمل نہیں ہوتا،سزاؤں پر عملدرآمد نہ کیا جائے۔کچھ لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ موجودہ حکومت سنجیدگی کے ساتھ سزائے موت کے قانون کو ختم کرنے کے متعلق سوچ رہی ہے۔ میرے خیال میں یہ نون لیگ کے بہتر کاموں میں سے ایک ہوگا۔

mansoor afaq

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے