
دیمک زدہ میثاقِ جمہوریت
دیمک زدہ میثاقِ جمہوریت
سابق صدر نے وہی چراغ جلایا جو تمام ہوچکا ہے۔ امید کسی کھائی میں گر پڑی ہے۔ ولولے کسی گندی نالی میں بہہ گئے ہیں۔تمنا کسی بس اسٹاپ پر گاہک کا انتظار کررہی ہے۔امنگ کی قبر پر ہفتوں سے کوئی آیا گیا نہیں۔ چیرنگ کراس سے گزرتی ہوئی تیزرفتار ویگن کے ٹائروں میں مرتا ہوا شوق چڑیا گھر سے نکل کر اسمبلی ہال تک نہیں پہنچ سکا۔ گلی کے نکڑ پر لگا ہوا آرزو کا بلب بخت آور کی جوانی چاٹ گئی ہے۔ ناتمام کو اختتام کے گیت اچھے نہیں لگتے۔آہ! میثاق ِ جمہوریت میں رکھے ہوئے خواب دیمک زدہ ہوگئے ہیں۔
عوام بھی مایوس ہوتے جارہے ہیں اور مسلسل یہی سوچ رہے ہیں کہ کیا اسی ظلم کے نظام کو ثبات ہے۔ وہ جب تاریخِ انسانی کے سینے میں جھانکتے ہیں تو اور ڈر جاتے ہیں۔ انہیں ہمیشہ سے یہی طاقت کا نظام دنیا پر مسلط نظر آتاہے۔ انہیں ایسا لگتاہے کہ اسی رات کو ابدیت حاصل ہے۔ دن کے جتنے نظریے بھی آئے ہیں۔ مذاہب سے لے کرمزدکیت اور اشتراکیت تک طویل ترین انسانی تاریخ میں ان کی عمر کتنی ہے۔ چند لمحوں کے برابر۔ ہر دور میں سرمایہ دار کی حکومت رہی ہے۔ جاگیردار حکمراں رہے ہیں۔ سقراط سے لے کر عیسیٰ ؑتک اور حسین ؓسے لے کر منصور تک کس کس نے موت کو گلے نہیں لگایا۔ کس کس نے سچائی کے چراغ نہیں جلائے۔ ابوذرغفاریؓ کی آواز مگر کسی نے نہیں سنی ۔دنیا نے فیض و فراز کے نغمے گائے مگر بھوک سے ماری ہوئی مخلوق کو چند ناپاک نوالے نہ مل سکے۔ یعنی اسی نظام کو رہنا ہے ۔ہاں اس میں کچھ بہتریاں لائی جاسکتی ہیں۔ چھوٹی چھوٹی نیکیاں پھیلائی جاسکتی ہیں۔ مگر تبدیلی کے گیت نہیں گائے جاسکتے۔ عمران خان سے معذرت کے ساتھ۔ میرا دل مجھ سے یہی کہہ رہا ہے کہ میں زندگی کے گیت کیسے گائوں۔ کیسے کہوں کہ رات جتنی بھی سنگین ہوگی۔ صبح اتنی ہی رنگین ہوگی۔ مجھے کائنات کے سب سے بڑے شاعر اقبال کی قسم ! میں شاہین کو اپنا استعارہ نہیں مان سکتا۔ کیونکہ کمزور فاختہ کے لہو پر پلنے والا یہ ظالم پرندہ بھی اسی طاقت کی علامت ہے جو کم زوروں کو کم زور تر کرتی ہے۔سو یہ طے ہے کہ اُس صبحِ لازوال نے کبھی طلوع نہیں ہونا۔ میں اور میرے جیسے کروڑوں ،لاکھوں برسوں سے دیکھتے آرہے ہیں۔ ہم سب کو اسی رات میں رہنا ہے ۔سو آئو ایک دوسرے سے جھوٹ بولنا چھوڑ دیں اس اندھیرے میں ایک دوسرے پر اعتماد کریں ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ لیں اوراپنی اپنی رات کو بہتر بنانے کی کوشش کریں۔ عوام اس کے سوا کر ہی کیا سکتے ہیں۔ مگر سرمایہ دار اور جاگیردار انہیں اپنی رات کو بہتر بنانے کا موقع کم ہی فراہم ہونے دیتے ہیں۔ کبھی میثاقِ جمہوریت راستہ روک لیتا ہے ۔کبھی اس کے ختم ہونے کی دھمکی معاملات کو آگے نہیں بڑھنے دیتی۔اور وہ ۔ دھمکی نے کچھ تو کام دکھا دیا ہے ۔ حکومت نے اپنے کارندوں کو روک دیا ہے۔ دو کرپٹ جاگیرداروں کو گرفتار کرنے سے ۔ دونوں گدی نشینوں کے مریدوں کو اپنے پیروں کی کرامت دکھائی دے گئی ہے مگر سابق صدر کا مسئلہ ڈاکٹر عاصم حسین ہیں۔ دو اہم ترین طوطوں میں سے ایک پنجرے میں ہے ۔ تکلیف کا اظہار چہرے پر عیاں ہے ۔ آنکھوں سے دکھائی دے رہا ہے ۔ لفظوں میں چیخ رہا ہے ۔دوسرے طوطے کیلئے جال لگا دیا ہے ۔ اس طوطے کا تعلق سومرو قبیلے سے ہے اورپنجروں میں رہنے والوں کا ڈاکٹر ہے ۔ لگتا ہے کسی وقت اسے بھی پنجرے میں پہنچا دیا جائےگا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ پنجرے میں داخل ہونے سے پہلے پرواز کرجائے ۔کیونکہ شہباز شریف اور چوہدری نثار نے وزیر اعظم کو’’مک مکا ‘‘کے مکانے کا مشورہ بڑے زور و شور سے دے دیا ہے ۔یعنی مشورے کوپوری طرح مشہور کیا ہے۔ میڈیا کو اُس تک رسائی دی گئی ہے ۔ ممکن ہے مشہور کرنے کا سبب مشورے میں موجود میسج ہو جو ایک طرف سابق صدر کو دیا جارہا ہے اور دوسری طرف عسکری اداروں کو۔
سابق صدر کو غلط فہمی کا پیغام اس سے پہلے پرویز رشید دے چکے ہیں مگر پرویز رشید کے بارے میں سابق صدر کا خیال ہے کہ ان کے نام میں پرویز مشرف بھی موجود ہے اور شیخ رشید بھی۔ اِس لئے غلط فہمی دور ہونے کا کوئی امکان نہیں ۔اگرچہ پنجاب حکومت بھی اپنے کچھ وزیروں کی قربانی دینے والی ہے ۔عیدِ قربانی کی آمد آمد ہے مگرسائیں کے دل سے سندھ پر وفاق کے حملے کا دکھ ختم ہوتا دکھائی نہیں دیتا ۔مجھے توقع ہے کہ کالم کے شائع ہونے تک رینجرزکے اہلکار سائیں کے کچھ اور چہیتے آفسروں کو گرفتار کرچکے ہونگے۔آہ۔انہی کی چہکار سے چمن چہک رہا تھا۔ سنا ہے اب تو سائیں بھی سابق ہونے والے ہیں۔
سابق صدر اپنے دوست سے مایوس ہوچکا ہے۔ لندن میں ان کی ملاقات شہباز شریف سے نہیں ہوسکی۔ شہباز شریف اور چوہدری نثار ایک پیج پر ہیں۔ کبھی نواز شریف اور آصف زرداری بھی ایک پیج پر ہوا کرتے تھے۔
سابق صدر نے وہی چراغ جلایا جو تمام ہوچکا ہے۔امید کسی کھائی میں گر پڑی ہے۔ ولولے کسی گندی نالی میں بہہ گئے ہیں۔تمنا کسی بس اسٹاپ پر گاہک کا انتظار کررہی ہے۔امنگ کی قبر پر ہفتوں سے کوئی آیا گیا نہیں۔ چیرنگ کراس سے گزرتی ہوئی تیزرفتار ویگن کے ٹائروں میں مرتا ہوا شوق چڑیا گھر سے نکل کر اسمبلی ہال تک نہیں پہنچ سکا۔گلی کے نکڑ پر لگا ہوا آرزو کا بلب بخت آور کی جوانی چاٹ گئی ہے۔ناتمام کو اختتام کے گیت اچھے نہیں لگتے۔آہ! میثاق ِ جمہوریت میں رکھے ہوئے خواب دیمک زدہ ہوگئے ہیں۔
mansoor afaq

