دھرتی ماں کا دن . mansoor afaq
دیوار پہ دستک

دھرتی ماں کا دن

دھرتی ماں کا دن

آج دنیا بھر میں مدر ڈے منایا جا رہا ہے۔ بے شک ہم پاکستانی بھی اپنی ماؤں سے بے پناہ محبت و عقیدت رکھتے ہیں مگر اُس ماں کا کسی کو خیال نہیں جسے ہم سب دھرتی ماں کہتے ہیں۔کاش ایک دن ہم اس کا دن بھی مناتے۔ اس دن اور کچھ نہ کرتے صرف اتنا طے کر لیتے کہ آج دھرتی ماں کے چہرے پر کوئی زخم نہیں لگایا جائیگا۔ آج اس ماں کے کپڑے لیراں لیراں نہیں کئے جائینگے ۔آج کوئی اُس ماں کو بے آبرو نہیں کرے گا۔آج اس کی عزت و عظمت پر کوئی حرف نہیں آنے دیا جائے گا۔آج اس کی کوئی بیٹی واشنگٹن کی کسی گلی میں فروخت نہیں کی جائے گی۔آج وہ اپنی آنکھوں سے اپنے بچوں کی لاشوں کے چیتھڑے اڑتے ہوئے نہیں دیکھے گی ۔آج دہشت گردی کا کوئی واقعہ نہیں ہوگا۔
کم بخت ایک بہت خوفناک نظم یاد آگئی ہے ۔ سن لیجئے
ماں نے کہا
”رک جاؤ بیٹے، رک جاؤ
تم مر جاؤگے
اور سپاہی بیٹا
خستہ گھر کی ٹوٹی ہوئی دہلیز پہ رک کر
ماں کے پاؤں چھو کے بولا
ماں مت روک مجھے
دیکھ پکارا ہے اس خاکِ وطن نے
جو ہم سب کی دھرتی ماں ہے
ماں! مت روک مجھے
میں زندہ رہوں گا
زندہ ہے سقراط ابھی تک
عیسیٰ دار پہ جی اٹھا تھا
ماں! شبیر نہیں مر سکتا
سرمد اور منصور ابھی تک زندہ ہیں
پھر تیرا بیٹا کیسے مر سکتا ہے“
ماں نے بیٹے کے ماتھے کو چوما اور کہا
”تاریخ کے سینے پر تم ، دستِ تحقیق نہ رکھو
میرے چاند! تمہارا علم ادھورا ہے
تم مر جاؤ گے تم جیسے بے نام مجاہد مرتے آئے ہیں
زندہ ہے سقراط اگر تو اس کے پس منظر میں
اس کا علم بھی ہے اور رتبہ بھی
وہ استاد تھا اپنے وقت کے فاتح کا
تجھ کوعیسیٰ یاد رہا ہے لیکن
اس کے پیچھے جو اعزازِ نبوت ہے وہ بھول گئے ہو
سرمد اور منصور تو وقت کے ایسے حاکم تھے
علم رعایا تھا جن کی
شبیر نواسہ تھا سرکاردو عالم کا
اور تم صرف مرے بیٹے ہو
نسبت کا پیوند کہاں سے لاؤ گے
تم مر جاؤ گے “
بے شک ہم دھرتی ماں کی حفاظت کرتے کرتے گمنام مجاہدوں کی طرح مر جائیں گے مگردھرتی ماں کو لوٹنے والوں کے خلاف جنگ جاری رکھیں گے۔ اس وقت اپنی انگلیاں فگار رہیں گی، خامہ خونچکاں رہے گاجب تک جسم میں جان ہے۔ چاہے قلم میں سیاہی رہے نہ رہے۔شریف، زرداری کی لوٹ مار کے خلاف اہلِ دل کے قلم لہو لکھتے رہیں گے۔ پارٹیاں بدل بدل کر دھرتی ماں کو لوٹنے والے لٹیرے زیادہ دیر پاکستان کے سادہ لوح عوام کو بے وقوف نہیں بنا سکتے ۔ایک لٹیرے کے بعد دوسرے لٹیرے کی باری نہیں آ سکتی ۔چوروں کے ایک قبیلے کے بعد چوروں کا دوسرا قبیلہ اقتدار پر قبضہ نہیں کر سکتا۔
ابھی مجھے ایک دوست نے میسج کیا کہ ”میانوالی میں عمران خان کے مقابلے کیلئے نون لیگ نے عبیداللہ شادی خیل کو ٹکٹ دینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ عبید اللہ شادی خیل کو ٹکٹ دے کر نون لیگ نے اس نشست پر مقابلے کی فضا ضرور بنالی ہے۔عبید اللہ شادی خیل کے والد گرامی کسی زمانے میں نواز شریف کے ساتھ تھے مگر عبید اللہ شادی خیل نے پیپلز پارٹی کے ساتھ زیادہ مراسم بنالئے۔ محترمہ بے نظیر بھٹوجب وزیر اعظم تھیں تو ان کی شادی کے موقع پرکمرمشانی میں ان کے گھر تشریف لے گئی تھیں۔کہتے ہیں مکڑوال کی کوئلے کی کانیں انہیں محترمہ کے کہنے پر دی گئی تھیں۔ پرویز مشرف کے دور میں وہ ڈاکٹر شیر افگن کی مدد سے ضلع میانوالی کے ناظم بنے۔ ڈاکٹرشیر افگن نے ان کی پرویز مشرف سے باقاعدہ ملاقات کرائی۔ اس دور میں بھی انہوں نے بے پناہ فائدے اٹھائے۔ان کا شمار انہی لوگوں میں ہوتا ہے جو اپنے مالی معاملات کے تحفظ کیلئے سیاست کرتے ہیں“۔ جن کے بارے میں یہ توقعات کی جارہی تھیں کہ الیکشن کمیشن نے اگر آئین کے مطابق الیکشن کرایا تو ایسے امیدواروں سے ملک و قوم کو نجات حاصل ہو جائے گی اور چوروں اور لٹیروں کو اقتدار میں واپس لانے کی کوشش کی گئی تو خون کی جو ندیاں اس ملک میں بہیں گی اس تلاطم سے کوئی بھی محفوظ نہیں رہے گا۔

mansoor afaq

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے