
دو آدھے پاکستانیوں کا مکالمہ
دو آدھے پاکستانیوں کا مکالمہ
”تمہیں سنائی نہیں دے رہا وہ ڈاکٹر طاہر القادری الیکشن کمیشن کے جاری کردہ کاغذاتِ نامزدگی کا فارم پڑھ کر سنا رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ یہ فارم عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کا مسودہ ہے اور کچھ نہیں۔ اس فارم کے تحت چوروں اور لٹیروں کو صرف اتنی تکلیف دی گئی ہے کہ وہ کسی انکم ٹیکس آفیسر یا اسسٹنٹ کمشنر سے جا کر اسٹے لے لیں کہ مجھ سے ٹیکس والے غلط ٹیکس مانگتے ہیں، واپڈا یا گیس والے غلط بل مانگتے ہیں، مجھے اسٹے دے دیجئے اور یہ اسٹے لینا ہر مقدمہ دائر کرنے والے کا حق ہوتا ہے۔ یوں اسٹے مل جانے کے بعد کسی پر بھی الیکشن لڑنے کی کوئی پابندی نہیں ہے۔ تم مانو یا مانو، اصل میں الیکشن کمیشن، یہ حکومت، یہ اپوزیشن تمام آپس میں ملے ہوئے ہیں۔ یہ تمام اختلاف، یہ شور و غوغا دراصل عوام کو بے وقوف بنانے کیلئے ہے۔
اس طرف دیکھو۔کیا تمہیں نہیں نظر آرہا ۔ یہ منظر کہیں کا نہیں لاہور کا ہے۔ اس شہر کا ہے جسے شریف خاندان اپنی راجدھانی سمجھتا ہے۔ وہیں جلی ہوئی بستی کی راکھ پر بین کرتی ہوئی عورتیں اور سوختہ اشیاء میں اپنے جلے ہوئے کھلونے تلاش کرتے بچے جھولیاں اٹھا اٹھا کربددعائیں دے رہے ہیں،کیا یہ بددعائیںآ سمان تک نہیں پہنچیں گی۔ کیا گوجرہ میں جو کچھ ہوا تھا کیا وہ خدا نے نہیں دیکھا تھا۔ صرف لال مسجد میں گرنے والا لہو انسانی نہیں تھا گوجرہ میں جلی ہوئی لاشیں بھی آدمیوں کی تھیں۔ کیا اب بھی تمہارا یہی خیال ہے کہ جانے والے یہی ظالم حاکم پھر واپس ا ٓجائیں گے۔ میں یہ تسلیم نہیں کر سکتا کہ پوری پاکستانی قوم کا ضمیر سو چکا ہے۔یہ دیکھو یہ وہ خط ہے جو حکومت پاکستان نے سوئس حکومت کو صدر زرداری کے مقدمات دوبارہ کھولنے کیلئے لکھا تھا۔ اسے غور سے پڑھو اس میں یہی لکھا ہوا ہے ناکہ یہ خط سپریم کورٹ کے کہنے پر لکھا جا رہا ہے کہ صدر زرداری کے خلاف مقدمات دوبارہ کھولے جائیں مگر پاکستان کے آئین کے تحت انہیں استثنیٰ حاصل ہے۔ اس کا صاف مفہوم یہی نہیں کہ مقدمات نہ کھولے جائیں، یہ مقدمات پاکستانی آئین کے مطابق نہیں کھولے جا سکتے اور اس خط کا لفظ لفظ سپریم کورٹ کے جج صاحبان کا اپروڈ کیا ہوا ہے۔
یہ وہ فیصلہ ہے جو سپریم کورٹ نے اصغر خان کے کیس میں سنایا تھا ۔اس فیصلے کے تحت ایف آئی اے نے نواز شریف اور بہت سی دوسری اہم ترین سیاسی شخصیات سے ایجنسیوں کی طرف سے دی گئی رقم واپس لینی تھی اور ان کے خلاف قانونی کارروائی کرنی تھی۔ اس فیصلے کو آئے ہوئے کتنے ماہ ہو گئے ہیں کہ کیا کوئی عملدرآمد ہوا،کیوں نہیں ہوا صرف اس لئے کہ اندر سے صدر زرداری اور نوازشریف ایک ہیں۔ ابھی جو اس سلسلے میں پیپلزپارٹی کے ایم پی ایز علامتی بھوک ہڑتال کر رہے ہیں۔ یہ بتاؤ کیا وہ یہ ہڑتال سپریم کورٹ کے خلاف کر رہے ہیں کہ اس نے ان کی حکومت سے اس فیصلے پر عملدرآمد کیوں نہیں کرایا یا اپنے لیڈر صدر زرداری کے خلاف کر رہے ہیں کہ انہوں نے عملدرآمد کیوں نہیں ہونے دیا۔ یہ پڑھو کیا کہہ رہے ہیں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان والے کہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے 4 سالہ دور حکومت میں پاکستان کو 8500/ارب روپے (8.5کھرب روپے یا 94/ارب امریکی ڈالرز) کی کرپشن ہوئی۔ یہ بھی پڑھ لو ۔چیئرمین نیب ایڈمرل ریٹائرڈ فصیح بخاری نے روزانہ سات ارب روپے کی کرپشن کا انکشاف کیا اور پھر اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس میں سے65فیصد کرپشن پنجاب میں ہو رہی ہے یعنی پنجاب میں روزانہ تقریباً چار پانچ ارب روپے کی کرپشن جاری ہے۔
یہ کالم پڑھا ہے تم نے۔ ذرا فہرست دیکھو اس فہرست کے مطابق پرویز مشرف کا کونسا ساتھی ایسا رہ گیا ہے جسے نواز شریف نے نون لیگ میں شامل نہیں کیااب بھی تمہارا خیال ہے کہ ان حکمرانوں کے پاس کوئی اخلاقی اقدار ہیں، کیا اب بھی تم یہی سمجھتے ہو کہ اگر جمہوریت کے نام پر یہی حکمران پھر واپس آرہے ہیں تو یہ ان کا حق ہے،انہیں آنا چاہئے“۔”ہاں منصور بھائی میرا پھر بھی یہی خیال ہے کیونکہ انہیں روکنے کیلئے ہمارے پاس صرف ایک راستہ ہے اور وہ غیرآئینی ہے،میں اس کے حق میں کبھی بھی نہیں ہو سکتا، چاہے یہ لٹیرے سارے ملک کو ہی لوٹ کر کیوں نہ لے جائیں۔ میں کسی صورت مارشل لاء کے حق میں نہیں ہو سکتا۔ چاہے یہ برے ہیں، چور ہیں، ڈاکو ہیں، لٹیرے ہیں، حکومت کرنا انہی کا حق ہے عوام نے انہی ووٹ دیئے ہیں پھر اگر عوام انہیں ووٹ دیں گے تو میں ان کا ساتھ دوں گا“۔
”احسان شاہد بھائی، مجھے بہت افسوس ہوا تمہارے خیال پر۔کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ میں ملک میں مارشل لاء لانے کی بات کر رہا ہوں، میں ایسی سوچ پر بھی لعنت بھیجتا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ فوج کے موجودہ سربراہان بھی یہی سمجھتے ہیں کہ جن جنرلوں نے ماضی میں جمہوریت کے خلاف بغاوتیں کیں وہ درست نہیں تھیں، وہ غلط اقدام تھے۔ہر ادارے میں سب لوگ ایک جیسے نہیں ہوتے۔ مجھے تمہاری اس سوچ پر بھی افسوس ہے کہ ان لٹیروں سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے ہمارے پاس مارشل لاء کے سوا اور کوئی راستہ نہیں۔ احسان شاہد بھائی یہ تمام لٹیرے تو ہیں ہی مارشل لاؤں کی پیداوار۔ میں تو اتنا جانتا ہوں کہ عوامی طاقت کے سامنے کوئی حکمران،کوئی جنرل، کوئی زرداری،کوئی نوازشریف کچھ بھی نہیں ہے“۔”منصور آفاق یہاں برطانیہ میں بیٹھ کر ایسی باتیں آسان ہیں مگر غربت سے مارے ہوئے، لوڈشیڈنگ کے اندھیروں میں کروٹیں بدلتے ہوئے عوام کے پاس تو دو وقت کی روٹی بھی نہیں ہے۔ اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کیلئے دن بھر مزدوری کرنے والی زندگی کے پاس اتنا وقت، اتنا دماغ نہیں کہ وہ اس نظام کے خلاف بغاوت کرے، ان چوروں اور لٹیروں کے گریبان میں ہاتھ ڈالے۔ بھوک کی ماری زندگی تو اس مقام پر ہے کہ جہاں ان کیلئے یہی بہت ہے کہ اس کے بچوں کو رات پیٹ بھرنے کیلئے چند ناپاک نوالے مل جائیں اور وہ لوگ جو سوچنے والے تھے، تبدیلی کے خواہشمند تھے ان کی اکثریت کو ان چوروں اور لٹیروں نے کرپٹ بنا دیا ہے وہ اپنے چھوٹے چھوٹے ذاتی مفاد پر ہر لمحہ ملک و قوم کا مفاد بیچنے پر تیار دکھائی دیتے ہیں“۔ ”میں یہ بات نہیں مانتا۔
پاکستان کے غیرت مند اور غیور عوام ہرگز کرپٹ نہیں یہ وہ قوم ہے جو ملک کیلئے دو وقت کی روٹی کجا جان بھی قربان سکتی ہے ۔یہ ضرور تبدیلی لائے گی، یہ ضرور ان لٹیروں اور چوروں سے اس ملک کو نجات دلائے گی۔ میں ایک عوامی بغاوت کو کروٹیں لیتے ہوئے دیکھ رہا ہوں“۔ (یہ مکالمہ گزشتہ رات لندن میں احسان شاہد سے ہواجو برطانوی ہونے کے باوجود بہت سرگرم پاکستانی ہیں)۔

