
دل تو بھیڑیے کے سینے میں بھی دھڑکتا ہے
دل تو بھیڑیے کے سینے میں بھی دھڑکتا ہے
مجھے آرڈر دینے والوں کے متعلق کچھ نہیں کہنا۔میں انہیں جانتا ہوں ۔مجھے معلوم ہے ان کے نزدیک انسانی جان کی کوئی حیثیت نہیں۔ممکن ہے پریس کانفرنسز میں پولیس کی بربریت پر دکھ کا اظہار کرنے والے اہل حکم کے بارے میں کچھ لوگ سوچتے ہوں کہ ان کے سینوں میں بھی دل ہیں جو دھڑکتے ہیںتویہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ دل تو بھیڑے کے سینے میں بھی دھڑکتا ہے ۔سومجھے آڈر دینے والوں کے بارے میں کوئی پریشانی نہیں کیونکہ مجھے تو ملک بھر میں دہشت گردی کی قربان گاہ میں تڑپتی پھڑکتی ہوئی لاشوں کے پس منظر میں بھی انہی کے چہرے دکھائی دیتے ہیں ۔میرے لئے پریشانی کا سبب آرڈر ماننے والے لوگ ہیں۔میں ان پولیس والوں کے متعلق سوچ سوچ کر پریشان ہو رہا ہوں جنہوں نے نشانہ باندھ باندھ کر نہتے اور بے گناہ شہریوں پر فائر کئے ہیں ۔انہی پر،اس دیس نے جن کی رکھوالی انہیں سونپ رکھی ہے اوریہ قوم ہر ماہ انہیں اسی کام کی تنخواہ دیتی ہے ۔یہ کیسے ممکن ہوا کہ وہ جس کے محافظ ہیں اسی پر انہوں نے گولیاں چلانے لگے۔
ایک سوال یہ بھی ذہن میں چبھ رہا ہے کہ کیا وہ واقعی پولیس والے تھے۔کیا یہ وہی تعلیم یافتہ انسان تھے جنہیں اس قوم نے اپنی حفاظت کا فرض سونپا تھا۔جنہیں قتل و غارت کوئی تجربہ نہیں ہوتا ۔ جنہیں قتل کرنا نہیں سکھایا جاتابلکہ قاتلوں کوان کے انجام تک پہنچانے کیلئے عدالتی طریقہ کار کی تعلیم دی جاتی ہے۔جن پر ہر پاکستانی کا تحفظ فرض ہے۔۔سپاہی فوج کا ہو یا پولیس کا ،وہ آسانی سے کسی انسان کو قتل کرنے پر تیار نہیں ہوتا۔کیونکہ وہ اپنے ضمیر کے سامنے بھی جواب دہ ہوتا ہے ۔اس نے خود کوبھی مطمئن کرنا ہوتا ہے کہ اس نے جس انسان کو قتل کیا ہے ۔ اس کا قتل انسانیت کی حفاطت کیلئے ضروری تھا۔فوجی کی رائفل سے گولی اس یقین کے ساتھ نکلتی ہے کہ میرے سامنے دشمن ہے ۔میرے وطن کا دشمن۔قوم کا دشمن ۔ جیسے اس وقت پاک فوج کے نوجوان وزیرستان میں ملک و قوم کے دشمنوں کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں ۔قوم و ملک کیلئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کررہے ہیں مگرپولیس کے سپاہی نے کسی کو قتل نہیں کرتا ہوتا۔وہ صرف اس وقت فائر کرتا ہے جب اس کے پاس اپنی یا کسی دوسرے شہری کی جان بچانا کا اور کوئی راستہ نہیں رہ جاتا۔ ۔کیونکہ اس کاتو فرض ہی زندگی کی حفاطت ہے۔۔پھریہ پولیس والے ان پڑھ ، گنوار اورجنگلی لوگ نہیںہوتے ۔انہیں باقاعدہ تربیت دی جاتی ہے کہ انہیں پڑھایا بھی جاتاہے۔ محکمہ پولیس میں باقاعدہ پولیس والوں کے امتحانات بھی ہوتے ہیں انہی امتحانوں کے نتائج دیکھ کر انہیں ترقی دی جاتی ہے۔
وہی سلگتا ہواسوال ۔سامنے کھڑا ہے یہ پولیس والے جنہوں نے بے وجہ یہ قتال کیا ہے۔یہ ایس پی ، یہ ڈی آئی جی ۔یہ آئی جی ۔یہ جنہوں نے سی ایس ایس کا امتحان پاس کیاہوتا ہے ۔یہ جو لوگ معاشرے کی کریم ہوتے ہیں۔انہوں نے کسی ایسے آڈر پر کیسے عمل کیا جنہیں ماننا ان کے فرائض میں داخل نہیں تھا۔کیا انہیں پھانسی کا لٹکتا ہوا پھندا دکھائی نہیں دے رہا تھا۔کیا انہیں ماضی میں حکمرانوں کا حکم مان کر قتل کرنے والوں کے انجام یاد نہیں آئے ۔اور وہ انسپکٹر کیاواقعی سرکاری ملازم تھے جو چن چن کر لوگوں کو قتل کر رہے تھے ۔ صرف مردوں کےنہیں عورتوں کے سینوں پر بھی فائر کر رہے تھے ۔کیا یہ کوئی پیشہ ور قاتل تھے جنہیں پولیس کی وردی پہناکر لایا گیا تھا۔کیا کہوں ۔ کیسے یقین کر لوں کہ آج کے زمانے میں کوئی سرکاری ملازم صرف اپنے افسر کے کہنے پرکسی بے گناہ شخص پر کسی عورت پر گولی چلانے تیار ہوسکتاہے۔نہیں نہیں یہ پولیس والے نہیں ہوسکتے۔
اگر میں فرض بھی کر لوں کہ واقعی یہ پولیس والے تھے اور انہوں نے اپنے آقائوں کی خوشنودی کی خاطر پہلی باراتنی بے دردی سے انسانوں کو قتل کیا ہے۔تو بحیثیت انسان جب وہ گھر گئے تو کیا انہیں نیند آئی ہوگی۔۔ قتل کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ بڑے بڑوںکے ہاتھ کانپ جاتے ہیں۔ان پولیس والوں کی تو ذہنی حالت انتہائی خراب ہوگئی ہوگی۔انہیں کونسلنگ کی اشد ضرورت ہوگی۔مگر وہ قاتل جنہیں میڈیا کے کیمروں نے بار بار دکھایا ہے۔ وہ پہلی بار کسی کو قتل کرنے والے نہیں لگ رہے تھے۔وہ اپنے کام میں ماہر دکھائی دے رہے ہیں یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ انہوں پہلے کہاں اور کن لوگوں کو قتل کیا ہے۔کیا یہ کراچی سے آئے تھے یا انہیں بلوچستان سے لایا گیا تھا۔آخر کون تھے ،کہاں سے آئے تھے یہ لوگ۔وزیر قانون کی مونچھوں والی لاقانونیت کو دیکھ کر بار بار خیال آتا ہے کہ ممکن ہے انہوں نے لشکر جھنگوی سے کچھ لوگ ادھار لئے ہوں۔یا پنجابی طالبان کو ’ضرب عضب‘سے ڈر کر پنجاب پولیس میں کھپا دیا ہو۔
بہر حال ابھی میرا ذہن یہ تسلیم کرنے پر تیار نہیں ہورہا کہ یہ لوگ پولیس والے تھے ۔اگر وہ پولیس والے تھے اور انہیں فائرنگ کا آڈر ملا تھاانہوں نے لوگوں کی ٹانگوں کی بجائے سینوںپر فائر کیوں کئے ۔آخرکیوں پولیس والوں نے فائر کرتے ہوئے کوشش کی ہے کہ گولی لگنے والا بچ نہ سکے۔یقینا قاتلوںنے اسی بات کا آرڈر کیاہوگا۔اور مجھے آرڈر دینے والوں کے سینوں میں دھڑکتے ہوئے دلوں کے بارے میں کچھ نہیں کہنا کیونکہ دل تو بھیڑیے کے سینے میں بھی دھڑکتا ہے۔

