میں… میں صرف انسان ہوں ۔ میرے لئے اس کائنات میں کوئی اجنبی نہیں ۔۔سب میرے بھائی ہیں۔ میں دنیا بھر میں طیاروں سے نکلنے والی ہلاکت پر نوحہ خواں ہوں چاہے وہ ہلاکت بمبار طیاروں سے گرتے ہوئے بمبوں سے نکل رہی ہو۔یا مسافر طیاروں کے کاروباری میناروں سے ٹکرانے پرنمودار ہو رہی ہو۔۔ مجھے جسموں کے ساتھ بارود باندھ کر اپنے گرد و نواح کو لوتھڑوں میں بدلنے والوں کا غم ہے ۔مجھے انسان کا غم ہے۔ یعنی اپنا غم ہے میں جس کا وطن کائنات ہے ۔ جس کی قومیت آدمیت ہے۔ جس کا مذہب انسانیت ہے۔ جس کی زبان محبت ہے …میں… میں انسان ہوں ۔۔صرف انسان۔۔مگر میں نے جب بھی اپنی بات کی مجھے قتل کر دیا گیا۔ میں نے جب بھی کہا ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔ تومیرے جسم کے دیواروں پر چپکے ہوئے لوتھڑوں پر اورزیادہ فائرنگ کی گئی۔۔۔مجھے کبھی مصر میں حق مانگنے پر قتل کیا گیا۔ کبھی شام میں میرے لہو سے دیواریں سرخ ہوئیں ۔بغداد اور افغانستان میں مجھے مارا گیا۔ کبھی کشمیر میں میرے لہو کے رنگوں کی ہولی کھیلی گئی۔ مگر میں۔۔ میں زندہ رہنا چاہتا ہوں ۔اور ہر شخص کو زندہ دیکھنا چاہتا ہوں ۔ میں درویشوں کے زاویے میں رہنے والا آدمی ہوں۔ آئیے آج کچھ دعائیں مانگتے ہیں ۔ امت ِ مسلمہ کیلئے دعائیں۔رحمت اللعالمین کے حضور اپنے آنسو پیش کرتے ہیں
ایک دعا
پھر وہی صبح مدنیہ بخش دے
بخش خوشحالی وہی سورج بھری
سر اٹھا کر چلنے کی توفیق دے
پھر سکونت دے جہاں میں دھج بھری
پھر خلیفہ دے کوئی فاروق سا
پھر حکومت دے وہی حشمت بھری
پھر جہاں بانی کا تحفہ دے ہمیں
سلطنت دے پھر وہی سطوت بھری
پھروہی عظمت بھرا بغداد دے
پھر ہمیں لوٹا دے اندلس علم کا
کھول دروازے ہمارے فہم کے
بخش ہم لوگوں کو پارس علم کا
پھر صلاح الدیں ایوبی بھیج کر
بحیرہ مردار کو مہتاب دے
پھر ہماری چشمِ ظلمت ناک کو
قبلہ اول کے روشن خواب دے
بھیج داتا گنج شام ِ رنج میں
استقامت دے گمانِ وقت کو
ابن عربی کی جوانی بخش دے
دھول ہوتے آستانِ وقت کو
پھر اضافہ کر ہمارے علم میں
پھر عطا کر شاعری تہذیب کی
پھر ہمیں لوٹا ہمارا قرطبہ
پھر ہمیں دے سروری تہذیب کی۔۔
اس وقت شام میں پھر کربلا آباد ہے ۔مسلمان مسلمان کو قتل کر رہا ہے ۔ انسان انسان کو ماررہا ہے ۔اس حوالے سے بارگاہِ رسالت میں التماس گزار ہوتا ہوں
یارسول اللہ
گنگناتا پھروں گلیوں میںفقط آپ کا نام
آپ کے عشق میں کچھ اور مجھے یاد نہ ہو
چشمِ گریہ میں کوئی شامِ نہ ہو خون بکف
کوئی کابل ، کوئی بصرہ کوئی بغداد نہ ہو
میری جاں آپ کے صدقے مرے ماں باپ فدا
پھر وہ نیزے پہ لئے جاتے ہیں شبیر کاسر
پھر وہ زینب کا گزر شام کے بازار میںہے
پھر وہی ظلم کے دربار میں قیدی عابد
پھر مدنیے کاسفر شام کے بازارمیں ہے
میری جاں آپ کے صدقے مرے ماں باپ فدا
میرے مولا مجھے معصوم علی اصغرکی قسم
شام کی گلیوں میں معصوموں پہ کربل ہے بپا
خون ہے سوختہ خیمے ہیںدھواںہے دکھ ہیں
پھرغربیوں پہ وہ مظلوموں پہ کربل ہے بیا
میری جاں آپ کے صدقے مرے ماں باپ فدا
صبح ِ کوثر کی روانی رہے احساس میں بس
اورکوئی بھی کہیں چشمہ ء تسکین نہ ہو
سر خوشی آپ کی ہو میرے نواح ِجاں میں
کوئی صدمہ کوئی دکھ کوئی فلسطین نہ ہو
میری جاں آپ کے صدقے مرے ماں باپ فدا
یہ دعائیں درد کے ان مناظر کے حوالے سے تھیں جنہوں نے موسموں کا رنگ سر خ کر رکھا ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان دعائوں کو جب قبولیت ملے تو دنیا میں پھر کوئی مثنوی معنوی لکھی جا ئے گی ۔پھر کوئی سعدی شیرازی پیدا ہوگا ۔پھر کسی اقبال کی آواز سنائی دے گی۔پھر کوئی شاہ حسین دھمال ڈالے گا ۔پھر کوئی وارث شاہ کے بیلے میں اپنے البیلے ساجن کوڈھونڈتا پھر رہا ہوگا۔پھر پیر فرید کی روہی میں کسی مٹیار کادرشن ہوگا۔پھر کوئی میاں محمد بخش کسی لڑکی کو شام سے پہلے گھر جانے کی تلقین کریگا۔پھر کسی ٹھگوں کے ٹھگ کو ٹھگنے والے بھلے شاہ سے ملاقات ہوگی۔پھر کوئی سلطان باہو چبنیلی کی بوٹی کی مدح سرائی کریگااور دنیا پر انسان انسان بن کر رہنا سیکھنے لگ جائے گا۔ میری دعا ہے کہ آئیے اس کربلائے وقت میں دعا کیلئے ہاتھ اٹھائیں تاکہ ہمیں عمل کی توفیق ملے۔