خوش قسمت عمران خان. mansoor afaq
دیوار پہ دستک

خوش قسمت عمران خان

خوش قسمت عمران خان

بے شک عمران خان وہ خوش قسمت شخص ہیں جسے راضی کرنے کیلئے قسمت سرگرداں پھرتی ہے ۔اس جملے کی وضاحت کیلئے ایک کہانی سنائی ضروری ہے ۔یہ شفیق خان کی کہانی ہے ۔ جس طرح آج کل مجھے عمران خان کی ذات میں دیس کے تمام مسائل کا حل نظر آتا ہے کسی زمانے میں ، اُسی طرح مجھے شفیق خان کی ذات میں لاہور کے تمام مسائل ِ تصوف کا حل دکھائی دیتا تھا ۔ شفیق خان سے میری پہلی ملاقات پاک ٹی ہائوس میں ہوئی تھی ۔اکھڑا،کھڑا ،ناراض ،ناراض مسلسل شِکنوں سے بھری ہوئی پیشانی،چُبھتی ہوئی آنکھیں ،چیختی ہوئی جینز کی پینٹ،آمادہ ٔ جنگ چڑھی ہوئی آستینیں، کلاشنکوف کے برسٹ مارتی ہوئی زبان، ہر اِک شے سے ناراض حتیٰ کہ اپنے آپ سے بھی ناراض ،یہ نوجوان کافی دیر ایک ٹیبل پربیٹھ کرمیرے ساتھ اکھڑی اکھڑی گفتگو کرتا رہا ۔مگر میں اُس شام لڑائی کے موڈمیں نہیں تھا۔جب ہم ٹی ہائوس سے اٹھے تو میں نے پوچھا تم نے کہاں جانا ہے تو اُس نے بڑی ناگواری سے کہا’شاہ نور سٹوڈیو‘نجانے میرے دماغ میں کیا آیا کہ میں نے اسے کہا ’’میں نے بھی اُدھر ہی کہیں جانا ہے آئو اِکٹھے چلتے ہیں‘اور شفیق نے مجھ سے جان چھڑانے کیلئے کہا۔’’میں نے تو پیدل جانا ہے‘‘ میں نے بھی بغیر کسی تاثر کے کہا ’ٹھیک ہے پیدل ہی چلتے ہیں‘، اور ہم چل پڑے ہم پُرانی انارکلی سے ہوتے ہوئے جین مندر پہنچے ور پھر وہاں سے چوبرجی۔تقریباً ڈیڑھ دو گھنٹے پیدل چلنے کے بعد شاہنور سٹوڈیو پہنچے۔ شفیق نے مجھ سے پوچھا’اب تم نے کس طرف جانا ہے۔میں نے کہا’’ انجینئرنگ یونیورسٹی ’’شفیق نے مجھے حیرت بھرے غصے سے دیکھا اور کہا ’’تمہیں پتہ نہیں کہ وہ تو جی ٹی روڈ پر ہے‘‘ میں نے کہاہاں ’’مجھے پتہ ہے ‘‘شفیق نے مجھے ایسا دیکھا جیسے میں کوئی پاگل ہوں اور کہا’’دو میل اُدھر جانے کی بجائے دس میل اِدھر کیوں آئے ہو ۔دماغ کام نہیں کرتا۔میں نے قریب کھڑے ہوئے رکشے میں بیٹھتے ہوئے کہا ’یہ راز تمہیں کل بتائوں گا‘ ،اور کشہ چل پڑا ۔میں نے رکشے کے پیچھے جو چھوٹی سی پلاسٹک کی کھڑکی ہوتی ہے اس سے ذرا سا پلاسٹک ہٹا کر پیچھے دیکھا تو شفیق وہیں کھڑا جاتے ہوئے رکشے کی طرف دیکھ رہا تھا۔

پھر دو پاگل ایک ہوگئے ۔دوشاعرایک نظم میں پرودیے گئے ۔ہم دونوں ہر گلی ،ہر سڑک، ہر راہداری ،ہر تقریب میں اکٹھے نظر آنے لگے۔میں نے بھی ان دنوں شیو کرنے کی مشقت سے بچنے کیلئے بے ہنگم سی داڑھی رکھی ہوئی تھی ۔شفیق خان بھی میرے جیسا ہوگیا ۔یعنی دور سے ہم قلمی دہشت گرد پہنچانے جانے لگے اور ہم دونوں نے اپنا ڈیرہ پی ٹی وی لاہور کی عمارت بنالیا۔ڈرامے لکھے جانے لگے ، گیت بُنے جانے لگے ،پروڈوسرز کی خالی کھوپڑیوں میں جالے سجائے جانے لگے۔پی ٹی وی کے گیٹ پر شفیق خان کی یہ نظم جلی حروف میں چسپاں کر دی گئی

اندر داخل ہونے والو
اپنے سر۔ ریسپشن پر جمع کرادو
سر کے ساتھ اِس بلڈنگ میں داخل ہونے پر پابندی ہے
اندر سرخوروں کے دفتر ہیں
تھانہ قلعہ گجر سنگھ
سر کے گم ہوجانے کاذمہ دار نہیں ہوگا

لاہور میں کئی سیاسی پارٹیاں ایسی ہیں جن کے دروازوں پر اس نظم کی اشد ضرورت تھی۔ شفیق خان کی اس وقت کی معروف اداکارہ ارم حسن سے بھی بڑی دوستی تھی اس نے ایک دن شفیق خان سے کہا ’’تم نے آج کا مشرق اخبار دیکھا ہے اس میں کسی نے کسی کے ساتھ میراجعلی نکاح نامہ چھاپ دیا ہے۔شفیق خان نے کہا ‘‘ ہاں میں نے دیکھا مگر اب تم کیا چاہتی ہو میں کیا کروں‘‘ اس نے جواباًشفیق خان کے سامنے ہاتھ پھیلا دیا اور کہا

‘‘بتائومیری قسمت میں کیا لکھا ہوا ہے؟‘‘

شفیق خان نے ایک اچٹتی سی نظر اس کے ہاتھ پرڈالی اور پوری سنجیدگی سے کہا ’’وہ تحریرجو ابھی تم نے لکھی نہیںمیں اسے کیسے پڑھ سکتا ہوں‘‘

وہ بولی ’’مگر میں اپنے آپ کو بہت خوش نصیب سمجھتی ہوں‘‘شفیق نے حیرت سے پوچھا’’اپنے خوش قسمت ہونے کی کیا دلیل ہے تمہارے پاس‘‘ کہنے لگی ’’واصف علی واصف نے فرمایا ہے کہ خوش قسمت وہ ہے جو اپنی قسمت پر خوش ہے‘‘۔شفیق کے ماتھے پر شکنوں کے ڈھیر لگ گئے اور بولا’’ممکن ہے اپنی قسمت پر خوش رہنے والا خوش قسمت ہو۔۔’’

مگر میرے نزدیک تو خوش قسمت وہ ناراض آدمی ہے جسے راضی کرنے کے لئے قسمت سرگرداں پھرتی ہے‘‘

اس وقت مجھے شفیق وہی ناراض شخص محسوس ہوا تھا۔ اس بات کو کوئی پچیس سال ہونے کو ہیں ۔ مجھے پھر کوئی ایساخوش قسمت نہیں ملا۔ابھی کچھ دن پہلے جب میں نے عمران خان پر غور کرنا شروع کیا ہے۔اس کے عظیم الشان جلسے دیکھے ہیں، اُس کی تقدیر یںبدلتی تقریریں سنیں،تو مجھے ایسے لگاکہ یہ تو وہی ناراض آدمی ہے جسے راضی کرنے کیلئے قسمت سرگرداں پھرتی ہے۔

mansoor afaq

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے