جنابِ راحیل شریف! . mansoor afaq
دیوار پہ دستک

جنابِ راحیل شریف!

جنابِ راحیل شریف!

ایک دہشت گردی وہ ہے جس کی آخری بجھتی ہوئی کچھ سطریں پرسوں پشاور کے بیس کیمپ میں لکھی گئیں مگرایک دہشت گردی اس سے بھی سفاک تر ہے جس کی داستان پاکستان میں سالہا سال سے لکھی جارہی ہے۔ شہیدوں کے سینوں پر گولیوں کے گلاب کھلتے تو نظر آتے ہیں مگراِس دہشت گردی کا شکار ہونیوالے چونکہ قسطوں میں مرتے ہیں۔ اسلئے ان کی موت کے تکلیف دہ مناظر آنکھوں سے اوجھل رہتے ہیں۔ یہ قسطوں میں مرنے والے کون ہیں۔ کتنی تعداد میں ہیں۔ کہاں رہتے ہیں۔یہ کم ہی لوگوں کو معلوم ہے۔ آیئے آپ سے ان کا تعارف کرائوں۔ یہ علائو الدین ہے۔ دیہاڑی دار ہے۔ مہینے میں تقریباً بیس دن تین سو روپے روزانہ کماتا ہے۔ یعنی چھ ہزار روپے۔ اسکے چار بچے ہیں۔ میاں بیوی سمیت مل کر چھ افراد بن جاتے ہیں۔ یعنی ایک فرد کے حصے میں ایک ہزار روپیہ آتا ہے۔ ایک فرد کیلئے ایک دن کے بتیس تینتیس روپے بنتے ہیں اور دنیا میں غربت کی لکیر کی آخری حد دو ڈالر یومیہ ہے۔ وزیر خزانہ اسحق ڈار کے بقول پاکستان میں ان لوگوں کی تعداد گیارہ سے بارہ کروڑ کے قریب ہے۔ یہ لوگ پاکستان کی چون فیصد آبادی پر مشتمل ہیں یہی جو غربت کی لکیر سے کہیں نیچے جی رہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو روز قسطوں میں مررہے ہیں۔ کبھی دو گھونٹ چائے کی خاطر۔ کبھی بس کے کرائے کی خاطر۔ ان میں سے ایک کروڑ افراد جب بیمار ہوتے ہیں تو پھر مر جاتے ہیں یعنی اپنا علاج بھی نہیں کراسکتے۔ اعداد و شمار کے مطابق ان میں تیس لاکھ افراد ایسے ہیں۔ جنہیں پینے کا صاف پانی میسر نہیں تھا سو ایسی بیماریوں کا شکار ہوئے جو اکثر موت پر منتج ہوتی ہیں۔ ان میں سے بیس لاکھ افراد کے پاس ان بیماریوں کے علاج معالجہ کی سہولتیں نہیں ہیں۔ پانچ لاکھ افراد کا جعلی ادویات کی نذر ہونے کا امکان ہے۔ مرتے ہوئے نومولود بچوں کی تعداد مت پوچھئے ۔ان کی شرحِ اموات ساری دنیا سے زیادہ ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو تھر میں غذائی قلت کے سبب مرتے ہیں تو کبھی کراچی میں گرمی کی شدت کے سبب موت کو گلے لگا لیتے ہیں۔

انکی آنکھوں میں امید کا کوئی چراغ نہیں جلتا انہیں اس جمہوریت سے بھی کوئی دلچسپی نہیں۔ انہوں نے کبھی ووٹ بھی نہیں دیا۔ کبھی سوچا آپ نے کہ پاکستان میں پچاس ساٹھ فیصد ووٹ کیوں کاسٹ ہوتے ہیں۔ وہ لوگ جو ووٹ ڈالنے کیلئے پولنگ اسٹیشنوں پر نہیں جاتے۔ یہ وہی لوگ ہیں۔ ہر امید سے محروم قسطوں میں مرتے ہوئے لوگ۔ خون میں انگلیاں ڈوبتے ہوئے لوگ۔کیا آپ کو معلوم ہے پاکستان میں غربت کی یہ خوفناک اور ہولناک داستان کس نے لکھی ہے۔کہاں سے آئی ہے یہ معاشی دہشت گردی جس نے پاکستان کا بند بند مضمحل کردیا ہے۔ یہ دہشت گردی کرپشن کی بندوق سے نکلی ہے۔ جب ایک ارب روپیہ کرپشن کی نذر ہوتا ہے تو پچاس لاکھ پاکستانیوں سے ایک دن کی کمائی چھن جاتی ہے ۔ایک سابق چیئرمین نیب کے بقول صرف پنجاب میں روزانہ سات ارب کی کرپشن ہوتی ہے۔ ڈی جی رینجرز کے بقول صرف کراچی میں دو سو تیس ارب روپے کی کرپشن ہوئی۔ یعنی پاکستان میں روزانہ لاکھوں لوگ معاشی خود کش حملوں کا شکار ہوتے ہیں۔

بے شک افواج ِ پاکستان نے پاکستان سے ہر طرح کی دہشت گردی کےخاتمے کاتہیہ کر رکھا ہے مگر معاشی دہشت گردی کے معاملے میںرفتار بہت سست ہے۔تسلیم کہ کراچی میں رینجرز نے خاصا کام کیا ہے ۔نیب اور ایف آئی اے کے ادارے بھی متحرک دکھائی دیئے لیکن کرپشن کا وائرس کم نہیں ہوا۔ ذرا سوچئے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں جو سترہ اسکیل سے بائیس اسکیل تک کے لیکچرر ، اسسٹنٹ پروفیسر اور پرو فیسر ہوتے ہیں انکا لائف اسٹائل باقی تمام اداروں میں کام کرنیوالے سترہ اسکیل سے بائیس اسکیل تک کے افسران سے کیوں مختلف ہے۔انکےپاس کیوں کوٹھیاں اور کاریں نہیں ہیں ان کے بینکوں میں کروڑوں اربوں روپے کیوں موجود نہیں۔ صرف اسلئے کہ ان کے شعبے میں کرپشن کے امکانات بہت کم ہیں۔یقین کیجئے پوری قوم میں کرپشن کا وائرس پھیل چکا ہے۔ اندازہ لگایئے کہ داخلےکا میرٹ انجینئرنگ یونیورسٹیوں میں سب سے زیادہ ہے۔ آخر کیوں۔ انجینئر کو بھی وہی لیکچرر والی سترہ اسکیل کی نوکری ملنی ہوتی ہے مگر تمام والدین اپنے بچوں کو انجینئر بنانے کی پوری کوشش کرتے ہیں ۔صرف اسلئے کہ پاکستان میں کوئی کم ہی ایسا انجینئر ہوگا۔

جس نے اپنے حصے کا کمیشن نہیں وصول کیا ہو۔ پھر یہ جو پاکستان میں ’’سی ایس ایس‘‘ کی چکر بازی ہے۔ یہ کرپشن کی نرسری ہے۔ یہاں سے نکلنے والی بیوروکریسی نے سب سے زیادہ پاکستان کو لوٹا ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ ایک انیس گریڈ پروفیسر ڈائریکٹر کالجز لگ سکتا ہے مگر ڈپٹی کمشنر نہیں لگ سکتا۔ ایک بائیس گریڈ کا پروفیسر وائس چانسلر تو بن سکتا ہے مگر وفاقی سیکرٹری نہیں لگ سکتا۔ محکمہ تعلیم کا بھی۔ میں نے سیاست دانوں کی کرپشن کے بارے میں کچھ نہیں لکھا کیونکہ سیاست دان اِس کرپٹ بیور وکریسی کے بغیر کسی طرح کی کوئی کرپشن نہیں کرسکتے۔ اگر ان لوگوں کو انجام تک پہنچادیا جائے جو کرپشن میں سیاست دانوں کے ہاتھ بنتے ہیں تو یہ وائرس خود بخود مرتا چلا جائیگا ۔ جنابِ راحیل شریف !ایک ضرب عضب اس معاشی دہشت گردی کیخلاف بھی ضروری ہے۔

mansoor afaq

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے