
جمہوریت کا تسلسل
جمہوریت کا تسلسل
موجودہ حکمران بھی بڑے سیدھے سادے لوگ ہیں ان کے معاملات دیکھ کرلگتا ہے کہ عمر بھر لاہور میں رہ کر بھی بیچارے میری طرح ’’پینڈو کے پینڈو‘‘ ہی ہیں۔پینڈو کے حوالے سے ایک بڑا مشہور لطیفہ ذہن میں در آیا ۔چلئے دوبارہ بلکہ سہہ بارہ سن لیجئے کہ ایک پینڈو شہر میں ایک بہت اونچی بلڈنگ کو دیکھ رہا تھا،قریب سے چالاک شہری گزرا اور اس نے پوچھا کہ کونسی منزل دیکھ رہے ہو پینڈو بولا ’’دسویں‘‘ چالاک شہری نے کہا ’’چلو نکالو دس روپے‘‘ پینڈو نے دس روپے اسے دیئے تو قریب کھڑے ہوئے شریف شہری نے اسے کہا کہ یہ شخص تمہیں بے وقوف بنا گیا ہے ۔ پینڈو ہنس کر بولا ’’اس نے مجھے کیا بے وقوف بناناتھا بے وقوف تو اسے میں نے بنایاہے، شریف شہری کو بڑی حیرت ہوئی اور کہا ’’وہ بھلا کیسے‘‘ تو پینڈو کہنے لگا ’’ میں تو چودہویں منزل کو دیکھ رہا تھا جبکہ بتائی میں نے اسے دسویں ہے‘‘۔
اس وقت حکومت کے معاملات ایسے ہی چل رہے ہیں۔ جیسے بجلی پیدا کرنے والوں کر دے دیئے ہیں مگر لوڈشیڈنگ ختم نہ ہوئی اور جب ان سے کہا ہے کہ کمپنیاں حکومت کے ساتھ چکر کر گئی ہیں توفرمایا، انہوں نے ہمیں کیا بے وقوف بنانا تھا بے وقوف تو ہم نے بنایا ہے ۔ ہم نے یہ رقم انہیں نئے نوٹ چھاپ کر دے دی ہے یعنی حکومت کا اس ادائیگی میں صرف کاغذ اور پرنٹنگ کا خرچہ ہوا ہے۔
حکومت نے کچھ ایسا ہی بے وقوف آئی ایم ایف کو بھی بنایا ہے اور اس سے رقم وصول کر لی ہے ۔
شرائط کا کیا ہے اور ان کی حیثیت کیا ہے حکومت کو اس سے کیا حکومتی اہلکاروں نے توصرف کاغذوں پر ہی تو دستخط کئے ہیں نا۔ ایسے دستخط وہ برسوں سے بنکوں کے کاغذات پر کرتے چلے آرہے ہیں۔اب یہ تو وقت بتائے گا کہ دونوں پارٹیوں میں سے چالاک کون ثابت ہوا ہے۔ سابق صدر آصف زرداری نے بھی حکومت سے وہی سلوک کیا ہے جو اُس پینڈو کے ساتھ کیا گیا تھا یعنی انہوں نے اپنا مفاہمتی آڈریننس میعاد ختم ہوجانے کے باوجود بھی برقرار رکھا ہوا ہے ۔وہی مفاہمتی آرڈیننس جس سے ایک کھرب اور پندرہ ارب سے زیادہ کی کرپشن معاف کی گئی ہے۔ آٹھ سو سے زیادہ سیاسی مقدمات کا خاتمہ ہوا ہے۔ چالیس سیاست دان اور چھ سو کے قریب بیوروکریٹس پر لگائے جانے والے الزامات واپس لے لئے گئے ہیں ۔دوہزار تین سو ستر فوجداری مقدمات ختم ہوئے ہیں جن میں زیادہ تر مقدمات کی سزا سات سے دس سال کے درمیان تھی۔ اگرچہ سپریم کورٹ اس کے خلاف فیصلہ دے چکی ہے ۔اسی چکر میں ایک وزیراعظم کو بھی گھر روانہ کر چکی ہے مگر وہ مفاہمتی آرڈیننس ہے ختم ہونے کا نام بھی نہیں لے رہا۔ بے شک سیاسی انتقام سے زیادہ بری حرکت اورکوئی نہیںہو سکتی۔آصف زرداری اور بے نظیر بھٹو کے خلاف جومقدمات نواز شریف کے سابقہ دور میں قائم کئے گئے تھے،نواز شریف نے میثاقِ جمہوریت پر دستخط کرکے ان تمام کی یاد کو بھی دریائے ٹیمز میں بہادیا تھاشاید وہ ان مقدمات کی اصل حقیقت جانتے تھے۔ بے نظیر کے خلاف قائم کئے جانے والے ایک مقدمہ میں تو محترمہ نے، نوازشریف اور فیصلہ کرنے والے جج کے درمیان اس مقدمہ کے حوالے ہونے والی گفتگو کی آڈیو ریکارڈنگ بھی اس وقت کی اعلیٰ عدالت کو مہیا کرادی تھی۔ بہرحال مقدمات بہت سنگین تھے۔ مقدمات کی سنگینی کا اندازہ اس بات لگائیے کہ بے نظیر بھٹو اور ان کے شوہر آصف زرداری کے خلاف ایک مقدمہ منشیات کی اسمگلنگ کا بھی تھا۔ سوئٹزز لینڈ میں چلنے والے مقدمہ میں حکومتی موقف یہ تھا کہ اس سرمایہ میں وہ سرمایہ بھی شامل ہے جو سابق وزیراعظم پاکستان اور ان کے شوہر نے منشیات کی اسمگلنگ سے حاصل کیا ہے۔ منشیات کی اسمگلنگ کا یہ کیس شیخوپورہ میں بنایا گیا اس کے متعلق زیادہ تفصیل سے ڈاکٹر شیرافگن کے ایک سگے بھائی بتاسکتے ہیں جو ان دنوں شیخوپورہ میں ڈی ایس پی ہوا کرتے تھے۔
ان کو اس کی تفصیل اس لئے بھی یاد ہوگی کہ انہوں نے اس مقدمے کو درج کرنے سے انکار کردیا تھا اور یہ کارنامہ پھر کسی اور پولیس آفیسر کو سرانجام دینا پڑاتھا۔کہتے ہیں جب تک آصف زرداری جیل میں رہے ان کی کرپشن سے حاصل کیا ہوا تمام سرمایہ جاوید پاشا کے پاس تھا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب برطانیہ میں جاوید پاشانے ’’پاکستانی چینل‘‘ کے نام سے ایک ٹی وی چینل کا آغازکیا تھا میں بھی اتفاق سے کچھ عرصہ ان کے ساتھ رہا۔ سرمایہ نہ ہونے کی وجہ سے یہ پاکستانی چینل جاوید پاشا بمشکل دو سال چلا سکے تھے اور پھر اسے سونا بیچنے والوں نے خرید لیا تھا۔ جب جاوید پاشا کا پاکستانی چینل ڈوب رہا تھا تو انہوں نے مجھے کہا تھا کہ کہیں سے اس پروجیکٹ میں انوسٹمنٹ کرائو،وگرنہ یہ سب کچھ گولڈ والے لے جائیں گے کیونکہ ان کے پہلے ہی 33فیصد حصص ہیں اور وہ 33فیصد اور لینا چاہتے ہیں اور اگر ہم لوگ کہیں سے انوسٹمنٹ کرانے میں کامیاب نہ ہوئے تو چینل کا کنٹرول ان کے پاس چلا جائے گا۔ ہم لوگ اس مقصد میں کوشش کے باوجود بھی کامیاب نہ ہو سکے تھے اور گولڈ والوں نے آکر پاکستانی چینل سنبھال لیاتھا بلکہ اس کا نام تک بدل دیا تھا۔
جاوید پاشا 33فیصد کے حصص رکھنے کے باوجود بڑی بیچارگی کے عالم میں یہ سب کچھ دیکھتے رہے۔اس وقت میں نے انہیں کہا تھا کہ یہ آصف زرداری کا سرمایہ کس مقصد کیلئے آپ نے اپنے پاس رکھا ہوا ہے ،تو کہنے لگے’’اپنی عزت سے زیادہ پیاری کوئی چیز نہیں ہوتی اگر میرے پاس کوئی اس طرح کی رقم ہوتی توکیا یہ سب کچھ میں ہونے دیتا‘‘۔ میں نے پوچھا کہ’’ اگر آپ کے پاس بھی آصف زرداری کی رقم نہیں ہے تو پھر کس کے پاس ہے‘‘ ۔ کہنے لگے’’کسی کے پاس بھی نہیں۔ یہ جو اس کی کرپشن کے قصے مشہور ہیں یہ سب ایجنسیوں کا پروپیگنڈا ہے‘‘۔ میں نے بے اعتباری سے کہا کہ اگرآپ کہیں کہ اس وقت رات ہے تو میں سورج کو دیکھتے ہوئے کیسے یقین کر لوں گاکہ اس وقت رات ہے۔ پاشا صاحب بولے ’’یہی کسی کاکمال ہے۔ جھوٹ میں یہ قوت ہوتی ہے کہ اسے بار بار دہرایا جائے تو وہ سچ میں بدل جاتا ہے۔ میرا ذہن کبھی ان کی بات ماننے کیلئے تیار نہیں ہوا تھا مگر جب خود نوازشریف نے ان کے ساتھ مفاہمت کی تھی اور ان سب باتوں کو حرف ِ مکرر کی طرح مٹادیا تھا تو مجھے احساس ہوا تھاکہ شاید جاوید پاشا ٹھیک ہی کہتے تھے۔ پیپلزپارٹی کے خلاف پچھلے پانچ برس شہباز شریف پھر اسی کرپشن کے خلاف نعرے لگاتے رہے ہیں اور میں حیرت سے دیکھتا اور سوچتا رہا مگر اس وقت آصف زرداری اور نوازشریف کی قربت دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ وہ نعرے صرف سیاسی مقاصد کے حصول کیلئے تھے اور اس وقت نوازشریف کو جمہوریت کے تسلسل کے لئے پیپلزپارٹی کی ضرورت ہے۔

