جلا وطنی کا تمغہ . mansoor afaq
دیوار پہ دستک

جلا وطنی کا تمغہ

جلا وطنی کا تمغہ

الطاف حسین نے ایک عجیب وغریب بیان دیا ہے کہ برطانوی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ میری جان لے سکتی ہے ۔میں مسلسل یہی سوچ رہا ہوں کہ برطانوی حکومت ان کی جان کیوں اور کیسے لے سکتی ہے ۔ان کے خلاف عمران فاروق کے قتل کے سلسلے میں تحقیقات ہورہی ہیں خدانخواستہ اگر وہ مجرم ثابت ہوگئے تو پھر بھی ان کی زندگی کو یہاں کوئی خطرہ نہیں کیونکہ برطانیہ میں موت کی سزا ہے ہی نہیں۔ یہاں کسی بھی مجرم کو موت کی سزا نہیں دی جا سکتی۔اگرالطاف حسین کو خدشہ ہے کہ برطانوی ایجنسیاں کسی غیر قانونی طریقے سے ان کی جان لے لیں گی تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ انہوں نے ایسا کونسا کارنامہ سرانجام دیا ہے کہ ایسی کوئی امکانی صورتحال پیدا ہوسکتی ہے۔یقینا اس بات کا علم خود الطاف حسین کو ہو سکتا ہے مگر کیوں ۔ ایسی کونسی بات ہو سکتی ہے ۔کیا صرف اس لئے کہ ان سے ایک قتل کے مقدمہ کی تفتیش کی جارہی ہے اور اگر انہیں اپنی برطانوی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ سے خطرہ ہے تو وہ پاکستان چلے جائیں۔ میرے خیال میں الطاف حسین سب سے زیادہ محفوظ پاکستان میں ہوں گے وہاں وہ اپنے اردگرد انسانی جسموں کی دیوار کھینچ سکتے ہیں ۔حکومتوں اور فوج کے ساتھ معاملات طے کر سکتے ہیں ۔ پاکستان جانے کا ان کا پروگرام تو تھا مگر لگتا ہے پرویز مشرف کے انجام سے فکر مند ہو گئے ہیں چلو اگر پاکستان میں بھی حالات سازگار نہیں تو جنوبی افریقہ کی طرف تو رختِ سفر باندھ سکتے ہیں جہاں ان کے بہت سے دوسرے ساتھی بھی مقیم ہیں اور انہیں یہ کام جلدی کرنا چاہئے کیونکہ ابھی برطانوی پولیس نے ان پر اس بات کی پابندی عائد نہیں کی کہ ملک سے باہر سفر نہیں کر سکتے،کچھ دنوں کے بعد ممکن ہے یہ پابندی بھی لگ جائے۔

الطاف حسین نے اپنی تقریر میں برطانیہ کے خلاف بہت سی باتیں کی ہیں۔ انہیں اِن دنوں 1857ء کی جنگ آزادی کے دوران برطانوی افواج کی طرف سے درختوں سے لٹکائے گئے مجاہد بھی بہت یاد آرہے ہیں۔ بھگت سنگھ بھی ان کی نگاہوں میں گھوم رہا ہے ۔جلیانوالہ باغ میں جنرل ڈائر کے حکم پر شہید ہونے والے بھی یاد آرہے ہیں ۔جیلوں میں چکّی پیستے ہوئے حسرت موہانی اورمولانا شبیر عثمانی کی یاد بھی انہیں ستا رہی ہے ۔لوگ کہتے ہیں کہ الطاف حسین کو ان لوگوں کی یاد اس وقت کیوں نہیں آئی تھی جب انہوں نے ملکہ برطانیہ سے وفاداری کا حلف اٹھاتے ہوئے عہد کیاتھا کہ ”میں الطاف حسین اللہ تعالیٰ سے عہد کرتا ہوں کہ برطانوی شہریت حاصل کرنے کے بعد برطانوی قانون کے مطابق عزت مآب ملکہ الزبتھ دوم، ان کے ورثا اور جانشینوں کا تابعدار رہوں گا“ اس کے ساتھ سلطنت برطانیہ کے ساتھ وفاداری کا عہد کرتے ہوئے کہا تھاکہ ”میں ہمیشہ برطانیہ عظمیٰ کا وفادار رہوں گا اور اس ریاست میں رائج قوانین، حقوق اور آزادیوں کا احترام کروں گا، میں برطانیہ کی جمہوری اقدار کی پاسداری کروں گا اور صدق دل سے ان تمام قوانین اور ذمہ داریوں کا پابند رہوں گا جو برطانیہ میں رائج ہیں“۔ بہرحال اچھے لوگوں کی یاد الطاف حسین کو آئی ہے چاہے دیر سے ہی آئی ہے اور یہ ایک خوش آئند بات ہے ۔ایک اور بات بھی الطاف حسین نے بڑی اچھی کی ہے کہ حضرت ابوذر غفاری دولت مندوں اور سونے کا لباس پہنے والوں پر لعن طعن کیا کرتے تھے اور اس جرم میں انہیں شہر بدر کردیا گیا تھا، مجھے بھی جلاوطن کردیا گیا ہے۔کچھ دوست الطاف حسین کے سینے پر جلاوطنی کا تمغہ دیکھ کر بہت پریشان ہیں وہ الطاف حسین کو سمجھانا چاہتے ہیں کہ وہ تو جلاوطن ہو ہی نہیں سکتے ان کے پاس تو دہری شہریت موجود ہے اوردو وطن کسی کسی کے نصیب میں آتے ہیں ، سو انہیں کون جلاوطن کر سکتا ہے ۔

الطاف حسین نے یہ فرمایا ہے کہ اگر حق کی بات کرنا ، غریب ہاریوں ، کسانوں اورمحنت کشوں کو حق دلانے کی بات کرنا سوشلزم ہے تو میں سوشلسٹ ہوں، اگر یہ بات کرنا کمیونزم ہے تو میں کمیونسٹ ہوں ۔میں تو ان کی انسان دوستی کا بڑے عرصہ سے قائل ہوں۔ ویسے کچھ دوستوں کا مشورہ ہے کہ ابھی جو دو برطانوی بنکوں کے لاکرز سے ہیرے جوہرات ملے ہیں، الطاف حسین کو چاہئے کہ انہیں فوری طور پر برطانوی حکومت سے واپس لے کر غریبوں میں تقسیم کردیں۔

الطاف حسین نے یہ بھی کہاکہ مجھ سے پوچھا جارہا ہے کہ پیسہ کہاں سے آتا ہے کیا انہیں نہیں معلوم کہ میرے لاکھوں کروڑوں چاہنے والے خاموشی سے آکر عطیہ کرتے ہیں ، عطیہ کی رسید بھی نہیں کٹواتے کہ یہ صرف آپ کیلئے ہے۔ ان پر اعتراض کیا جاتا ہے مگر پاکستان کے دیگر لیڈر جن کی اربوں پونڈ کی جائیدادیں ہیں ان سے پیسے کے بارے میں اس لئے نہیں پوچھا جاتا “اگرچہ یہ الطاف حسین نے بڑی اچھی بات کی ہے مگر انہیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ پیسے کے بارے میں پوچھ گچھ تو بڑی اہم چیز ہوتی ہے ۔وہ کیوں اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ سوئس حکومت نے جس پاکستانی سے یہ دریافت کیا تھا کہ یہ پیسہ کہاں سے آیا ہے اس شخص کوہم پاکستانیوں نے صدر بنادیا تھا، سو مایوسی گناہ ہے۔الطاف حسین نے ایک اور سوال بھی بہت اہم اٹھایا ہے کہ پرویز مشرف نے 12/اکتوبر 1999ء کو مارشل لا لگایا تھا تواس اقدام کے خلاف اس لئے کارروائی نہیں کی جارہی کہ اسے عدالت نے قانونی قرار دے دیا تھا تو پھر 3نومبر2007ء کوایمرجنسی کااقدام پر پرویزمشرف کو کیسے سزا دی جاسکتی ہے یعنی اگر چیف آف آرمی اسٹاف وزیراعظم کو برطرف کرکے جیل میں ڈال دے تو وہ ٹھیک ہے، کسی جج کو گھر میں نظر بند کردے تو وہ ملک سے غداری قرار پاجائے ۔چلئے ایسے وقت میں جب پرویز مشرف کے ایک سو پچاس ساتھی نواز شریف کے ساتھ کھڑے ہیں کوئی تو ان کے حق میں بولا ہے مگر اب دیر ہوچکی ہے۔سنا ہے پرویز مشرف الطاف حسین سے بھی ناراض ہیں کہ ان کے استقبال کیلئے الطاف حسین نے اپنے لوگوں کو ایئرپورٹ پر نہیں بھیجا تھا۔

الطاف حسین نے اور بھی بہت سی اہم باتیں کی ہیں اور ابھی اور بھی کرنے والے ہیں ۔ میں ان کی درازیٴ عمر کیلئے دعاگو ہوں۔

mansoor afaq

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے