
تیسری بار
تیسری بار
کوئی تیسری بار وزیر اعظم بن چکا ہے۔مٹھائیاں تقسیم ہورہی ہیں کہ پاکستان کی تقدیر بدل گئی ہے۔بھنگڑے ڈالے جارہے ہیں جیسے اب لوڈشیڈنگ کہیں نہیں ہوگی ۔ایم این ایز ایک دوسرے سے گلے مل کر مبارک بادیں دے رہے ہیں جیسے اب وہ ہمیشہ اپنے محبوب قائد کے ساتھ رہیں گے۔کالے بوٹوں سے الرجک کیبنٹ کچن میں داخل ہو چکی ہے جیسے جوتے ہمیشہ کیلئے سفید ہوگئے ہیں ۔وہ جو کل ایک بہادر آدمی ساتھ ہوا کرتا تھاجیسے وہ آج مد مقابل نہیں کھڑا۔ہردیوار کے طاق میں امید کا چراغ روشن ہے مگرصبح کی زرتار شعاعیں ابھی تک ایک سوالیہ نشان کی طرح ہیں۔
کوئی تیسری بار وزیر اعظم بن گیا ہے۔ویسے راجہ پرویز اشرف کے وزیر اعظم بننے کے بعد یہ عہدہ نواز شریف کے قابل نہیں رہا تھا چلو کوئی بات نہیں وزارتِ عظمیٰ کی کرسی کو دوچار بار آبِ زمزم سے دھو کر پاک صاف کرلیں گے۔سنا ہے یوسف رضا گیلانی کے جانے کے بعد پرویز اشرف نے بھی وزیر اعظم ہاؤس کے ہر کمرے میں ایک مولوی صاحب سے بلائیں ٹالنے والی دعائیں پڑھائی تھیں اور تیل سے چلنے والا مولوی تو نواز شریف نے بھی رکھ لیا ہے ۔پرمٹوں کی قیمت پر دعائیں پڑھنے کا عمل جاری رہے گا۔
ایک مجذوب، صدر زرداری نے بھی صدر ہاؤس میں رکھاہوا ہے۔پانچ سال پہلے میری جب اس سے ملاقات ہوئی تھی تو اس نے کہا تھا”میں صرف اتنا کہہ رہا ہوں کہ اس عمارت میں آصف علی زرداری پورے پانچ سال قیام کریں گے۔“پیر اعجاز کا کہا ہواپورا ہونے والا ہے۔ جمہوریت کی بقاکیلئے صدر زرداری کو چاہئے کہ وہ تحفے کے طور پر پیراعجازکونواز شریف کے پاس وزیراعظم ہاؤس میں بھیج دیں۔(مظہر برلاس کو اس سلسلے میں خصوصی کردار ادا کرناچاہئے)۔
ویسے اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ پیر اعجاز ہے بڑی چیز۔۔ایک دن میں نے انہیں کہا ”لوگ کہتے ہیںآ پ مجذوب ہیں “تو کہنے لگے”لوگ غلط کہتے ہیں مجذوب صدرہاؤس میں نہیں رہا کرتے “میں نے کہا ”مگر لوگ صدر ہاؤس میں پلاسٹک کے چپل اورکئی دن کے میلے کپڑے پہن کر بھی نہیں رہا کرتے“تو اٹھ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے ” چلو بھئی ”برلاس ہاؤس “پر۔منصور ہمیں صدرہاؤس نہیں رہنے دے گا۔“
ہاں تو کوئی تیسری مرتبہ وزیر اعظم بن چکا ہے۔ کہتے ہیں” ہما“نام کا ایک پرندہ جس کے کندھے پر آکر بیٹھ جاتا ہے وہی بادشاہ بن جاتا ہے یقینااس پرندے کے ساتھ نواز شریف کے بڑے اچھے مراسم ہیں پانچ سال پہلے یہی پرندہ آصف علی زرداری کے کندھے پر آکر بیٹھا تھا۔اب جب ان کی صدرات کے پانچ سال پورے ہورہے ہیں تو یہ محسوس ہورہا ہے کہ زرداری صاحب بھی بنیادی طور پر فقیر آدمی ہیں۔وہی فقیر جسے بادشاہ بنادیا گیا تھا۔ پرانے زمانے کی بات ہے ایک شہر کا بادشاہ مر گیا رواج کے مطابق صبح سب سے پہلے شہر میں داخل ہونے والے شخص کو بادشاہ بنا دیا گیا۔وہ اتفاق سے فقیر تھافقیر نے تخت نشیں ہوتے ہی حلوہ پکانے کا حکم جاری کردیا۔ فقیروں کی دعوتیں ہونے لگیں۔رفتہ رفتہ کاروبارِ مملکت میں فقیر کی عدم دلچسپی کی وجہ سے حالات ابتر ہوتے گئے۔خبر آئی کہ ہمسایہ ملک کی فوجیں حملہ آور ہونے والی ہیں۔بادشاہ نے کہا حلوہ پکاؤ۔ پھربتایا گیا کہ فوجیں قریب آچکی ہیں بادشاہ نے کہا حلوہ پکاتے رہو۔۔ اطلاع دی گئی کہ فوجوں نے شہر پناہ کا محاصرہ کر لیا ہے ۔ بادشاہ نے کہا اور زیادہ حلوہ پکاؤ۔۔پھر بتایا کہ فوجیں شہر میں داخل ہونے والی ہیں۔ بادشاہ نے وہی پرانا کمبل اٹھا یااپنے فقیری کے دنوں والے کپڑے پہنے کاسہ ہاتھ میں لیا۔ اور کسی اور شہر کے سفر پر روانہ ہوگیا۔ستمبر کے بعد یقینا زرداری صاحب بھی کسی اور شہر کے سفر پر روانہ ہوجائیں گے ۔
ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ کوئی تیسری مرتبہ وزیر اعظم بن گیا ہے ۔تیرہ چودہ سال لگے ہیں ٹرین کو واپس پٹڑی پہ چڑھتے چڑھتے ۔خدانخواستہ اب اگر اتری تو اس زندگی میں واپسی کا امکان کم ہی دکھائی دیتا ہے۔سو بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔اُسی احتیاط کی ۔جسے آج کے سقراط نے یہ کہتے ہوئے اپنالیاتھا۔
آپ نے ٹھیک کہا آپ بڑے سچے ہیں
میراگھر ہے مری بیوی ہے مرے بچے ہیں
ساغرِ زہر اٹھا لیجئے میں سقراط نہیں
ہاں تو تیسری بار۔۔۔۔جی جی نوازشریف تیسری بار وزیر اعظم بن چکا ہے۔کاشغر سے گواردر تک پھیلی ہوئی ریلوے لائن کا وزیر اعظم ۔میرے خیال میں اگر نواز شریف یہی کچھ کر جائے تو بہت ہے اس کے لئے ۔بلکہ آئندہ مریم نواز کے وزیراعظم بننے کے لئے بھی۔لیکن ایرانی گیس کے بغیر لوڈ شیڈنگ ختم نہیں ہوسکتی اور امریکہ بہادر کے ساتھ یہ معاملہ تو اقتدار میں آنے سے پہلے طے کردیا گیا تھا۔سو لوڈشیڈنگ کا خاتمہ پانچ سال پہلے ممکن نہیں یعنی عوام کو یہ خوشخبری سنائی جاسکتی ہے کہ آئندہ انتخابات سے پہلے پہلے نواز شریف کی حکومت پاکستان میں مکمل طور پر لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ کردے گی۔چوتھی بارکیلئے۔

