تیرا مکہ رہے آباد مولا. mansoor afaq
دیوار پہ دستک

تیرا مکہ رہے آباد مولا

تیرا مکہ رہے آباد مولا

ڈاکٹر طاہر القادری کے ساتھ انتخابات سے پہلے ڈی چوک پر پیپلز پارٹی کی حکومت نے ایک معاہدہ کیا تھا جس سے بعد میں وہ منحرف ہوگئی تھی۔یعنی دھوکادہی سے کام لیا گیا تھا۔وہ معاہدہ آئین کے تحت ایک صاف شفاف انتخابات کا تھا ۔چونکہ پیپلزپارٹی کی حکومت اپنے وعدے کے مطابق نون لیگ کو حکومت دینا چاہتی تھی اس لئے اخلاقیات سے بالاتر اس وقت کے صدرنے پوری قوم کے سامنے ہونے والے اُس معاہدے کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے پاکستان کی گلی کوچوں میں بکھیر دئیے۔پھروہ ٹکڑے کرچیوں میں بدل گئے اور ہر پاکستانی نے ان کی چبھن اپنے پائوں میں محسوس کی اور جس ہاتھ نے اس معاہدہ کوئی ٹکڑا زمین سے اٹھایا اسے ایسا لگا جیسے انگارہ اس کے ہاتھ میں آگیا ہو۔

اس واقعہ کے تقریباً ایک سال کے بعد ایک روزاچانک پاکستانی قوم نے دیکھا کہ ماڈل ٹائون میں ڈاکٹر طاہر القادری کے گھر کے باہرپولیس نے ایک سو قریب لوگوںکو دن دھاڑے میڈیا کے کیمروں کے سامنے گولیوں سے چھیلنی کردیا۔لوگ ششدر رہ گئے ہیں۔وزیر اعلیٰ نے فوری طور پراپنے پرسنل سکریڑی اور وزیر قانون کو نوکریوں سے فارغ کردیا۔ایک جج کو تحقیقات کیلئے مقرر کر دیا گیالیکن کسی تھانے میں مدعیان کو مقدمہ درج کرانے کی اجازت نہیں دی گئی بلکہ ایف آئی آر بھی انہی نے درج کرائی جنہوں نے قتل عام کیا تھا۔ پاکستانیوں نے اس خوفناک واقعہ کو بڑی غیر یقینی دیکھااورسوچنے لگے کہ ان کی قسمت میںصرف لوڈشیڈنگ اورناقابل ِ برداشت مہنگائی ہی نہیں پولیس کی گولیاں بھی ہیں جوٹانگوں پر نہیں چہروں اور سینوں پر ماری جاتی ہیں۔

اپنے شہیدوں کی قبروں پر جانے کیلئے اور اپنے زخمیوں کی عیادت کیلئے ڈاکٹر طاہر القادری جب پاکستان آنے لگے تو انہوں نے پروگرام بنایا کہ وہ اسلام آباد میں اتریں گے اور پھر ایک ریلی کی صورت لاہور پہنچیں گے۔جہاز اسلام آباد پہنچا تو اسے کہا گیا کہ وہ یہاں نہیں اترسکتا۔ سات چکر کاٹنے کے بعد جہاز کو کہا گیا کہ وہ لاہور ایئرپورٹ پر لینڈ کرے۔ لوگوں نے اس عجیب وغریب واقعہ کو حیرت سے نہیں دیکھا کہ ڈاکٹر طاہر القادری سے شریف برادران بری طرح خوف زدہ ہیں۔ لوگوں کو ایسا لگا جیسے انہیں فرعون کی طرح کسی نجومی نے یہ بتادیا ہے کہ ان کی تباہی کا سبب ڈاکٹر طاہر القادری نے ہی بننا ہے۔

پھر جب ڈاکٹر طاہر القادری نے دس اگست کو یومِ شہداء کااعلان کیا توحکومت نے اپنے محل بچاکر پورے پنجاب کو جیل بنادیا۔چار ہزار کنٹینر پنجاب کی سڑکوں پر کھڑے کر دئیے گئے۔ ایک ہزار کنٹینر اسلام آبادکی سڑکوں کیلئے منگوائے گئے اور اس وقت تک گیارہ سو کے قریب راستوں پر خندقیں کھودی جاچکی ہیں۔پورے ملک کو منجمد کردیا گیاہے اور لگ رہا ہے یہ صورت حال ایک دو ہفتے ضرور قائم رہے گی ۔اگردس دن بھی رہی تو ملک کو اربوں کا نقصان ہوگا۔پھر ایک کنٹینر کا ایک دن کاکرایہ دس ہزار روپیہ ادا کیا جارہا ہے۔ یعنی دس دن کیلئے ایک کنٹینرکا کرایہ ایک لاکھ روپیہ ہے ۔اب آپ ایک لاکھ کو پانچ ہزار سے ضرب دے کر خود دیکھ لیں کہ حکومت نے کنٹینر کی مدد میں عوام کا کتنا سرمایہ ضائع کیا ہے۔

دس اگست کو جب ڈاکٹر طاہر القادری نے لوگوں سے کہا تین دن یہیں رہیں تین دن کے بعد چودہ اگست کو یہاں سے ہم انقلاب مارچ شروع کریں گے توماڈل ٹائون کو واقعتاًایک وسیع و عریض جیل میں بدل دیا گیا۔سات لوگ یومِ شہدا کی تقریب میں شمولیت گھروں سے نکلے۔راستے میں کام آگئے۔یعنی پولیس کے ہاتھوں مارے گئے ۔اس کالم کے شائع ہونے تک نجانے کتنی اور شہادتیں ہوچکی ہوں۔اس کے بارے میں تو میں کچھ نہیں کہہ سکتا مگرڈاکٹر طاہر القادری کا یہ اعلان پاکستانیوں نے بڑی پریشانی سے سناکہ یا تو میں شہید ہوجائوں یا انقلاب آئے گا عمران خان نے بھی کچھ ایسی ہی بات کی کہ میں اس کرپشن زدہ پاکستان میں زندہ نہیں رہنا چاہتایعنی یا تو کرپشن کا نظام ختم کروں گا یا خودمر جائوں گا۔

عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کی تبدیلی کے لئے اتنی سنجیدگی دیکھ پاکستانی قوم نے بھی باہر نکلنے کا فیصلہ کرلیاہے۔میری اطلاع کے مطابق لوگ ابھی سے اسلام آباد کی طرف چل پڑے ہیں۔اسلام آباداور راولپنڈی میں شایدہی کوئی ایسا گھر ہوجس میں دوچار مہمان نہ آگئے ہوں۔وہ مشائخ کرام اور علمائے کرام جو پہلے خاموشی سے معاملات کو دیکھ رہے تھے انہوں نے اپنے ماننے والوں کواحتجاج میں شریک ہونے کا کہہ دیاہے ۔ مدرسوں کے طلباکو بھی علماء نے اس احتجاج میں شریک ہونے کی اجازت دے دی ہے۔ایک خبر کے مطابق نون لیگ کے کئی ایم این ایز اور ایم پی ایز اپنے لوگوں کو خاموشی سے احتجاج میں شرکت کیلئے ابھار رہے ہیں۔یہ وہ لوگ ہیں جنہیں حکومت میں آنے کے بعد نواز شریف اور شہباز شریف نے کبھی ملاقات کا وقت بھی نہیں دیا۔گورنر پنجاب کو بھی برطانیہ سے مشورہ دیا گیا ہے کہ گورنر شپ چھوڑ کر فوراً واپس آجائیں۔وفاقی وزیر مملکت امین الحسنات پر بھی ان کے ماننے والوں کا شدید دبائو ہے کہ وہ فوری طورپر مستعفی ہوجائیں۔مذہبی حلقوں میں سے اس وقت نواز شریف کے ساتھ صرف مولانا فضل الرحمن کے ماننے والے کھڑے ہیں۔

کیونکہ ان لوگوں کے ڈاکٹر طاہر القادری کے ساتھ صرف شخصی نہیں نظریاتی اختلافات بھی ہیں۔کچھ لوگوں کا یہ خیال بھی ہے کہ جماعت اسلامی اس احتجاج میں اس لئے عمران خان کے ساتھ آزادی مارچ میں شریک نہیں ہورہی کہ عمران خان نے اپنے ساتھ ڈاکٹر طاہر القادری کو ملا رکھا ہے۔یہ بات میں نے پہلے عرصہ پہلے کہی تھی کہ عمران خان کا آزادی مارچ اور ڈاکٹر طاہر القادری کا انقلاب مارچ ایک ہی تصویر کے دو رخ ہیںمگر حکومتی حلقے اس بات پر یقین کرنے کا تیار نہیں تھے اور اب شریف خاندان کے پاس اور کوئی چارہ نہیں کہ وہ مکہ تشریف لے جائے اور اللہ اللہ کرے اور ساتھ یہ دعا بھی کرے۔ تیرا مکہ رہے آباد مولا۔

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے