
تھر پارکرکے مظلوم
تھر پارکرکے مظلوم
میں اس سات سالہ نابینابچے کو کیسے بھول سکتا ہوںجو سوکھی ہوئی روٹی کے ایک ٹکڑے کا نوالہ ہاتھ میںلے کر لکڑی کےبرتن میں گھلی ہوئی مرچ کا کوئی قطرہ ڈھونڈھ رہا تھا۔میں اُس بارہ سالہ گونگے بچے کو کیسے اپنے ذہن سے نکال سکتا ہوں جو اشاروں کی زبان سے مجھے سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا کہ مجھے روٹی چاہئے، پانی چاہئے ،بجلی چاہئے۔میں اُس گھر کو کیسے بھلا سکتا ہوں جس کے باسی اپنے کچے کوٹھے کے دروازے کی جگہ دیوار بنا کر تھر سے ہجرت کر گئے تھے کہ وہاںفاقوں نے زندگی ان کیلئے اجیرن کردی تھی ۔میں مسلمانوں کے اُس گائوں کو کیسے بھول سکتا ہوں جہاں ایک سو زائد گھر تھے مگر کسی گھر میں قرآن حکیم موجودنہیں تھا ۔جہاں کوئی بچہ،کوئی لڑکی ، کوئی بوڑھا ایسا نہیں تھا جو لفظ پڑھ سکتا ہو۔میری یادداشت سے وہ مندر کیسے نکلیں گے جہاں کی ہندو آبادی نے دیویوں اور دیوتائوں کے بتوں کی جگہ اُن کی پھٹی پرانی تصویریں رکھی ہوئی تھیں کہ بت اُن کی قوتِ خرید سے باہر ہیں۔میں اُس بوڑھے شخص سے کیسے صرفِ نظر کرجائوں جس نے میزبان کے طور پر ہمیں پانی پلایا تو پانی کے گلاس آدھے آدھے بھرے۔وہ جو ایک ہفتہ سید ظفراللہ شاہ کے ساتھ میں نے تھرپارکر میں گزارا ہے وہ میرےلئے بہت تکلیف دہ تھا۔ میں نے اپناایسا پاکستان پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔
گزشتہ دنوں تھر کے معروف دانشور کرشن شرما برمنگھم میں سید ظفراللہ شاہ کی دعوت پر تشریف لائے تو میں نے کہا کہ این جی اوز کے حوالے سے آپ کا نام بہت معتبر سمجھا جاتا ہے ۔ آپ جاوید جبار کے ساتھ بڑے طویل عرصے سے تھر میں کام کررہے ہیں مگر مجھے اس بات پر بڑی حیرت ہے کہ مجھے تو پانی کے حوالے سے وہاں کسی ادارے کا کوئی خاص کام نظر نہیں آیا۔صرف سیدظفراللہ شاہ کے بنوائے ہوئے چالیس پچاس کنویں ستر اسی ہینڈپمپ اوردوتین پانی صاف کرنے والے پلانٹس کے علاوہ اور کچھ نہیں دکھائی دیا ۔ ممکن ہے مجھے صرف وہاں جانے کا اتفاق ہوا ہوجہاں شاہ صاحب کے لگوائے ہوئے کنویں وغیرہ تھے۔ شاہ صاحب نے وہاں یہ کام دو تین سال پہلے شروع کیا ہے جب قحط سالی کا بہت شور پڑا تھا اس وقت بے شمار اور ادارے بھی وہاں کام کرنے گئے تھے ۔وہ سب کیا ہوئے ۔ حکومت کیا کررہی ہے تو کرشن شرما نے کہا کہ وہ سب ایک دوماہ کے بعدچلے گئے تھے۔وہ سب ہنگامی امداد کرنے والے ادارے تھے۔ ہنگامی نوعیت کے خاتمے کے ساتھ انہیں جانا تھاجہاں تک شاہ صاحب کا تعلق ہے تو ان کا ایک پروجیکٹ فوڈ فار آل ہے جسے انہوں نے حسنی لنگر کا نام دے رکھا ہے اور دوسرا پروجیکٹ واٹر فار آل جسے انہون نے حسینی سبیل کا نام دیا ہوا ہے یہ مسلسل پروجیکٹ ہیں ہنگامی نہیں۔جہاں حکومتی اداروں کی نااہلی کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں کرشن شرما کا خیال تھاکہ حکومت کی عدم دلچسپی کا سبب وہ اقلیتی نمائندے ہیں۔جن کا انتخاب لوگ نہیں سیاسی پارٹیاںکرتی ہیں۔تھر کے معاشی مسئلے کے پیچھے جہاںاور بہت سی باتیں ہیں وہاںبڑھتی ہوئی تنگ نظری بھی ہے ۔
تھرپارکرکی کی آدھی آبادی جو بہت برے حال میں ہے ۔کیسی دلچسپ بات ہے کہ سندھ کا ایک گائوں جس کی آبادی پانچ ہزار افراد پر مشتمل ہے وہاں سے تعلق رکھنے والے چھ افراد مختلف پارٹیوں کی طرف سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ممبر ہیں۔دراصل اس گائوں کے لوگ شراب کا کاروبار کرتے ہیں اوربہت امیرہیں۔پارٹیوں کو لمبا فنڈ دیتے اور اقلیتی سیٹ حاصل کر لیتے ہیں ۔وہ لوگ جنہوں نے فنڈ دے کر سیٹ حاصل کی ہے انہوں نے اپنے لوگوں کی نمائندگی خاک کرنی ہے۔‘‘کرشن شرما کی گفتگوسے میری نظر میں سید ظفراللہ شاہ کی قدوقامت اور زیادہ بڑھ گئی کہ وہ مذہبی رہنما ہوکر ہندو آباد ی کو مسلسل پانی اور خوراک فراہم کر رہے ہیں۔میں نے سید ظفراللہ شاہ کوروشنی کی طرف متوجہ کیا کہ جہاںتھر کے لوگوں کو پانی اور خوراک کی ضرورت ہے وہاںانہیں زندگی میں آگے بڑھنے کیلئے بجلی بھی چاہئے۔ کتنے ستم کی بات ہے کہ تھر کے چند شہروں کے سوا وہاںعلاقےکے کسی گائوں میں بجلی نہیں ہے۔سو سو گھروں کے مشتمل یہ گائوں شام ہوتے ہی تاریکیوں میں ڈوب جاتے ہیں۔ بجلی نہ ہونے کی وجہ سےدنیا سے یہ علاقہ بالکل بے خبر ہے۔ ٹی وی ، ریڈیو، ڈش، کیبل ، اسکول کچھ بھی تو نہیں وہاں۔کیسے لوگوں کے ذہنوں میں روشنی کی کوئی لکیر اترے ۔کیسے انہیں اپنے حقوق کا علم ہو۔سید ظفر اللہ شاہ نےاسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے وہاں ’’ایک نیا منصوبہ بھی شروع کیا ہے جس کانام انہوں نے ’’روشنی سب کیلئے ‘‘ رکھا ہے ۔اللہ تعالی انہیں اپنے مقصد میں کامیاب و کامران فرمائے۔
مگر یہ کسی ایک شخص کام کانہیں۔بلکہ پندرہ لاکھ افراد پرمشتمل اس آبادی کو روشنیوں میں لانے کیلئے کوئی ایک ادارہ بھی تنہا کامیاب نہیں ہوسکتا۔اس کیلئے سب کو تھر کی طرف پوری طرح توجہ دینا پڑے گی۔جہاں تک حکومت کی بات ہے تو اس سے توقع برف کے تودے پر کھڑے ہوکر سورج کو پکڑنے کے مترادف ہے۔

