تبدیلی کے ساتھ ساتھ سفر. mansoor afaq
دیوار پہ دستک

تبدیلی کے ساتھ ساتھ سفر

تبدیلی کے ساتھ ساتھ سفر

برمنگھم ایئر پورٹ سے چودہ تاریخ شام پانچ بج کر پندرہ منٹ پر پی آئی اے کی فلائٹ کو اسلام آباد کیلئے روانہ ہونا تھا۔ علامہ سید ظفر اللہ شاہ اورمیں تین بجے ایئرپورٹ پرپہنچ چکے تھے تمام مسافروں کو مقررہ وقت پراُس لاونج میں پہنچادیاگیا تھاجہاں سے جہاز کے اندر داخل ہونا تھا۔تقریباً ساڑھے تین سو سے زائد مسافر تھے اور تمام پاکستانی تھے۔مگرجب جہاز ایک ڈیڑھ گھنٹہ لیٹ ہواتو لوگوں کے چہروں پر لکھا گیا ۔’’گو گو‘‘یہ بات کچھ لوگوں کو ناگوار بھی گزری کہ آخرجہاز کے لیٹ ہونے میں نواز شریف کا کیا قصور ہے۔

پندرہ تاریخ کی صبح ہم اسلام آباد ایئرپورٹ پر اترے اور وہاں سے سیدھے پنڈ دادن خان پہنچے جہاں ظفراللہ شاہ نے تین گائوں ’’چک شفیع ‘ چک ڈفر ، چک اویس کو پینے کا صاف پانی فراہم کرنے کیلئے تین پلانٹ لگوائے تھے جوکڑوے اور زہریلے پانی کو میٹھے اور صحت مند پانی میں بدل رہے تھے۔وہاں کے لوگوں نے ہمیں مجبور کیا کہ ہم کچھ اور گائوں کا وزٹ بھی کریں کیونکہ وہاں پانی کے حوالے سے لوگوں کی حالت بہت بری ہے۔ہم جب اگلے گائوں گول پورمیں پہنچے تو میری آنکھوں نے یہ عجیب منظر دیکھا کہ بارش کے پانی کے ایک گندے تالاب سے ایک گائے بھی پانی پی رہی ہے اور ایک اٹھارہ بیس سالہ نوجوان بھی ۔اسی تالاب میں خواتین پینے کیلئے پانی کی گاگریں بھی بھر رہی ہیں اور بھینسیں اور گائیں اسی تالاب میں نہا رہی ہیں۔ اکیسویں صدی میں پنجاب کے دل میں ایک ایسے مناظر دیکھ کر میرا دل چاہا کہ مجھے ’’گو وزیراعظم گو ‘‘کا نہ سہی ’’گو وزیراعلی گو‘‘ کا نعرہ ضرور لگانا چاہئے۔

وہاں سے شام کو براستہ میانولی ڈیرہ اسماعیل خان پہنچے۔جہاں سابقہ ڈپٹی اسپیکر فیصل کریم کنڈی کا کنڈی فارم ہمارا منتظر تھا۔اگلی صبح فیصل کریم کنڈی کے چھوٹے بھائی احمد کنڈی کے ساتھ ہم دامان کے علاقے گئے جہاں پینے کا پانی زمین سے نکالنے کیلئے تقریباً ایک ہزار فٹ تک نیچے جانا پڑتا ہے۔ہم یہ سوچ کر وہاں گئے تھے کہ وہاں لوگوں کیلئے پینے کا پانی سب سے بڑا مسئلہ ہے مگر ہمیں یہ دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی کہ وہاں پینے کا پانی پنجاب کے کئی علاقوں سے زیادہ بہترانداز میں لوگوں کو میسر ہے۔یعنی یہاں بھی ’’گو گو‘‘کا نعرہ لگایا جاسکتا تھا۔

ڈیرہ اسماعیل خان سے ہم پانچ بجے کے قریب نکلے اب ہماری منزل ملتان تھا۔جہاں معروف کالم نگار ہارون رشید ہمارے منتظر تھے اور جو ہمیں موبائل فون پر جاوید ہاشمی کی شکست کا لمحہ بہ لمحہ حال سنا رہے تھے۔ہم ملتان پہنچے تو پی ٹی آئی کے نوجوان سٹرکوں پر فتح کی خوشی میں رقص کر رہے تھے۔جاوید ہاشمی کی شکست کا تو اس سارے عالم کو اس رات معلوم ہوگیا تھاجب عمران خان نے ملتان کی تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ کیا تھا۔ان دنوں عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری جلسوں کی ایک نئی تاریخ رقم کررہے ہیں۔میں سب سے زیادہ حیران میانوالی کے جلسے پر ہوا۔ میانوالی میرا شہر ہے اورمیں نے اپنی زندگی میں اپنے شہر میں اتنے زیادہ لوگوں کو ایک جگہ جمع کبھی نہیں دیکھا۔جلسے میں لوگوں کی تعدادکے حوالے سے فیصل آبادکاجلسہ بھی میرے لئے حیران کن تھا۔کیا یہ بات حیرت انگیز نہیں کہ فیصل آباد جو ابھی ایک سال پہلے نون لیگ کا قلعہ تھا وہاں ڈاکٹر طاہر القادری کے جلسے میں عمران خان کے ملتان کے جلسے سے زیادہ لوگ شریک تھے۔
ہم جہاں گئے جس طرف گئے ہر طرف ’’ گو گو ‘‘ کی گمبھیرتا پھیلی ہوئی دکھائی دی۔اور میں یہ سوچنے لگا کہ آخر’’گو گو‘‘ کا نعرہ کیوں اتنا مقبول ہوگیا ہے۔کیا واقعی اتنی جلدی قوم کا دل حکومت سے بھر گیا ہے۔یا یہ دھر نوں کی میڈیا مہم کا کمال ہے ۔پھرزبانِ خلق کو نقارہ ِ خدا سمجھ کر سوچا کہ شاید اہلِ آسماں کوحکمرانوں کی کوئی بات ناپسند آگئی ہے کہ حکومت کے بڑے بڑے ڈھنڈورچی بھی ڈھول کی بولتی کھال پر اپنی چمکتی چھمک دبے دبے انداز میں مار نے لگے ہیں۔شاید ان کے اندر بھی غیر محسوس انداز میں یہی عوامی نعرے گونج رہے ہیں۔

پاکستان پہنچنے سے پہلے میرے لئے یہ بات عجیب وغریب تھی کہ عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری نون لیگ کی حکومت گرانے پر قدرت رکھنے کے باوجوداسے نہیں گرا رہے ۔ اور صرف اسی بات پر اڑے ہوئے ہیں کہ نواز شریف خود استعفیٰ دیں۔یقینایہ بات آپ کیلئے حیران کن ہوگی کہ یہ دھرنے دینے والوں کے پاس حکومت گرانے کے کئی راستے موجود ہیں مگر وہ ان پر عمل پیرا نہیں ہو رہے۔مثال کے طور پر ایم کیو ایم کے تمام ممبران کے استعفے الطاف حسین کی میز پر پڑے ہوئے ہیں۔اور ان کی ڈیمانڈ بھی کچھ زیادہ نہیں ۔وہ مستقبل میں صرف سندھ کی وزارتِ اعلی کے خواہش مند ہیں۔نون لیگ کے ساٹھ ارکان بھی بس ایک اشارے کے منتظر ہیں۔جس کا اظہارنون لیگ کے سابق وزیر اعلی دوست محمد کھوسہ کئی مرتبہ کر چکے ہیں۔ وفاقی حکومت وہ وزراء جو پرویز مشرف کے دور میں وزیر ہوتے تھے۔ان کیلئے نون لیگ کے دروازے سے باہر آجانا کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ مگر عمران خان ڈاکٹر طاہر القادری بضد ہیں کہ نواز شریف خود استعفیٰ دیں۔ یوں لگتا ہے ۔ہمارا سفرجاری ہے۔ ابھی ہم نے ندیم خان بھابھہ کے علاقے ’’دھلو ‘‘ اورآصف زرداری کے ’’تھر جانا تھا۔وہاں کی کیا صورت حال ہے یہ اگلے کالم میں۔یقیناً اگلے کالم کا عنوان ’’ گو زرداری گو‘‘ ہوگا۔کیونکہ اب’’ زرداری ‘‘اور ’’نواز ‘‘دونوں ناموں کی عددی قوت ایک ہوتی جارہی ہے۔

 mansoor afaq

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے