بزرگان ِ انتخابات. mansoor afaq
دیوار پہ دستک

بزرگان ِ انتخابات

بزرگان ِ انتخابات

بچپن کی بات ہے۔ میں اُس وقت سینٹرل ماڈل ہائی اسکول میں چھٹی جماعت کا طالب علم تھا۔اسکول کے گراونڈ میں کلاس لگی ہوئی تھی۔ (بہ محاورہ عدالت لگی ہوئی تھی) اُس روز موسم بڑا سہانا تھا سو ٹیچر کے حکم پر ہر بچہ خود کلاس روم سے اپنی کرسی اٹھا لایا تھا اور اس پر بیٹھا ہوا تھا۔ بادل چھائے ہوئے تھے۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ اسکول کی عمارت ایک طرف تھی دوسری طرف ہوسٹل تھا اور درمیان میں یہ وسیع و عریض گراونڈ۔اس کے بالکل ساتھ ایک نہر تھی ۔یقینا اب بھی ہے۔بہت بڑی نہر۔یہ کالاباغ کے مقام پردریائے سندھ سے نکالی گئی ہے ۔شاید اس جگہ کو جناح بیراج کہتے ہیں ۔یہ نہر میانوالی شہر کو چیرتی ہوئی تھل کے ریگزاروں میں اتر تی ہے تو کئی شاخوں میں تقسیم ہوجاتی ہے۔ ان دنوں گرائونڈ اور نہر کے درمیان ایک باریک سا کچا راستہ ساتھا اب تو وہاں سڑک بن چکی ہے۔بے شک نئی سڑک تبدیلی کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے ۔

ہم پڑھ رہے تھے ۔ اور دھیرے دھیرے چلتی ہوئی ہوا یک لخت اتنی تیزہوئی کہ آندھی میں بدل گئی ۔آندھی بھی ایسی کہ بلیک بورڈ اسٹینڈ سمیت، ٹیچر کے سامنے پڑی ہوئی میزحاضری رجسٹر اور انکی بازئووں والی نئی کرسی، اڑتی ہوئی نہرمیں جاگری۔ میں اُس وقت کھڑا ہو کر کسی سوال کا جواب دے رہا تھا ۔سو میری کرسی بھی نہر میں پہنچ گئی تھی۔آندھی کی وجہ سےجو بچے اٹھ کرعمارت کی طرف بھاگے تو ان کی کرسیاں نہر کی طرف رواں دواں تھیں۔ٹیچر نے چیخ کر کہا کہ اپنی اپنی کرسی کو پکڑ لو ۔ہر بچے نے اٹھ کر اپنی اپنی کرسی کو مضبوطی سے پکڑ لیا اب منظرکچھ یوں تھا۔ہوا کرسیوں کو ایک طرف کھینچتی تھی اور بچے دوسری طرف ۔پھر عمر بھر میں کرسیوں کی یہی کھینچا تانی دیکھتا آیا۔ہر چنک میں تین سین تھے ۔پہلاکرسی کا حصول۔دوسراتیزہوا میں کرسی پراپنی گرفت مضبوط تر رکھنےکی سعیء مسلسل ۔ تیسرااڑتی ہوئی کرسی کی جانب لپکتے ہوئے خالی ہاتھ۔کرسیوں کی ہزاروں اقسام ہیں ۔کچھ دیکھنے میں بڑی مضبوط ہوتی ہیں مگر اندر سے انہیں دیمک چاٹ چکی ہوتی ہے ۔کچھ بظاہر بڑی کمزور ہوتی ہیں مگرپرانے شیشم کی لکڑی انہیں ٹوٹنے سے محفوظ رکھتی ہے۔کچھ کرسیوں کی لکڑی بڑی لچک دار ہوتی ہے۔ہوا کے تند و تیز تھپیڑے اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ۔اس وقت میرا موضوع الیکشن کمیشن کی عمارت میں پڑی ہوئی چار کرسیاں ہیں ۔میں جب بھی اُن کی طرف دیکھتا ہوں تو مجھے وہی گرائونڈ میں لگی ہوئی کلاس والا منظر یاد آجاتا ہے ۔خاص طور پر اس خبر نے تومنظر بہت واضح کر دیا کہ’’ چیف الیکشن کمشنر سردار رضانے الیکشن کمیشن کے ارکان کے استعفوں کے رسوا و بدنام معاملات سے خود کو الگ کرلیا ہے ‘‘۔وہی منظر ہے تیز آندھی میں کسی استاد کے کہنے پر بچے اپنی کرسیوں سے چمٹے ہوئے ہیں اورآندھی کی شدت میں کمی کاکوئی امکان نہیں ۔ ہواالٹاتیز ہوتی جارہی ہے ۔چار اکتوبر تک نجانے ہوائے تندو تیز کی کیا حالت ہوگی جب عمران خان الیکشن کمیشن کے دروازے پر’’ دھرنا ‘‘دیںگے۔نئے نعرے گونجیں گے ۔نئے ترانے بجائے جائیں گے۔کسی نئے بٹ کا سائونڈ سسٹم ہوگا۔ڈھول اور ڈھولک کی تھاپ پرہونے والا رقص الیکشن کمیشن کی کھڑکیوں سے اچھی طرح نظر آئے گا۔ممکن ہے۔اسی دھرنے میں الیکشن کمیشن کے اپنے کچھ اہلکار بھی دم دمادم مست کرتے پھر رہے ہوں۔

ویسے تو ان بزرگانِ انتخابات کو مستعفی نہیں ہونا چاہئے کہ ابھی ان کا عرصہ ء ملازمت باقی ہے مگر اتنی الٹی سیدھی باتیں جمع ہوگئی ہیں۔اتنے الزامات ثابت ہو گئے ہیں کہ مسلسل کرسی کو پکڑے رکھنے کا کوئی جواز ہی نہیں رہا۔پتہ نہیںان ارکان کی تقرری آئین کے مطابق ہوئی تھی یا آئین تقرری کے مطابق بنا لیا گیا تھا ۔ بہر حال یہ طے تھا کہ الیکشن کمیشن کے ارکان کیلئے حکومت اور اپوزیشن دونوں کا متفق ہونا ضروری ہے ۔سو انہیں اتفاق رائے سے بنا یا گیا تھا مگر اس وقت جب اپوزیشن نے ان پر عدم اعتماد کا اظہار کر دیا ہے توان کے پاس موجود رہنے کا کوئی جواز نہیں۔اس وقت تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ قاف بلکہ تقریباً تقریباً تمام اپوزیشن کا یہی مطالبہ ہے کہ یہ صاحبانِ عزو جل اپنی نشستوں سے اٹھ کر گھروں کا رخ کریں ۔شاید انہیں سنائی ہی نہیں دے رہا۔ ویسے تو ہمارے ملک میں کسی کو بھی کسی کی بات سنائی نہیں دیتی۔میل بھری سماعت گاہوں کی صفائی بڑی ضروری ہے۔ میں تو حیران خط کے جواب پر ہوں بزرگوں نے فرمایا کہ ’’ہم آپ کو جواب دینے کے پابند ہی نہیں‘‘تم ہوتے کون ہو ہمیں ان کرسیوں سے اٹھانے والے ۔ابھی یہ کرسیاں ہمارے وجود کا حصہ ہیں۔ابھی وہ وقت نہیں آیا جب یہ خود بخود جسم سے جدا ہوجائیں گی۔ویسے اصولاً توانہیں اُسی دن چلے جانا چاہئے تھا جس دن چیف الیکشن کمشنرفخر الدین ابراہیم مستعفی ہوئے تھے۔چلو اُس دن نہ سہی مگر جب الیکشن کمیشن کے اُس وقت کے ایڈیشنل سیکرٹری نے منظم دھاندلی میں ممبران کو ملوث قرار دیاتھاتو رہنے کی کیا گنجائش رہ گئی تھی ۔

چلیں اس وقت بھی نہ سہی جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کے بعد تو اخلاقی طور پرسوچا بھی نہیں جاسکتا تھا کہ وہ کرسیوں کو بچوں کی طرح پکڑے رکھیںگے۔چلوممکن ہے اس وقت بھی انہیں اپنے ضمیر کو مطمئن کرنے کیلئے کوئی راستہ مل گیا ہو۔لیکن جب این اے ایک سو پچیس کا فیصلہ آیا تھاکہ انتظامی بے ضابطگیوں کی وجہ سے الیکشن دوبارہ کرائے جائیں۔ تو صاحبان انتظام کو اپنے عہدے چھوڑنے نہیں چاہئے تھے۔ چلو اُس فیصلے کو چھوڑ دیتے ہیں یہ جو ابھی تازہ تازہ ایک سو بائیس اور ایک سو چون کا فیصلہ آیا ہے۔ ان میں بھی سارا الزام الیکشن کرانے والوں پر عائد کیا گیا ہے اب تو اس بات کی گنجائش ہی نہیں کہ بزرگانِ انتخابات مستعفی نہ ہوں۔

mansoor afaq

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے