
برطانوی پارلیمنٹ میں ناموسِ رسالتﷺ کا بل
برطانوی پارلیمنٹ میں ناموسِ رسالتﷺ کا بل
یہ یورپ ہے ۔۔جھاگ اڑاتی شمپین کی بوتلوں کا یورپ ۔۔۔عریانی کے گیت گاتی ہوئی میگی کا یورپ ۔۔جس کے بغیر نیا عہد نامہ مکمل نہیں ہوتا۔۔تہذیبوں پر گفتگو کرتے ہوئے برٹینڈرسل کا یورپ۔۔جو خدا کے وجود سے خالی معاشرے کی تلاش میں ہے۔۔میں اس وقت دیارِ عیسویں کی اکیسویں اسٹریٹ پر کھڑا ہوں ۔اس مصروف ترین گلی میں آتے جاتے ہوئے لوگ مرغ ِ سر بریدہ دکھائی دے رہے ہیں ۔زیادہ تر لوگوں کے سروں نے جو ہیڈ پہن رکھے ہیں ان پر فاختہ کا نشان بنا ہوا ہے اور ٹائی کے پن کی صورت شاخ ِ زیتون کی طرح ہے ۔سوٹ پر امن کے پرفیوم کا بہت زیادہ ا سپرے کیا ہوا ہے مگر ان کے جسموں سے آتی ہوئی بارود کی بو پوئنزن کی تیزخوشبو میں دب نہیں رہی ۔میرے سامنے ورلڈ بنک کی عمارت ہے جس پرتیسری دنیا کے کچھ اورممالک کے پرچم لہرائے جا رہے ہیں۔خیال کی اڑن طشتری نے اگلے ثانیے میں مجھے پیرس کی مشہور سڑک شانزے لیزے پر پہنچا دیا جہاں سارتر کے ساتھ چلتے ہوئے اچانک مجھے پوپ یاد آگیا ۔جس نے کہا کہ مذہب کے نام پر قتل نا معقولیت ہے مگر مذاہب کے تمسخر اڑانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔پھریورپ کے رہنما دکھائی دئیے جو بازو میں بازو ڈال کر چل رہے تھے اور بیک زبان کہہ رہے تھے ہم چارلی ہیں۔مگر میں پیغمبرِ انسانیت ﷺکا امتی تھا۔ اپنا شمار قاتلوں میںبھی نہیں کر سکتا تھا۔میں دکھ میں ڈوب گیا۔آہ میرا پیرس ۔ میرا رنگ و خوشبو کا شہر ،شہر اشک و آہ بن گیا۔پیرس سے میری بہت پرانی دوستی ہے میں جب 1990میں پہلی بار پیرس آیا تھا توبابر زمان کے ساتھ پیرس کی سڑکوں اور گلیوں میں دیر تک آوارہ گردی نے مجھے یہ خبردی تھی کہ میانوالی کی طرح پیرس بھی اپنی رت بدلتا ہے۔بابر زمان پی ٹی وی کاایک ذہین پروڈیوسر تھے جنرل ضیاء کے دور میں جلاوطنی کی سزاملی لیکن فضامیں دھماکے سے پھٹ جانے والا جہاز اسے واپسی کے سفر پر آمادہ نہ کر سکا۔
میں اور بابر زمان جب سڑکوں پر نکلتے تھے کافی شاپوں میں بیٹھتے تھے تو ہمارے ساتھ روسو بھی ہوتا تھا ،پکاسوسے بھی گپ شپ ہوجاتی تھی ،لیونارڈو ڈاونچی بھی کہیں پرُہجوم سڑک پر لوگوں کی تصویریں بناتے ہوئے مل جاتا تھا۔ایک آدھ بار جنرل ڈیگال سے بھی علیک سلیک ہوئی تھی۔اوپرا سینٹر میں بھی کئی بڑے بڑے فنکاروں سے گپ شپ رہی ۔بابر زمان فرانسیسی تاریخ پر گہری نظر رکھتا تھاسوماضی کے مزاروں سے ایسے ایسے کردار نکل کر ہماری محفل میں آجاتے تھے میں کبھی کبھی پریشان ہو جاتا تھا۔وجود سے خیال تک پھیلی ہوئی یہ گپ شپ اب تو یادوں یادگاروں کے گرد آلود فریموں میں پڑی۔پھر سے بابر زمان اور میرے ملنے کا انتظار کر رہی ہے۔میں نے گفتگو کے انہی فریموں سے گرد جھاڑی اور آزادی ء اظہار کی حدود و قیود کے تعین کی تصویر پر غور کرنے لگا۔پیرس کے چہرے کی مسکراہٹ کیلئے اس تصویرکا مکمل ہونا اب ضروری ہوگیا ہے ۔
شانزے لیزے پر چلتی ہوئی خیال کی رو 10ڈائوننگ اسٹریٹ پر آنکلی ۔یہ لندن کا ایک خوشگوار اتوار تھا۔چاروں طرف لوگ ہی لوگ تھے ۔ میرے ہم رنگ لوگ ، میرے ہم وطن لوگ۔کوچیں مسلسل آرہی تھیں ۔لوگوں سے بھری ہوئی کوچیں ۔لوگ اترتے جارہے تھے اور کوچیں ایک طرف کھڑی ہوتی جارہی تھیںلوگوں کے ہاتھوں میں بینر بھی تھے مگر یہ احتجاجی بینر نہیں تھے۔ایک بینر پر لکھا تھا ’’ہم برطانوی میڈیا کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ اس نے گستاخانہ خاکوں کو اپنے اندر جگہ نہیں دی‘‘ ۔ایک اور بینر پر لکھا تھا ’’ہم برطانوی حکومت کے شکر گزار ہیںکہ اس نے گستاخانہ فلم بنانے والے امریکن کو برطانیہ میں داخل نہیں ہونے دیا ‘‘۔ ایک بینر پر یہ جملہ درج تھا ’’ہم برطانوی حکومت کو سراہتے ہیں کہ اس نے اس پادری پر برطانیہ کے دروازے بند کر دئیے جس نے قرآن حکیم کو جلانے کی ناپاک جسارت کی تھی‘‘۔اور بھی کئی عجیب و غریب بینر تھے ۔ لوگوں کا ہجوم بڑھتا جارہا تھا۔مجھے علامہ سید ظفراللہ شاہ نظر آئے میں نے لپک کر ان سے پوچھا کہ آپ لوگ یہاں کیوں جمع ہوئے ہیں تو انہوں نے بڑے فخر سے کہا کہ’’ ہم برطانوی پارلیمنٹ میں آزادی ء اظہار کی حدود و قیود کے تعین کا بل لانے والے ہیں‘‘ ۔میں نے حیرت سے پوچھا ’’وہ کیسے‘‘ تو کہنے لگے ’’برطانوی آئین کے مطابق اگر کسی پٹیشن پر ایک لاکھ لوگ دستخط کردیں تو وہ بل کی صورت میں برطانوی پارلیمنٹ میں پیش کردی جاتی ہے۔اور اس وقت ہم جو پٹیشن برطانوی وزیر اعظم کو پیش کر رہے ہیں اس پر تقریباً سوا لاکھ برطانوی شہریوں نے دستخط کئے ہیں ۔آج کا دن برطانوی تاریخ کا اہم ترین دن ہے۔برطانیہ میں ایک نئی تاریخ رقم ہونے والی ہے۔‘‘
یہ باتیں سن کر مجھے علامہ سید ظفراللہ شاہ کے ساتھ لندن کا وہ اتوار کچھ اور خوبصورت لگنے لگا ۔ممکن ہے پاکستان میں رہنے والے کچھ لوگ میرے ذوق پر افسوس کا اظہار کر رہے ہوںکہ سنٹرل لندن کے خوبصورت ترین علاقے میںمجھے علامہ سید ظفراللہ شاہ خوبصورت بلکہ خوبصورت ترین لگے۔ ابھی میں ان کے ساتھ اسی ماحول میں چند قدم اٹھائے ہی چلا تھا کہ بارود کی بو نے مجھے نتھنے سکیڑنے پر مجبور کردیا۔ قریب ایک الیکڑونک کی دکان میں چلتے ہوئے سو دوسو ٹیلی وژنوں پر یہ خبر چلنے لگی کہ داعش نے شام میںکچھ اور مسلمانوں کو زندہ جلا دیا ہے ۔اب اس بات کوکافی دیر ہو چکی ہے مگر نتھنوں سے بارود کی بو جا ہی نہیں رہی۔یہ وہی بو ہے جس نے پاکستانی قوم کا جیون اجیرن کر رکھا ہے۔ جس سے بچنے کیلئے پاکستانی صاحبان ِ اقتدار ہر صبح کروڑوں ڈالرکااسپرے اپنے کپڑوں پر کرتے ہیں ۔میں اس منظر سے باہر نکل آیا ۔سامنے دریا ئے ٹیمز کے ساحلوں پر قطار در قطار لگی ہوئی سنگ مرمر کی اینٹیں سورج کی شعاعوں سے اپنے بدن گرمارہی تھیں نائٹ کلبوں میں شرم و حیا سے مبرا تہذیب اپنے بازو فضا میںلہرا لہراکر کہہ رہی تھی۔بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست۔ عریانی وفحاشی کو دیکھ کر زمین نے گھاس میں منہ چھپا رکھا تھا۔مگر علم اور عمل کی سچائی نے انہیں آسمان کے قریب تر کردیا ہے۔

