برطانوی شہریت چھوڑدیں . mansoor afaq
دیوار پہ دستک

برطانوی شہریت چھوڑدیں

برطانوی شہریت چھوڑدیں

گورنر پنجاب چوہدری سرور کے برطانوی شہریت چھوڑنے کے عمل نے برطانوی پاکستانیوں کی سوچ میں کچھ نئے دروا کر دئیے ہیں۔ برطانوی پاکستانی جو کچھ عرصہ سے اس سلگتے ہوئے سوال میں الجھے ہوئے ہیں کہ کل جب ہماری نسلیں ایک وطن میں رہنے لگ جائیں گی یعنی پاکستانی شہریت چھوڑ دیں گی ان کے خوابوں میں صرف برطانیہ دکھائی رہ جائے گا۔۔ اس وقت خدانہ کرے ایسی صورت حال آجائے( جس کے قوی امکان ہیں ) جیسی صورت حال اس وقت زمبابوے میں ہے کہ وہاں کے رہنے والے سفیدفاموں (جو تقریباً اٹھارہویں پشت سے وہاں رہ رہے ہیں )کو یہ کہا گیا کہ تم اپنے وطن میں واپس جاؤ تو انہوں نے کہا” کونسا وطن“۔۔۔

میں نے سجاد اظہر کی کتاب ”دو وطن “ جب پہلی بار دیکھی تھی تو یہ شعر سرزد ہو گیا تھا محبت کے سفر میں چھوڑ دے تقسیم خوابوں کی کسی بھی اک بدن کے دووطن اچھے نہیں ہوتے اک بدن کے دو وطن ہجرت سے جنم لیتے ہیں۔ انسانی تاریخ میں بے شمار قوموں نے ہجرت کی۔لیکن یہ بات طے شدہ ہے کہ ہر مہاجرکے خواب عمر بھر اپنی آبائی سرزمین میں ہی بھٹکتے رہے۔ہجرتِ رسول اقدس و اعظم سے بھی یہی ”دو وطن طلوع ہورہے ہیں انہوں نے جہاں مدینہ منورہ کو اپنے وطن کے اعزاز سے سرفراز فرمایا وہاں مکہ معظمہ سے ان کی محبت بھی ایک ناقابل ِتردید حقیقت ہے۔ ہمارے وہ بزرگ جو انڈیا سے ہجرت کر کے پاکستان آئے تھے۔ عمر بھران کی آنکھوں میں ماضی کے عظیم الشان مزاروں کے چراغ جلتے رہے اور وہ اپنے ناموں کے ساتھ انبالوی، امرتسری ، لکھنئوی، حیدرآبادی وغیرہ کے سابقے اور لاحقے لگاتے رہے مگران ہجرتوں کے کچھ اسباب تھے۔ برطانوی پاکستانیوں کے پاس تو ہجرت کا بھی جواز نہیں ۔ بقول انجم خیالی

زباں پہ قید نہیں ، بندشِ نماز نہیں
ہمارے پاس تو ہجرت کا بھی جوازنہیں

انسانی ہجرت کی تاریخ پر دستِ تحقیق رکھا جائے تو سب سے قدیم حوالہ دوسو ہزار سال پرانا ہے ۔ انسانوں کی آمد کا پہلاسراغ مشرقی افریقہ کے گریٹ لیکس کے علاقے سے ملتا ہے جنہوں نے دریائے نیل کے ساتھ ساتھ سفر کیا اور پھر شمال جنوب اور مشرق مغرب میں پھیل گئے اورپہلی انسانی تہذیب کی بنیاد پڑی۔ یونانیوں نے دنیا کی اس پہلی تہذیب کو” ایتھیوپین“ کا نام دیایہ یونانی لفظ ہے یونانی زبان میں جلے ہوئے کو” ایتھاس“ کہتے ہیں اور چہرے کیلئے ”اوپا“ کا لفظ استعمال ہوتا ہے جن کے آپس میں ملنے سے ایتھوپین بن جاتا ہے یعنی جلے ہوئے چہروں والے۔ یونانی شاعرہومرکی ایپک کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اس زمانے میں یونانی سوڈان ، مصر ، عرب ، فلسطین ، مغربی ایشیا اور انڈیا کے لوگوں کو ایتھوپین ہی کہتے تھے۔۔بہر حال یہ لوگ افریقہ سے نکلے اور دنیا کے ایک بڑے حصے میں پھیل گئے آج کسی کو یہ بھی خبر نہیں کہ ان کا اورجن کیا تھا
اس طرح آریاء جن کا اصل تعلق” اورل“کے پہاڑی علاقے سے تھاجسے اب کرغیزستان کہا جاتا ہے ۔وہ کوہ ہندو کش اور درہ خیر سے ہوتے ہوئے ہندوستان میں داخل ہوئے ۔اور اس طرح اپنے ماضی سے منقطع ہوئے کہ صدیوں سے برصغیر کے لوگوں اور کرغیزستان کے لوگوں کا آپس میں کوئی واسطہ نہیں۔یہ لوگ 2000سے 1500سال قبل مسیح میں ہندوستان آئے ستارہ پرست تھے اس وقت تک ان کی جو چیز ہمیں برصغیر میں کہیں کہیں ملتی ہے وہ تحریم ِ شمال ہے خاص طور پر صوبہ سر حد اورپنجاب کے لوگ شمال کا احترام کرتے ہیں۔پوچھنے پر کوئی کہتا ہے ادھر شاہ عبدالقادر جیلانی کا مزار ہے۔ کوئی کچھ کہتا ہے لیکن حقیقت میں ایسا کچھ نہیں۔۔۔ اس طرف صرف سائیبریا اور روس ہیں ،دراصل ہم لوگوں کی سرشت میں موجود شمال کا یہی احترام انہی ستارہ پرست قوموں کی نشانی ہے وہ قطبی ستارے کی پوجاکرتے تھے۔ایک اور قوم جنہیں گوڈا سرسوت برہمن کہا جاتا ہے یہ پنجاب میں دریائے سرسوتی کے کناروں پر آباد تھے یہ دریا اب ختم ہو چکا ہے ۔ یہ لوگ اپنے ماضی مکمل طور پر بھول چکے ہیں ۔کچھ ماہرین آثارقدیمہ کا خیال ہے کہ یہ لوگ فلسطین سے چلے اور مختلف علاقوں سے ہوتے ہوئے یہاں آباد ہوئے ۔ یہ لوگ اپنے ساتھ دین ِ ابراہیمی لے کر آئے تھے ۔

برہمن کا لفظ ”براہیم “سے نکلا ہوا ہے ۔انڈیا میں آج بھی جو کنبھ کا میلہ لگتا ہے وہاں لوگ ”پری کرما“ کرتے ہیں ۔ اس پری کرما میں ہم مسلمانوں کے حج کی طرح سفید احرام باندھے جاتے ہیں ۔ پاؤں میں کھڑاویں پہنی جاتی ہیں۔ایک مقدس مندر کے ارد گرد سات طواف کئے جاتے ہیں ۔پھر صفا و مروا کی طرح لوگ ایک میدان میں دوڑتے ہیں۔ گنگا کے پاس جا کر مقدس پانی پیتے ہیں ۔جیسے آب ِ زمزم پیا جاتا ہے ۔۔۔۔کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہجرتیں نئی تہذیبوں کو جنم بھی دیتی ہے اورقوموں کے ماضی کو فنا بھی کردیتی ہے ۔ برطانوی پاکستانیوں کی ہجرت کا مستقبل ماضی کی تباہی کے سوا کچھ اور دکھائی نہیں دیتا۔سو میری گورنر پنجاب چوہدری سرور سے گزارش ہے کہ وہ برطانوی پاکستانیوں میں برطانوی شہریت چھوڑ دینے کی مہم چلائیں ۔اس سے ایک تو ان پر لگا ہوا یہ داغ بھی دھل جائے گا کہ انہوں نے گورنر شپ کیلئے برطانوی شہریت چھوڑی ہے ۔دوسرابرطانوی پاکستانی ، پاکستان کے معاملات میں اہم کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں بھی آجائیں گے۔ ان کی نسلیں بھی برطانیہ میں محفوظ ہوجائیں گی۔انہیں اس بات کا احساس رہے گا کہ وہ پاکستانی ہیں ۔(ایک وضاحت یہاں ضروری ہے کہ برطانوی شہریت چھوڑنے سے برطانوی پاکستانیوں کے برطانیہ میں رہنے یا برطانیہ میں حاصل شدہ حقوق پر کوئی فرق نہیں پڑتا ۔بس شہریت چھوڑنے کے بعد صرف اتنا ضروری ہوجائے گا کہ اگر دوسال سے زائد عرصہ یہ لوگ برطانیہ سے باہر گزاریں گے تو انہیں پھر برطانیہ میں داخلے کے لیے ویزے کی ضرورت پڑے گی ۔

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے