
اچھا مستقبل قربانی مانگتا ہے
اچھا مستقبل قربانی مانگتا ہے
دانشوروں کی کئی اقسام ہوتی ہیں کچھ گاؤ زبانی دانشور ہوتے ہیں ان کاتعلق خمیرہ گاؤزبان سے کم اور زبان دانی سے زیادہ ہوتا ہے یعنی گفتگو کے بڑے لذیذ ہوتے ہیں ۔زبان کی ایک ایک حرکت جانتے ہوتے ہیں یعنی مخارج الحروف کے علم پر پوری دسترس رکھتے ہیں ۔لفظوں کے پیج و خم سے نئے نئے مفاہیم نکالنے کا فن انہیں آتا ہے ۔منطق کے اسرار و رموز سے بخوبی واقف ہوتے ہیں۔پنجابی روزمرہ کے مطابق ان کی زبان قینچی کی طرح چلتی ہے ۔بیمار کوصحت مند اورصحت مند کوبیمار ثابت کرنا ان کے دائیں ہاتھ کا کھیل ہوتا ہے ۔کچھ زعفرانی دانشور ہوتے ہیں ان کاتعلق بھی جوارش ِجالینوس (زعفرانی )سے کم اورکشتِ زعفران سے زیادہ ہوتا ہے ۔یہ یاد رکھئے گا کہ یہاں کشت ِ زعفران کا مطلب زعفران کی فصل نہیں بلکہ قہقہوں کا کھیت ہے یعنی یہ دانشورہنسنے اور ہنسانے کے ماہرہوتے ہیں۔محفل کو اپنی مزاحیہ گفتگو سے زعفران زار بنائے رکھتے ہیں۔لطیفہ گوئی میں طاق ہوتے ہیں۔ جملہ بازی میں جواب نہیں رکھتے ۔ سنجیدہ سے سنجیدہ محفل میں بھی ایسی پھلجھڑی چھوڑتے ہیں کہ ہر طرف شگوفے ہی شگوفے کھلنے لگتے ہیں۔بات بدلنے میں یدِ طولیٰ رکھتے ہیں ۔
دانشوروں کی ایک قسم فلاسفہ کی ہے ۔ان کا تعلق ”معجون ِفلاسفہ“زیادہ مضمونِ فلاسفہ سے ہوتا ہے۔یہ چیزوں کی ماہیت پر غور کرتے ہیں اور ان کے نئے نئے مفاہیم بتاتے ہیں مثال کے طور پر لوڈ شینڈنگ کو دیکھنے کا ان کا ایک اپنا انداز ہے ۔یہ لوگ لوگوں کو بتاتے ہیں کہ انہوں نے اپنے دادا جان کا قدیم کپڑے کا بنا ہوا پنکھا پرانے سامان سے نکالا ہے پھر اسی طرح اسے چھت کے ساتھ لٹکا دیا ہے اس کے اوپر ریشم سے جو کام ہوا ہواہے۔وہ اتنا خوبصورت ہے کہ جب رسی کے ساتھ اس پنکھے کو کھینچا جاتا ہے۔تو روشنی ریشم کے ساتھ مل کر نئے نئے رنگوں کی قوسِ قزحیں پیدا کرنے لگتی ہے۔روشنی کیلئے پرانا لیمپ نکلوایا ہے یہ میرے پردادا کو ایک انگریز کرنل نے تحفے میں دیا تھا۔ اسے میں نے بہت اچھی طرح صاف کیا ۔براس کا بنا ہوا یہ لیمپ اس طرح چمک اٹھا جیسے ابھی ابھی فیکٹری سے نکل کر آیا ہو۔پرانے زمانے کی چیزیں بھی کیا چیزیں ہوتی تھیں ۔ میں نے اس لیمپ سے شیشے کی چمنی نکال کر جب صاف کی تو وہ ایسے لشکارے مارہی تھی جیسے کرسٹل کی بنی ہو ۔میں تو شام کے وقت کے انتظار میں ہوتا ہوں کہ کس وقت لائٹ جائے گی اور کس وقت میں اس لیمپ کو جلاؤں گا۔یقین کیجئے مجھے اپنے دادا کا وہ الف لیلوی زمانہ یاد آجاتا ہے اور میں اس خوبصورتی اور رعنائی میں کھو جاتا ہوں۔کچھ مرواریدی دانشور بھی ہوتے ہیں۔ان کا تعلق بھی خمیرہ مروارید سے زیادہ چمک دمک کے ساتھ ہوتا ہے۔یہ بظاہر موتیوں کی چمک دمک رکھتے ہیں مگر حقیقت میں شیشہ بھی نہیں بلکہ پلاسٹک سے تیارشدہ ہوتے ہیں یعنی غالب کی زبان میں کہا جاسکتا ہے
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا
کچھ تبخیری دانشور ہوتے ہیں ان کا تعلق بھی تبخیرِمعدہ سے زیادہ تبخیرہِ دماغ کے ساتھ ہوتا ہے۔انہیں مشورہ دینے کی عادت ہوتی ہے۔ایسے دانشور ہر گلی میں دوچار ضرور ہوتے ہیں۔جوعلم ِطبعیات سے علم ِ سیاسیات تک ہر چیز کے ماہر ہوتے ہیں۔کسی کا کوئی مسئلہ ہو ان کے پاس فوراً مشورہ تیار ہوتا ہے۔مارکیٹ میں کسی طرح کے دانشوروں کی بھی کوئی کمی نہیں ۔کہنے کا مطلب یہ کہ دانشوروں کی بے شمار اقسام ہیں۔تقریباً پاکستان میں ہر شخص دانشور ہے کیونکہ اس قوم کو علم ہوچکا ہے دانشور ہونے کیلئے دانش کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں پڑتی چند ایک موٹی موٹی کتابوں کے نام ، کچھ جملے اور دوچار بڑے فلاسفر کی کوٹیشنز یا بات گھما پھرا کر بیان کرنے کی صلاحیت کسی بھی شخص کو دانشور ثابت کرنے کیلئے کافی ہے ۔دانشوروں کے متعلق ایک کہاوت بھی مجھے یاد آ رہی ہے ڈاکٹر طاہر تونسوی اکثر سنایا کرتے تھے کہ ”ناں میں آکھاے ناں تیں آکھاے تینوں دانشور وت کیں آکھاے ۔اُس اپنڑی آپ وجائی اے جیں آکھاے“۔
(نہ میں نے کہا ہے نہ تم نے کہا ہے تمہیں دانشور پھر کس نے کہا ہے۔اس نے اپنی ڈھولک آپ بجائی ہے جس نے کہا ہے)
دانشوری کے متعلق کسی کی ایک آزاد نظم بھی مجھے تھوڑی سی یاد ہے
پچھلے بیس برس کے دانشور
اپنی اپنی سوچ کے نکتے پر
پوچھ رہے ہیں رک رک کر
ناخن پہ کیسے ہاتھی اور مہاوت چلتے ہوں گے
کیسے سرکنڈوں کی کچی چھت پر اونٹوں کارقص ابھی تک جاری ہے
یقینا آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ اگرہم من حیث القوم دانشور بن چکے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ ہم ملک کی بہتری کیلئے کچھ نہیں کر پا رہے ۔اس کے جواب میں ایک واقعہ درج کرتا ہوں، ممکن ہے بات سمجھ میں آجائے ۔کہیں چوہوں کا ایک اجلاس ہورہا تھا ۔ جس میں ایک چوہا اپنا ہاتھ لہرا لہرا کر کہہ رہا تھا ۔دوستو! میرے قبیلے کے جوانو!بلی کے گلے میں گھنٹی باندھنے والی ترکیب پرانی ہو گئی ہے۔میں بتاتا ہوں آپ کو بلی سے نجات کا راستہ، ہمیشہ کیلئے نجات کا راستہ۔آپ سب جانتے ہیں مالک ِ مکان نے ہمارے لئے تمام مکان میں زہریلی گولیاں بکھیر رکھی ہیں ۔ایک فدائے ملت چوہا وہ ساری گولیاں کھالے اور بلی کے سامنے سے گزرے،بلی اُسے ہڑپ کر لے گی یوں زہر اُس کے اندر پہنچ جائے گا اور اس سے ہمیشہ کیلئے نجات مل جائے گی۔ تجویز سن کر تمام چوہے عش عش کر اٹھے ۔گھنٹی کی ترکیب بتانے والے بوڑھے چوہے نے اُٹھ کر کہا ”بسم اللہ تو یہ عظیم کارنامہ آپ ہی سر انجام دیجئے “جس پرتقریر کرنے والے چوہے نے ادھر ادھر دیکھا اور کہنے لگا اگر میرے جیسے دانشور بھی مرنے لگ گئے تو پھر تمہیں ایسے عظیم مشورے کون دے گا۔ سو ابھی تو صورتحال یہی ہے کہ پاکستانی قوم کا ایک بڑا اور پڑھا لکھا حصہ مشورے دینے کے سوا اور کچھ نہیں کرسکتااور اچھا مستقبل قربانی مانگتا ہے۔
mansoor afaq

