آئو صلح کرلیں . منصور آفاق
دیوار پہ دستک

آئو صلح کرلیں

آئو صلح کرلیں

کشمیر کے لئے ہونے والی ایک جنگ جو پچھلے ساٹھ برس سے مسلسل زمینی اور ذہنی محاذوں پر لڑی جارہی ہے ۔جس میں فتح کے جشن بھی ہیں اور شکست کے آنسو بھی۔ ’’چھمب جوڑیوں‘‘ کی فتح بھی ہے اور’’ رن کچھ ‘‘کا معرکہ بھی ۔چھ ستمبر کی صبح بھی ہے سترہ دسمبر کی شام بھی ۔ سقوط ِ ڈھاکہ کی دردبھری رات بھی ہے اورکارگل کے شہیدوں کاپُرسعادت لہو بھی ۔ بیانوے ہزارفوجیوں کے ماتھوں پر قیدیوں کے لکھے ہوئے نمبر بھی ہیں اور شملہ کی میزوں پر تحریر ہونے والا عہدنامہ بھی۔ غربت کے اندھے کنویں میں گرتی ہوئی دونوں طرف کے عوام بھی ہیں اور ایٹم بم گرانے والے بمبار طیارےبھی۔اگرچہ یہ بھی سچ ہے کہ اُس طرف بھی کروڑوں مسلمان رہتے ہیں مگر پھر بھی ہم ایٹم بم بنانے پر مجبور ہیں۔اس بات سے بھی انکار نہیں کہ جو زبان ہم بولتے ہیں تم بھی تقریباً وہی زبان بولتےہو۔ یہ بھی سچ ہے کہ ہم دونوں کی رنگت ایک جیسی ہے ۔یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارا رہن سہن ،بودو باش ،کھانا پینا، موسیقی، طرزِ تعمیر وغیرہ وغیرہ ایک جیسے ہیں۔ہم اس بات سے بھی منکر نہیں کہ انگریزوں سے آزادی کیلئے ہم دونوں نے مل کر دوسو سال تک آزادی کی جنگ لڑی ہے۔اس سچائی سے بھی ہم دونوں منحرف نہیں کہ ہم ایک ہزار سال تک ایک گھر میں دو بھائیوں کی طرح رہتے رہے ہیں ۔بس اتنا فرق تھا کہ اُس دور میں عنان حکومت ہمارے ہاتھ میں تھی۔تم بھی پندرہ اگست کے دن یہی کہتے ہو کہ وقت جب کرب کے دوزخ میں کئی صدیوں تڑپ تڑپ اٹھا تھا تو تب جا کر کہیں یہ ساعتِ پُرنور و ضیا بخش نمودار ہوئی تھی جو ایک نئے عہد کی تمہید بنی ہے۔ ہم بھی چودہ اگست کو یہی کہتے ہیں۔ تم بھی اپنے بھارت کی تاریخ ویدوں سے شروع کرتے ہو ہم بھی اپنے پاکستان کی تاریخ موہنجو داڑو اور ہڑپہ سے شروع کرتے ہیں ۔ ہم بھی انہی دریائوں کا پانی پیتے ہیں جو تیرے دیس سے آتے ہیں ۔ وہی مچھلیاں پکڑتے ہیں جو تمہارے مچھیروں کی گرفت میں نہیں آتیں ۔ انہی پرندوں کی پروازوں کے منظر دیکھتے ہیں جو تمہارے ہمارے پانیوں کے ساتھ ساتھ سفر کرتے ہیں۔لیکن پچھم سے آنے والی ہوائیں ہم تمہیں بھیجتے ہیں۔ برسنے والے بادل ہماری طرف سے تمہاری طرف جاتے ہیں۔ تمہیں اس ابر و باد کی قسم! ذراغور کرو۔ اپنے گریبان کے بٹن کھول کراندر جھانکو۔ کہو کہ ہمارے بیچ یہ خون کی لکیرکس نے کھینچی ہے۔تمہاری بے انصافی نے ۔ برصغیر کی تقسیم میں تمہارے غیر منصفانہ کردار نے ۔ہم نے جونا گڑھ بھی تمہیں دے دیا تھا۔حیدر آباد دکن کو بھی بھول گئے تھے۔ صرف ایک کشمیر مانگا تھا کیونکہ وہاں کے لوگ پاکستان کے ساتھ جانے پر بضد تھے۔تم نے ان لوگوں پر ظلم کی انتہا کردی ۔انسانیت کی جتنی تذلیل تم سے ہوسکتی تھی تم نے وہاں کی اور مسلسل کئے جارہے ہو۔ کیاقائد اعظم محمدعلی جناح اور مہاتما گاندھی نے پاکستان اور بھارت اس لئے بنائے تھے کہ ہم اپنی زمینوں کو ایک دوسرے کے لہو سے ناپاک کرتے رہیں انہوں نے تو یہ نیک کام اس لئے سرانجام دیا تھا کہ ہم دونوں اپنے اپنے گھروں میں اپنی اپنی خواہشات کے مطابق جی سکیں اپنے اپنے مستقبل کو تابناک کرسکیں مگر افسوس کہ دونوں تباہی کے ہولناک غاروں میں گرتے چلے گئے ۔کچھ لوگ اس کاذمہ دار انہی انگریزوں کو سمجھتے ہیں جن سے ہم نے آزادی حاصل کی تھی ۔ان کا خیال ہے کہ وہ سفیدفام قوتیں صرف اپنے اسلحہ کی منڈیاں برقرار رکھنے کےلئے ہزاروں انسانی جانوں کا خون کرا چکی ہیں اور مسلسل اسی کام پر تلی ہوئی ہیں مگر میں اس تجزیے سے اتفاق نہیں کرتا ۔میرے نزدیک اپنی اور ہماری تباہی کے ذمہ دار تم ہو۔ سچ یہی ہے کہ تم نے دل سے پاکستان تسلیم ہی نہیں کیا۔ اپنے اکھنڈ بھارت کے خواب سے باہرہی نہیں نکل سکے۔ابھی بھی کچھ نہیں گیا۔ابھی ہم دونوں کے ایٹم بم اپنے اپنے مورچوں میں ایستادہ ہیں۔ آئو صلح کرلیں۔ صلح کیلئے اپنی صرف اتنی شرط ہے کہ کشمیریوں کو حق خودارادیت دو۔ اس کے بدلے تمہیں کیاملے گا ۔شاید کبھی تم نے اس بات پر غور نہیں کیا۔ غربت کی لکیر سے نیچے رہنے والے تمہارے کروڑوں لوگوں کو ایک خوبصورت زندگی مل جائے گی ۔ فٹ پاتھوں پر سونے والوں کوچھتیں مل جائیں گی۔تمہارے ملک میں رات کو کوئی بھوکا نہیں سوئے گا۔ کسی کا جسم مفلسی کی وجہ سے برہنہ نہیں ہوگا۔ غربت کسی بچے سے مزدوری نہیں کراسکے گی ۔ تعلیم ، صحت اور انصاف ہر گھر کی دہلیز پر پہنچ جائے گا۔تم دنیا کی بڑی معاشی طاقت بن جائو گے۔صرف کشمیریوں کو ان کا حق دینے سے۔

تمہاری طویل مغربی سرحد ہمیشہ کیلئے محفوظ ہوجائے گی۔اسلحے پر لگائے جانے والے کھربوں ڈالر سے تم ایک نیا بھارت تعمیر کرلو گے۔پاکستان تمہاری مصنوعات کیلئے ایک بہت بڑی منڈی ثابت ہوگا۔تمہیں افغانستان اور ایران کے راستوں سے دنیا تک پہنچنے کی سہولت میسر آجائے گی۔یقینا یہ تمام فائدے ہمارے حصے میں بھی آئیں گے مگر تم زیادہ منافع میں رہوگے۔کیونکہ تم اسلحہ پر ہم سے کئی گنا زیادہ خرچ کرتے ہو۔ تم نے ہم سے کہیں زیادہ بڑی فوج بنا رکھی ہے۔ہمارے پاس تو حفاظت کیلئے ایک ایٹم بم ہے اورہم اسے قطعاً استعمال نہیں کرنا چاہتے مگراس کا انحصار تم پر ہے ۔

ہم تو برسوں سے امن کی آشا کے گیت لکھ رہے ہیں۔پنجروں سے نکال نکال کر فاختائیں اڑا رہے ہیں۔ ہمارے ہر گلدان میں ہمیشہ زیتون کی ٹہنی لہراتی رہی ہے۔ ہم نے سدا آشتی کے نعرے لگائے ہیں۔کبھی مطلق مایوسی نہیں ہوئے ۔مگر ہمیں ہمیشہ یہی محسوس ہوا ہے کہ تمہاراباطن مردہ خانے کی طرح ہے جہاں خوبصورتی اور خیر کی لاشیں پڑی ہوئی ہیں مگر روح کے ویرانوں میں جتنا بھی اندھیرا ہو جائے کوئی نہ کوئی چاند کوئی نہ کوئی ستارہ کہیں نہ کہیں ضرور موجود ہوتا ہے۔

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے