
امن کی آشا
امن کی آشا
بے شک ہر دھڑکتا ہوادل امن کی آشا سے لبریز ہوتا ہے۔ سارے خوش داغ، فاختہ کے پھڑپھڑاتے ہوئے پروں میں زندگی کی بقا دیکھتے ہیں ۔بہتے ہوا خون کسی نارمل آدمی کو اچھا نہیں لگ سکتا۔کسی کو مرتے ہوئے دیکھنا دنیا کا سب سے تکلیف دہ عمل ہے ۔مگر ہم برصغیر کے لوگ جنگ کے خواب دیکھتے ہیں ۔ایٹم بم چلانے کی باتیں اس طرح کرتے ہیں جیسے شبِ برأت میں آ تش بازی کی گفتگو ہو۔میں نے بہت غور کیا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کا اصل سبب کیا ہے ۔کیا صرف کشمیر ، تو مجھے احساس ہوا، نہیں ،اصل وجہ ہوسِ اقتدار ہے۔بھارتی سیاست دانوں کی پاکستان دشمنی ان کی عوامی مقبولیت میں اضافہ کا سبب بنتی ہے۔ کچھ یہی صورت حال پاکستان میں بھی رہی ہے ۔اگرچہ موجودہ لیڈر شپ ایسی نہیں ہے مگر ماضی کی طرف دیکھا جائے تو یہی ہوسِ اقتدار تھی جس کے سبب ملک دو حصوں میں تقسیم ہواتھا۔اصل قصہ یہ ہے کہ پاکستان کے جسم کا وہ حصہ جس میں ستاون فیصد آبادی تھی،جسے ہم مشرقی پاکستان کہتے تھے ان کی عددی اکثریت سے ہم نے روزِ اول سے خوف کھانا شروع کر دیا تھا۔پہلے ہم نے اپنے چاروں صوبوں کوتوڑ کر ون یونٹ اس لئے بنایاتھاکہ صوبہ مغربی پاکستان بمقابلہ مشرقی پاکستان کھڑا کردیں۔مگر جب ہم نے دیکھا کہ اب بھی جمہوریت کے مسلمہ اصول کے مطابق بالغ رائے دہی پر الیکشن ہوتے ہیں تو مشرقی پاکستانیوں کی تعداد زیادہ ہے توہم نے جمہوریت کا منہ چڑانے کیلئے یہ فارمولا ایجاد کیا کہ دونوں صوبوں سے برابر کی تعداد میں نمائندے منتخب ہونگے۔یوں ستاون فیصد اور تینتالیس فیصد کا حیرت انگیز اصول نکالا گیا۔ مغربی پاکستان کا ایک ووٹ مشرقی پاکستان کے تقریباً ڈیڑھ ووٹ کے برابر شمار کیا جانے لگا ،ان غربیوں نے یہ بات بھی قبول کرلی۔پھر ہم نے مارشل لا لگادیا۔ اور جب مارشل لا کے بعد ملک کے پہلے جنرل انتخابات ہوئے اور مشرقی پاکستان کو واضح اکثریت حاصل ہوگئی تو ہم نے وہاں فوج بھیج دی۔بے انتہا قتل و غارت کے بعد بالآخر وہ حصہ ہم سے علیحد ہ ہوگیا۔
سچ یہی ہے کہ ہمارے صاحبانِ اقتدار کی ہوسِ اقتدارنے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بننے پر مجبور کر دیا تھامگر ہم آج بھی یہی سمجھتے ہیں کہ پاکستان کو دوحصوں میں انڈیا نے تقسیم کیا۔ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ بنگلہ دیش بھارت نے نہیں بنگالیوں نے بنایا ہے اور ہماری لیڈر شپ کے ناقابل ِ برداشت رویوں کی وجہ سے بنایا ہے ۔بے شک بھارت کے دوستی پاکستان کی خارجہ پالیسی کا بہت مشکل ترین معاملہ ہے کیونکہ دوستی دونوں طرف سے ہوا کرتی ہے سو دوستی کیلئے بھارت کو مسئلہ کشمیر حل کی طرف آنا ہوگا۔اسی میں دونوں ممالک کی بقا ہے۔کیونکہ یہ دشمنی دونوں ملکوں کے عوام کیلئے بہت خوفناک ہے ۔دونوں طرف لوگ بھوکوں مر رہے ہیں۔دونوں اپنے وسائل ہولناک سے ہولناک تر اسلحہ تیار کرنے پر پھونک رہے ہیں۔ہم عجیب پڑوسی ہیں۔ دونوں کی انگلیاں ٹریگر پر ہیں۔بے خوابی نے ہمارے اعصاب توڑ دئیے ہیں۔کسی کو ممکن ہے اونگھ آجائے اور انگلی ٹریگر دبا بیٹھے۔تو پھر کیا ہو گا۔کچھ بھی نہیں بچے گا کیونکہ دونوں ممالک عوام کے منہ سے نوالے چھین چھین کر ایٹمی قوت بن چکے ہیں
مگر یہ بات کسی کے کان میں بھی نہیں پڑتی۔دونوں ممالک کے لوگوں کی سماعت میں شاید سیسہ بھر دیا ہے ۔ ہم دونوں قومیں بحیثیت قوم بہری ہوچکی ہیں۔ کانوں میں اتنی میل بھر گئی ہے کہ نکل ہی نہیں سکتی۔
کانوں کی میل سے ایک واقعہ یاد آرہا ہے ۔مجھے داتا دربار پر ایک شخص ملااورکہنے لگا ” مجھ سے کان صاف کرا لیجئے ۔میں بڑے اچھے طریقے سے کان صاف کرتا ہوں “۔ میں نے غور سے دیکھا تو اس کا چہرہ مجھے جانا پہچانا لگا۔ اگلے ہی لمحے یاد آگیا کہ اس شخص کو تو میں نے کئی مرتبہ پاک ٹی ہاؤس میں پڑھی لکھی گفتگو کرتے ہوئے دیکھاہے۔ میں نے اسے کہاکہ” تم یہ لوگوں کے کان کیوں صاف کرتے پھر رہے ہو۔اچھے بھلے پڑھے لکھے آدمی ہو۔ تمہیں کہیں بھی نوکری مل سکتی ہے“۔ کہنے لگا ”میں پیسوں کے لئے تو لوگوں کے کان تھوڑا صاف کرتا ہوں۔ دراصل اس قوم کے کانوں میں میل جم گئی ہے۔ کسی کو کسی کی بات سنائی ہی نہیں دیتی ۔ اب دیکھو انیس سو اڑتالیس میں جو مکان مجھے الاٹ ہوا تھااس کا قبضہ آج تک نہیں مل سکا۔میں کونسی کورٹ میں نہیں گیا ۔کونسی عدالت کا دروازہ میں نے نہیں کھٹکھٹایا مگر کوئی سنتا ہی نہیں ہے۔میں نے اس پر جب خاصا غور کیا تویہ بات میری سمجھ میں آئی کہ اس قوم کے کانوں میں میل بھر گئی ہے ۔ اسے نکالنا بہت ضروری ہے“۔ بات میری سمجھ میں بھی آگئی تھی کہ انصاف کی تلاش میں بیچارہ دماغ سے بھی ہاتھ دھو بیٹھا ہے۔
سو سچ یہی ہے کہ دوملکوں میں رہنے والوں کے کانوں میں میل جم گئی ہے ۔کسی کو کچھ بھی سنائی نہیں دیتا ۔دونوں قوموں کی سماعت ایک جیسی ہے دونوں طرف کے لوگ لڑنے مرنے پر تلے ہوئے ہیں۔دونوں کا خیال ہے کہ دوسرے کو زندہ رہنے کا حق ہی نہیں ۔
اور بیچاری سماعت بھی کیا کرے ۔یہ میڈیا کادور ہے ۔اورلوگوں کی سماعت تک صرف وہی آواز پہنچتی ہے جو میڈیا پہنچانا چاہتا ہے۔اور ذرا سے حالات خراب ہوں تو میڈیا جنگی ترانے بجانا شروع کر دیتا ہے ۔اس وقت میڈیا خاص طور پر بھارتی میڈیا مسلسل پاکستان کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا کرنے میں مصروف ہے ۔بے شک اس مرتبہ پاکستانی میڈیا نے کسی حد تک تحمل اور برداشت سے کیا کام لیا ہے مگر اتنا بھی نہیں ۔ میرے نزدیک بھارت اور پاکستان کے درمیان خوشگوار حالات صرف میڈیا ہی پیدا کرسکتا ہے۔کچھ عرصہ پہلے روزنامہ جنگ نے” امن کی آشا“ کے نام بھارتی میڈیا کے ساتھ مل کر ایک خوش آئند سلسلہ شروع کیا تھا جس کی وجہ سے روزنامہ اور جیو کے خلاف ایک طوفانِ بدتمیزی برپا کیا گیا۔چونکہ وہ بے بنیاد تھا اس لئے جلدی دم توڑ گیامگراس وقت ضرورت اسی امر کی ہے کہ اسی ”امن کی آشا“ کے سلسلے کو آگے بڑھایا جائے اور سب سے پہلے دونوں ممالک کے میڈیا کو مل کر ایک میڈیا کانفرنس کرنی چاہئے اور اس میں یہ طے کرنا چاہئے کہ بھارت اور پاکستان کے تعلقات کی بہتری میں دونوں ممالک کا میڈیا کیا کردار ادا کر سکتا ہے اوردونوں ممالک کی حکومتوں کو میڈیا کے درمیان مذاکرات کے عمل میں پوری پوری معاونت کرنی چاہئے۔
mansoor afaq

