
امجدخان سے مڈٹرم الیکشن تک
امجدخان سے مڈٹرم الیکشن تک
یہ گزشتہ انتخابات سے کچھ ماہ پہلے کی بات ہے۔ میں امجد خان کے پاس میانوالی گیا ہوا تھا ۔میں نے جب اسے تحریک انصاف میں شامل ہوجانے کا مشورہ دیا تو وہاں بیٹھے ہوئے بیس پچیس لوگوں کی غضب ناک نگاہیں مجھے اس طرح چبھنے لگیں جیسے ابھی قتل کردیں گی۔ تند و تیز بحث کا آغاز ہوا،ایک ایک کرکے تحریک ِ انصاف میں شمولیت کے نقصانات گنوائے جانے لگے۔ اکثر لوگوں کایہی خیال تھا کہ تحریک ِ انصاف میں امجد خان کا شامل ہونا مناسب نہیں کیونکہ امجد خان کا سیاسی حریف انعام اللہ خان عمران کا چچا زاد بھائی ہے۔ امجد خان خاموش تھا میں جانتا تھا کہ وہ کیا سوچ رہا ہے اور اسے جتنا میں جانتا تھا اتنا اس کے اردگرد بیٹھے ہوئے لوگ نہیں جانتے تھے۔امجد خان اورمیں مل کربہت دنیا گھوم چکے ہیں،پورے یورپ کی سیر کی ہے۔ میں جانتا تھا کہ امجد خان عمران خان کو صرف ایک عظیم کھلاڑی ہی نہیں عظیم لیڈر بھی سمجھتا ہے بلکہ کئی بار اپنے ابو یعنی ڈاکٹر شیرافگن سے بھی کہہ چکا ہے کہ وہ عمران خان کی پارٹی میں شامل ہو جائیں مگر ڈاکٹر شیرافگن کی سیاست کا اپنا انداز تھا۔ وہاں بیٹھے ہوؤں کا خیال تھا کہ امجد خان کا تحریک انصاف میں شامل ہونا دراصل ایم این اے کی اُس نشست سے دستبردار ہونا ہے جو اسے ورثے میں ملی ہے ۔میں نے ان کے اس خیال کی تردید کی اور کہا کہ عمران خان ایک لیڈر ہیں وہ صرف اس لئے امجد خان کی جگہ پر انعام اللہ خان کو ٹکٹ نہیں دیں گے کہ وہ ان کا چچازاد بھائی ہے تو لوگوں نے میری بات ماننے سے انکار کردیا۔
ایک بزرگ نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ’’ دیکھو منصور آفاق میں اگر تمہیں نہ جانتا ہوتا تو کہہ دیتا کہ تم اپنے ہمسائے کو ایم این اے بنوانے کیلئے امجدخان کو راستے سے ہٹوانا چاہتے ہو مگر میں تم پر شک نہیں کر سکتا۔ مجھے یاد ہے اُس وقت جب انعام اللہ خان اور ڈاکٹر شیر افگن کا اسی نشست پر مقابلہ تھا تو تم نے اپنے گھر کے باہر ڈاکٹر شیر افگن کا جلسہ کرا دیا تھا یعنی انعام اللہ خان کے دروازے پر مگر یہ مشورہ بالکل غلط ہے۔ امجد خان کو ایسا مشورہ مت دو، اس میں تباہی کے سوا کچھ نہیں‘‘۔میں لوگوں کو تو نہ سمجھا سکا لیکن میں نے کار میں بیٹھتے ہوئے امجد خان کو اکیلے میں کہا کہ مجھے یقین ہے عمران خان ایم این اے کاٹکٹ تمہیں دے گاسو ساتھیوں کے مشورے مت مان اور ایک لیڈر کی طرح سوچ، جیسے عمران خان سوچتا ہے پھر وہی ہوا تمام تر خاندان کی مخالفت کے باوجود عمران خان نے امجد خان کو تحریک انصاف کا ٹکٹ دے دیا۔یہ کام کسی عام آدمی کے بس کا نہیں۔ذرا سوچئے ایک طرف صرف چچا زادبھائی ہی نہیں بہنوئی کا بھی سگا بھائی ہے اور یہ رشتہ دار عمران خان کے ساتھ میانوالی اور لاہور دونوں جگہوں پر ایک ہی مکان میں رہتے ہیں۔ ایک اخلاقی دبائو بھی کہ انعام اللہ خان مسلم لیگ (ن) چھوڑ کر تحریک انصاف میں آیا ہے اور دوسری طرف وہ امجد خان جس کے باپ ڈاکٹر شیرافگن کے ساتھ عمران خان کے کبھی زیادہ اچھے مراسم نہیں رہے تھے۔
سو یہ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا کہ عمران خان انعام اللہ خان کو چھوڑ کر امجد خان کو ایم این اے کا ٹکٹ دے دیں گے مگر جو لیڈر ہوتے ہیں وہ رشتہ داریوں اور کاروباری فائدوں کے تناظر میں فیصلے نہیں کرتے، وہ اپنی پارٹی کو اپنے خاندان کی جاگیر نہیں بناتے۔ سو عمران خان روایتی سیاستدان نہیں تھا اس لئے اس نے ٹکٹ اپنے عزیزوں کو چھوڑ کر امجد خان کو دیا۔بے شک عمران خان کے اندر وہ خصوصیات ہیں جو ایک لیڈر میں ہونی چاہئیں۔انہوں نے کبھی الٹے سیدھے مشوروں پر کان نہیں دھرے۔ گزشتہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی اور عمران خان کے بجائے نواز شریف وزیراعظم بن گئے مگر عمران خان نے بڑے حوصلے سے کام لیا اور الیکشن کمیشن کے فیصلے کو مان کر عدالت کے دروازے پر دستک دی ۔حتیٰ کہ جمہوریت کیلئے نواز شریف کو بھی اپنے گھر آنے دیا جس کی تحریک انصاف کے کارکنوں کو بہت تکلیف ہوئی مگر بڑے لیڈر کی طرح اس نے کبھی کوئی چھوٹی حرکت نہیں کی۔ میرے خیال میں اس وقت بھی عمران خان کے ذہن میں جو سوال سب سے زیادہ سلگ رہا ہے وہ ’’ دھاندلی‘‘ کا ہے۔ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ موجودہ اسمبلیاں دھاندلی کی پیداوار ہیں اور ملکی استحکام کا سبب صرف اور صرف مڈٹرم صاف شفاف انتخابات ہی ہو سکتے ہیں مگر وہ اس سلسلے میں خاموش ہیں کہ کہیں اس مطالبہ کے نتیجے میں غیر جمہوری قوتیں نہ اقتدار میں آجائیں مگر گیارہ مئی کا احتجاج اِس جمہوری مطالبہ سے زیادہ دور نہیں اور اگر ڈاکٹر طاہر القادری بھی ان کے ساتھ ہوئے تو موجودہ حکومت کے پاس مڈٹرم انتخابات کرانے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہے گا۔
(ن) لیگ کے کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ان کی لیڈر شپ عمران خان کو اپنے حیلوں سے منا لے گی، میرے نزدیک یہ ان کی غلط فہمی ہے جس عمران خان کو درست فیصلہ کرنے سے اس کا چچا زاد بھائی اور بہنوئی نہیں روک سکے، اس عمران خان کی راہ میں چوہدری نثارکی دلبرانہ اور خسروانہ گفتگو یا درِعمران خان پر طوافِ حکمران کیسے رکاوٹ بن سکتے ہیں۔ پچھلی مرتبہ جب ڈاکٹر طاہر القادری آئے تھے تو اس وقت بھی عمران خان چاہتے تھے کہ وہ ان کے احتجاج میں شامل ہوجائیں مگر کچھ لوگوں نے یہ خوف دلایا تھا کہ ایسا کرنے سے غیر جمہوری قوتیں اقتدار میں آسکتی ہیں۔ اِس وقت بھی عمران خان کو مسلسل یہی کہا جارہا ہے مگر آج ثابت ہوچکا ہے کہ اُس وقت بھی غلط کہا گیا تھاجنرل کیانی کسی صورت میں بھی مارشل لا لگانے کا ارادہ نہیں رکھتے تھے اورسچ یہی ہے کہ اس وقت بھی غلط کہا جارہا ہے، جنرل راحیل شریف سے ایسے کسی عمل کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ میرا مشورہ یہی ہے عمران خان کو اپنا گیارہ مئی سے شروع ہونے والا احتجاج اس وقت تک جاری رکھنا چاہئے جب تک مڈٹرم انتخابات ممکن نہیں ہو جاتے۔
mansoor afaq

