
الیکشن ہونا نہ ہونا ایک برابر
الیکشن ہونا نہ ہونا ایک برابر
اگرچہ چیف آف آرمی اسٹاف نے کہا ہے کہ الیکشن ہر حال میں ہوں گے مگر اس کے لئے ضروری ہے کہ سات ، آٹھ اور نو مئی کے دن خیریت سے گزر جائیں یا ان سے پہلے کچھ ایسا نہ ہو جائے، کچھ ویسا نہ ہوجائے۔ وہ لوگ جو کافی عرصہ سے کہہ رہے ہیں کہ گیارہ مئی کو انتخابات نہیں ہوں گے، جیسے جیسے انتخابات قریب آرہے ہیں انہی لوگوں کے اندازے درست لگ رہے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ بلوچستان ، کراچی اور صوبہ پختونخوا میں الیکشن کی صورتحال خاصی مخدوش ہے، اگر تین صوبوں میں الیکشن نہ ہو سکیں تو پنجاب کے الیکشن کوئی معنی نہیں رکھتے۔ ملک میں اس وقت انتخابی مہم صرف دو پارٹیوں کی چل رہی ہے ایک تحریک انصاف کی اور دوسری نون لیگ باقی تمام پارٹیاں خاموش ہیں، خاص طور پر پیپلزپارٹی کو تو بالکل چپ سی لگ گئی ہے، ٹیلی ویژن کے اشتہاروں کے سوا ان کی انتخابی مہم کہیں دکھائی نہیں رہی۔ کراچی میں پیپلزپارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اورایم کیو ایم کی مشترکہ پریس کانفرنس کے بعد یہ توقع بہت واضح ہوگئی ہے کہ کسی لمحے یہ تینوں پارٹیاں الیکشن سے بائیکاٹ کا اعلان کر سکتی ہیں اور نون لیگ جو اپنی انتخابی مہم میں مسلسل مایوسی کا شکار ہوتی دکھائی دے رہی ہے، وہ بھی الیکشن سے بائیکاٹ میں دوسری پارٹیوں کا ساتھ دے سکتی ہے۔اگر ان پارٹیوں نے الیکشن سے بائیکاٹ کر دیا تو عمران کے سونامی کی تند وتیز موجیں بھی مجبوراً سموتھ ہو جائیں گی۔
کچھ لوگوں کے نزدیک الیکشن ملتوی ہونے کا بڑا سبب عمران خان کی سونامی ہے جس نے سارے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پنجاب میں نون لیگ بری طرح ہار رہی ہے اور تحریک انصاف پنجاب کے علاوہ صوبہ پختونخوا میں بھی جیت رہی ہے اور اس بات کا بھی قوی امکان ہے کہ تحریک انصاف بلوچستان سے بھی نشستیں حاصل کرے گی، سو ہارنے والوں کے پاس الیکشن ملتوی کرانے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔میں نے سات، آٹھ اور نو مئی کا ذکر بڑے خوفناک انداز میں کیا ہے میرے ذاتی علم کے مطابق یہ تینوں پاکستان کی تاریخ پر ایسے اثرات مرتب کر سکتے ہیں جن سے پاکستان کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ اچھی بھی ہوسکتی ہے اور بری بھی۔ اور اگر یہ تینوں دن خیریت سے گزر گئے تو پھر الیکشن ضرور ہوں گے مگر الیکشن کے بعد کیا ہو گا یہ ایک سلگتا ہوا سوال ہے۔ کون حکومت بنائے گا یا کوئی بھی حکومت نہیں بنا سکے گا ۔ اس صورتحال کا اندازہ صرف اس بات سے لگائیے کہ الیکشن کے نتائج کے بارے میں جو قیاس آرائیاں بہت زیادہ ہو رہی ہیں ان کے مطابق پیپلز پارٹی پچاس کے قریب قومی اسمبلی کی نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی، نون لیگ زیادہ سے زیادہ ساٹھ نشستیں حاصل کر سکے گی اور تحریک انصاف کے پاس ستّر نشستیں ہوں گی، باقی نشستیں مختلف پارٹیوں اور آزاد امیدواروں کے پاس ہوں گی۔
واقعی یہ سلگتا ہوا سوال ہے کہ حکومت کون بنائے گا، عمران خان تو پہلے اعلان کر چکے ہیں کہ وہ نون لیگ یا پیپلزپارٹی کے ساتھ الحاق نہیں کریں گے۔ نون لیگ کے لئے بھی پیپلزپارٹی کے ساتھ الحاق کیلئے ایک مسئلہ ہو گا کیونکہ پہلے نون لیگ پر یہی الزام ہے کہ نون لیگ پیپلزپارٹی کے ساتھ ملی ہوئی ہے اور ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی اور اشتہار بازی صرف عوام کو بے وقوف بنانے کیلئے ہے اس لئے نون لیگ بھی پیپلزپارٹی کے ساتھ مل کر حکومت بنانے کیلئے تیار نہیں ہوگی کیونکہ ایسا کرنے سے نون لیگ کی رہی سہی ساکھ بھی تباہ ہوجائے گی یعنی دوبارہ انتخابات کرانے پڑیں گے اور ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ یہ انتخابات تقریباً دوسال کے بعد ہوں گے۔ دوسال تک ٹیکنو کریٹس کی حکومت پاکستان کو معاشی بدحالی سے نکالنے کی کوشش کرے گی اور آصف زرداری بدستور صدر مملکت رہیں گے یعنی الیکشن ہونا یا نہ ہونا ایک برابر ہو گا۔ میری دعا ہے کہ اس عرصہ میں پاکستان کو بڑا نقصان نہ ہو کیونکہ پاکستان توڑنے کی سازش کرنے والے دشمن ممالک اس عرصہ کو غنیمت جان رہے ہیں۔ ایرانی صدر احمد ی نژاد تک نے کہا ہے کہ پاکستان کو توڑنے کی سازش کی جارہی ہے۔کسی دوسرے ملک کے صدر کے ایسے بیان سے کسی طرح بھی آنکھیں نہیں چرائی جا سکتیں۔
ایک خبر کے مطابق یہ بات نواز شریف اور عمران خان دونوں کو معلوم ہے کہ گیارہ مئی کو الیکشن نہیں ہوں گے۔ اگر یہ اطلاع درست ہے تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ دونوں اتنے زور شور سے انتخابی مہم کیوں چلا رہے ہیں ۔ پیپلزپارٹی کی طرح خاموش کیوں نہیں۔ کچھ لوگوں کے خیال کے مطابق اس وقت یہ دونوں لیڈر دراصل اگلے انتخابات کی ریہرسل کر رہے ہیں، اپنی اپنی پارٹیوں کو متحرک کر رہے ہیں۔ البتہ اس کام میں عمران خان بہت زیادہ کامیاب دکھائی دیتے ہیں انہوں نے تمام تر مخالفت کے باوجود تحریک انصاف میں بروقت انتخابات کرائے اور اپنی پارٹی کی بھرپور تنظیم سازی کی یوں اس وقت تحریک انصاف پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی تنظیم کے طور پر ابھر چکی ہیں اور لگ رہا ہے کہ سب سے زیادہ تابناک مستقبل بھی اسی سیاسی پارٹی کا ہے۔ حکومت جب بھی بنے گی اسی پارٹی کی بنے گی یعنی آئندہ عوامی وزیر اعظم عمران خان ہی ہوں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان جس سونامی کی بات کیا کرتے تھے وہ آچکا ہے۔ ابھی پچھلے دنوں میں میانوالی شہر میں ہونے والے عمران خان کے جلسے میں شریک ہوا۔ میں میانوالی کا رہنے والا ہوں، میں نے ساری زندگی میانوالی میں اتنا بڑا جلسہ نہیں دیکھا تھا۔ اس جلسے کا اہتمام امجد خان نے کیا تھا، امجد خان ڈاکٹر شیر افگن مرحوم کے بیٹے ہیں اور میانوالی این اے 72سے تحریک انصاف کے امیدوار ہیں۔
mansoor afaq

