
اقتدار کی سیڑھیوں سے ایک میسج
اقتدار کی سیڑھیوں سے ایک میسج
لاہور بڑا ہی غریب نواز شہر ہے۔مسافر نواز بھی ہے اور مہاجر نواز بھی۔یہاں ہجرتوں کے مارے راہرو آتے ہیں اور یہ انہیں اپنی شفقت بھری گود میں سمیٹ لیتا ہے۔مسافروں کو اتنا پیار دیتا ہے کہ وہ اپنا رخت سفر کھول لیتے ہیں ۔لاہور کی اپنائیت بھری خوشبو سے سرشار ہوائیں جب ان سے سرگوشیاں کرتی ہیں وہ سب کچھ بھول بھال کر یہیں کے ہوجاتے ہیں ۔پھر انہیں کوئی اور شہر یادہی نہیں رہتا۔
مجھے یادہے میں جب پچیس برس پہلے لاہور گیا تھاتو یہ لازوال گیت میری سماعت میں شہد ٹپکانے لگا تھاکہ تم یہیں کے ہو ۔اِسی دیا ر ِ دلنوازکے ہو۔تم نے جہاں آنا تھا وہیں آگئے ہو۔ یہیں بنارس کی صبحیں نکھرتی ہیں ۔یہیں شیزار کی شامیں بکھرتی ہیں ۔انہی گلیوں میں پیرس کی راتیں آباد ہیں۔ میری طرح بے شمارلوگ لاہور آتے ہیں اور پھر کہیں نہیں جاتے بلکہ کہیں جا کربھی لاہور کے ہی رہتے ہیں۔
مجھے اس لاہور کی یاد آج میانوالی کے ایک نابینا شخص نے دلائی۔اس نے مجھے برمنگھم میں میسج کیاکہ ’’میں تمہارے لاہور میں اسمبلی ہال کی سیڑھیوں پر پچھلے گیارہ گھنٹوں سے اپنے نابیناساتھیوں کے ساتھ آنکھوں کی نہیں امید کی روشنی کے لئے بیٹھا ہوں۔تم توکہتے تھے کسی معاشرے پر سب سے پہلا حق اس کے معذورافراد کا ہوتا ہے مگر یہاں تو ہمیں آخری حق بھی نہیں مل رہا۔‘‘
میں نے اسے جواباً میسج کیا کہ ’’میرے دوست ! یہ جملہ میرا نہیں ذوالفقار علی بھٹو کا ہے۔یقینا میرے پاکستان میں معذور لوگوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جارہا ہے ۔اس پر صرف میںہی من حیث القوم شرمندہ نہیںیقینا ذوالفقار علی بھٹو بھی اپنی قبر میں آب دیدہ ہونگے۔اقتدار کی سیڑھیوں پر پتہ نہیں کسی نے تمہیں کھانا بھی دیا ہے یا نہیں۔ لاہورکے صاحبانِ اقتدار سے میرے مراسم کچھ زیادہ اچھے نہیں ۔ انہیں میں کچھ نہیں کہہ سکتالیکن والیٔ لاہور داتا گنج بخش سے ضرور درخواست کر سکتا ہوں۔یہاں سے اٹھو تو کچھ دیر اس فقیر کی سیڑھیوں پر بیٹھ جاناان کے پاس آیا ہوا کوئی شخص آج تک بھوکا واپس نہیں گیا۔‘‘
مجھے جواباً میسج آیا’’داتا کے دربار پر تو میں نے لاہور داخل ہوتے ہی حاضری دی تھی۔کسی ایسے فقیر کے بارے میں بتائوجن سے اہل ِ اقتدار کے تعلقات اچھے ہوں ‘‘
میں نے کافی دیر تک سوچا۔ذہن میں کئی فقیروں کے نام گونجے۔اور پھر دماغ عطاالحق قاسمی کے اسمِ خاص پر آکر رک گیا۔ان کے ساتھ 35سالہ تعلق کے تجربے نے چیخ چیخ کر کہاکہ عطاالحق قاسمی کا تعلق انسانوں کے اُس عالمی قبیلے سے ہے جن کے دل دھڑکتے ہیں۔انہیں دوسروں کی تکلیف محسوس ہوتی ہے۔اوراِ س وقت وہی ’’صاحبِ لاہور ‘‘ ہیں۔ انہی کے دل میں خوشبوئوں کے نگر آباد کرنے کی تمنا مچلتی رہتی ہے۔وہی عدل کو صاحب اولاد کرنا چاہتے ہیں۔
پھر خیال آیا کہ ’’شاعرِ لاہور‘‘ شعیب بن عزیز کو بھی کہا جاسکتا ہے ۔وہ بھی تو پنجاب کے خادمِ اعلیٰ کے مشیر ِ لوح و قلم ہیں۔میرے خیال میں شعیب بن عزیز جیسا کوئی آفیسرپاکستان میں کم ہی ہوگا ۔وہ بڑے بڑے عہدوں پر فائز رہے ہیں مگر آج بھی ان کا کل اثاثہ ’’شاعری‘‘ ہے۔انہوں نے لاہور کیلئے کہا تھا
مرے لاہور پر بھی اک نظر ہو ترا مکہ رہے آباد مولا
پھرلاہور کا ایک اور فقیر یاد آگیا اللہ تعالی انہیں اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے ۔اُس فقیر کا نام احمد ندیم قاسمی تھا۔میں جب میانوالی میں ہوتاتھاتو اکثر مسائل میں الجھے ہوئے لوگوں کےلئے ان کے نام خط لکھ دیتا تھا۔وہ ان کیلئے اہلِ اقتدار کو ضرور فون کر دیتے تھے اور جسے ضروری سمجھتے اُس کےمسئلے پر جنگ میں کالم بھی لکھ دیتے تھے۔افسوس کہ زندگی کے آخری ایام میں ان کے ساتھ بھی اہل اقتدار نے کوئی اچھا سلوک نہیں کیا تھا۔انہوں نے مجلس ترقی اردو کے ناظم اعلیٰ کے عہدے سے بیوروکریسی کے رویے پر احتجاج کرتے ہوئے استعفیٰ دے دیا تھا جسے فوری طور پر منظور کرلیا گیا تھا۔یہ خبر میرے جیسے لوگوں کیلئے بہت خوفناک تھی۔اس بات کی غمازتھی کہ ہماری تہذیبی روایت کی ٹوٹ پھوٹ کا عمل وہاں پہنچ گیا ہے جہاںکرچیاں اتنی باریک ہو چکی ہیں کہ
پائوں محسوس کرتے نہیں کرچیوں کی چبھن
زندگی جیسے دیوار چلتی ہوئی کانچ پر
یہ بظاہر ایک معمولی سا واقعہ تھامگراس پس منظر میں اجتماعی بے حسی کی لاش گلی کے نکڑ پردکھائی دیتی ہے کیونکہ یہ واقعہ اُس وقت کی برصغیر کی سب سے بڑی ادبی شخصیت کے ساتھ پیش آیاتھا ۔کشور ناہید یاد آگئی ہیں وہ جب ماہ نو کی چیف ایڈیٹر ہوا کرتی تھیں تومیں ان کے پاس بھی اکثر لوگوں کے کام لے کر آتا تھا۔جہاں تک ان کا بس چلتا تھا ضروری کام کرا دیتی تھیں مگرساتھ یہ ضرور کہتی تھیں ’’تم نے الیکشن لڑنا ہے ،روز دوچار کام اٹھا کر آجاتے ہو‘‘۔اللہ تعالیٰ منو بھائی کی عمر دراز کرے میں نے ان سے بھی لوگوں کے بہت کام کرائے ہیں ۔
کام آنے والے اور بھی کئی درویش یاد آئے۔
خاصی دیر لاہور کی یادوں میں مگن رہنے کے بعد میں نے اپنے نابینادوست کو میسج کیا۔’’صبح گیارہ بجے اسمبلی ہال کی سیڑھیوں سے اٹھ کرلوڈ شیڈنگ اگلتے واپڈا ہائوس اور مسلم امہ کی یادگار یعنی سمٹ مینار کے درمیان سے گزرتے ہوئے شاہراہ ِ قائداعظم یعنی انگریزوں والے مال روڈ پرپہنچ کر بائیںسمت مڑ جانا ہے ۔ تھوڑا سا آگے جائو گے تو تمہارے دائیں طرف چڑیا گھر ہوگا۔جو شاید اسمبلی کے اجلاس کے سبب اس وقت خالی ہواورتمہارے بائیںطرف ایک فائیو اسٹار ہوٹل ہوگا اس کے گیٹ کے سامنے سے دھیان سے گزرنا۔وہاں سے کسی رئیس زادے کی تیز رفتار گاڑی برآمد ہوسکتی ہے۔ اس کے بعد سڑک آجائے گی اسے بھی خیال سے پار کرناوہاں ٹریفک بہت زیادہ ہوتا ہے۔سڑک کے اس طرف الحمراآرٹس کونسل کی عمارت ہے ۔اس میں صاحب ِ لاہور عطاالحق قاسمی کا تکیہ ہے ۔وہاں پہنچ جانا ۔اور اگر وہاں سے یہ پتہ چلے کہ ان کا دفتریہاں سے آگے منتقل ہوگیا ہے ۔ یعنی گورنر ہائوس میں تو سمجھنا کہ اہلِ اقتدار کی خوش قسمتی اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ آسمان والا ابھی کچھ لوگوں سے مایوس نہیں ہوا۔‘‘
mansoor afaq

