
افتخار محمد چوہدری کی کتاب
افتخار محمد چوہدری کی کتاب
سیاست میں ہلچل مچادینے والی ایک دھماکہ خیز کتاب اس وقت طباعت کے مراحل سے گزر رہی ہے ۔ اس کتاب کانام ہے ’’چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری ‘‘ اور اس کے نیچے لکھا ہوا ہے ’’بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا‘‘یہ کتاب افتخار محمد چوہدری کے زیر نگرانی سردار علی حسن نے تحریر کی ہے ۔ سردار علی حسن ایک شاعر ہیں۔ان کا ایک شعری مجموعہ بھی شائع ہوچکا ہے ۔سپریم کورٹ میں ملازمت کرتے ہیں ۔اس کتاب کی سب سے اہم ترین یہی بات ہے کہ اس میں درج شدہ تمام معلومات اور واقعات افتخار محمد چوہدری کے تصدیق شدہ ہیں ۔یعنی یہ ان کی ایسی سوانح عمری ہے جوانہوں نے خود تحریر کرائی ہے ۔
اس کتاب میں بہت سی باتیں بہت اہم ہیں ۔خاص طور پر پرویز مشرف اور افتخار محمد چوہدری کی آخری ملاقات میں جو کچھ ہوا اس کا احوال اس کتاب میں خود سابق چیف جسٹس کا بیان کردہ ہے اور اس دن کے بارے میں جو بہت سی کہانیاں اخبارات میں شائع ہوچکی ہیں ان میں سے کئی کہانیوں کی تردیدبھی فرما دی گئی ہے مثال کے طور پرانہوں نے ہمایوں گوہر کی اس بات کی تردید کردی ہے کہ نومارچ کو افتخار محمد چوہدری نے سابق صدر پرویز مشرف سے کہا تھا کہ میں چیف جسٹس آف پاکستان ہوں ۔میں اسی وقت یہیں عدالت لگا کر آپ کو سزا سنا سکتا ہوں ۔اس کتاب میں انہوں نے اس بات کی بھی تردید کردی ہے کہ آٹھ مارچ کو انٹیلی جنس کے تین آفسران ان کے پاس آئے تھے ۔
اس کتاب میں پاکستان کی بہتری کیلئے افتخار محمد چوہدری کے جو خیالات ہیں وہ بھی درج کئے گئے ہیں ۔مستقبل کیسا ہونا چاہئے اور اس مستقبل میں افتخار محمد چوہدری کا کردار کیا ہونا چاہئے یہ بھی اس کتاب سے اخذ کیا جا سکتا ہے ۔مثال کے طور پر اس کتاب میں لکھا ہے کہ آئین میں بنیادی تبدیلی ضروری ہے۔کتاب سے ہٹ کر جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے افتخار محمد چوہدری چاہتے ہیں کہ پاکستان کا نظام حکومت صدارتی ہونا چاہئے ان کے خیال کے مطابق یہی نظام اسلام کے قریب تر بھی ہے اور اس سے فائدہ یہ ہوگا کہ عوام صرف ایک شخص کو منتخب کریں گے باقی حکومت چلانے کیلئے تمام لوگ وہی شخص نامزد کرے گایوں حکومت میں نااہل اور کرپٹ لوگ شامل نہیں ہو سکیں گے۔ آئین میں اس بنیادی تبدیلی کا طریقہ کیا ہوسکتا ہے۔یہ ایک سوال ہے جس پر غور و فکر کے دروازے کھلے ہیں
اس کتاب میں سپریم کورٹ کے اہم ترین مقدمات کے حوالے سے بھی بہت کچھ لکھا گیا ہے ۔بلوچستان کے حوالے سے بڑی اہم باتیں درج ہیں ۔ اکبر بگٹی کے قتل کے مقدمے کی پوری تفصیل موجود ہے کہ وہ کون کون سے عوامل تھے جس کی وجہ سے پرویز مشرف کو اس کیس میں سزا نہیں سنائی جا سکی ۔اکبر بگٹی کے قتل کے متعلق ایک عینی شاہدکا یہ بھی کہنا ہے کہ گولیاں مارنے سے پہلے اکبر بگٹی مرچکا تھا گولیاں اس کی لاش کو ماری گئی تھیں ۔یہ بات کتاب میں درج نہیں ہے ۔اس کتاب میں کسی حد تک یہ بھی لکھا ہے کہ وہاں حالات کیسے بہتر ہوسکتے ہیں
طالبان کے حوالے سے بھی اس کتاب میں سابق چیف جسٹس کے ارشادات موجود ہیں ۔اس حوالے سے ان کا نقطۂ نظر موجودہ حکومت جیسا ہے کہ ان کے ساتھ مذاکرات کئے جائیں گے ۔وہ پاکستانی ہیں ۔ہمارے بھائی ہیں مگر بھٹک گئے ہیں اور ان کے بھٹکنے کی بہت سے ایسی وجوہات بھی ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان کے دور میں دہشت گردوں کو اسی طرح سزائیں نہیں سنائی گئیں جیسی سنائی جانی چاہئے تھیں ۔
اس کتاب کا دیباچہ پروفیسر احمد سعید ہمدانی نے تحریر کیا ہے ۔احمد سعید ہمدانی کا تعلق نوشہرہ سون سیکسر سے ہے ۔وہ بنیادی طور پر تصوف کے آدمی ہیں۔ ان کی جو بیس پچیس کتابیں میری نظر سے گزری ہیں وہ تمام تصوف کے حوالے سے ہیں ۔ سلطان باہو کی فارسی تصانیف پر بھی انہوں نے بہت کام کیا ہے اور کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ باقاعدہ ایک صوفی ہیں ۔ انہوں نے خود کو کبھی اس حوالے سے ظاہر نہیں کیا مگربڑے بڑے صاحبِ کشف لوگ ان کے پاس آتے جاتے رہتے ہیں۔نوشہرہ کے ایک شخص کے بقول کہ میں نے ایک مرتبہ ایک مجذوب سے دعا کیلئے کہا تو وہ بولا۔’’تو تو احمد سعید کے پڑوس میں رہتا ہے۔جا اسی کے پاس ۔اسی سے دعا کرا۔‘‘
ایک ایسی روحانی شخصیت سے افتخار محمد چوہدری نے اپنی کتاب کا دیباچہ کیوں لکھوایا۔یہ بڑا اہم سوال ہے ۔احمد سعید ہمدانی گمنام سے آدمی ہیں ۔ان کی پہچان صرف دنیائے تصوف میں ہے ۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ افتخار محمد چوہدری بھی کسی حد تک روحانی معاملات پر یقین رکھتے ہیں اور ان کا اس دنیا سے بھی رابطہ ہے ۔پروفیسر احمد سعید ہمدانی نے سلطان باہو کے حوالے سے کہیں لکھا ہے ’’مصنف کو چاہئے کہ پہلے وہ ہر علم کو اپنے عمل اور قبضہ و تصرف میں لاکراس کا معائنہ و تجربہ کرے اور امتحان و آزمائش کرے تاکہ رجعت و پریشانی کا شکار نہ ہو اور اس کے بعد ضبطِ تحریر میں لاکر کتاب لکھے‘‘یقیناً افتخار محمد چوہدری کی یہ کتاب جس کا انہوں نے دیباچہ لکھا ہے۔ ان تمام مراحل سے گزری ہوئی ہوگی ۔

