اختتامی اجلاس کا صدر. mansoor afaq
دیوار پہ دستک

اختتامی اجلاس کا صدر

اختتامی اجلاس کا صدر

1347ء کی ایک خوب صورت رات تھی ۔غرناطہ کے الحمرا میں الف لیلیٰ داستان سنائی جا رہی تھی اُس وقت کی مشہور داستان گو کلثوم بن عذیر نے شہزادوں اور شہزادیوں کو اپنی کہانی کے حصار میں قید کر رکھا تھا ۔ لاہور کے الحمرا میں کئی سو سال بعد پھر وہی کہانی اپنے پر پھیلاتی جا رہی تھی، ماحول پروں کی دھیمی دھیمی پھڑپھڑاہٹ میں سحر زدہ ہو چکا تھا یہاں داستان گو چیئرمین الحمرا آرٹس کونسل عطاالحق قاسمی تھے۔یہ پانچویں الحمرا انٹرنیشنل کانفرنس تھی ۔اِس کانفرنس میں عطاء الحق قاسمی نے پاکستان کی تقریباً ایک سو سے زائد اہم شخصیات کو اپنی یادیں لوگوں کے ساتھ شیئر کرنے کا موقع فراہم کیا۔ یہ ایک انوکھی کانفرنس تھی بلکہ اپنی نوعیت کی پہلی کانفرنس تھی۔ اس میں ہر شعبہ ٔ زندگی کے بڑے لوگ شامل کئے گئے تھے۔ اس کامیاب کانفرنس اور کامیاب ہندو پاک مشاعرے پر عطاالحق قاسمی کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ مشاعرے کی دو باتیں نہیں بھلائی جا سکتیں۔ ایک جو دستِ کشور ناہید نے شاعروں کی قسمت کا فیصلہ دیا یعنی فال نکالی گئی کہ اب کس شاعر کو بلایا جائے اور دوسری بات ندیم بھابھہ کی شاعری تھی اُس نے صرف مشاعرہ ہی نہیں لُوٹا بلکہ شاعروں کے دل بھی لُوٹ لئے۔ کانفرنس کے افتتاحی اجلاس میں وزیر اعظم نوازشریف نے آنا تھا، وہ نہیں آس کے مگر انہوں نے اپنی جگہ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف صاحب کو ضرور بھیج دیا۔ شہباز شریف کی یادیں بھی دلچسپ تھیں۔ انہوں نے عطاالحق قاسمی کی شادی کا قصہ بھی سنایا،لگا کہ وہ واقعی داستان گو ہیں ۔

اختتامی نشست میں شہباز شریف کی جگہ صدر پاکستان نے آنا تھا مگر شاید وہ اپنی’’ گھریلو مصروفیت ‘‘کی وجہ سے تشریف نہ لا سکے۔ افسوس کہ اُن کے نہ آنے کا دکھ کسی ماتھے پر اپنا کوئی نقش نہ بنا سکا۔ہاں کچھ لوگوں کو اس بات کا افسوس تھا کہ بیچارے صدرِ مملکت اپنی جگہ اپنے کسی گورنر کو بھی بھیجنے پر قادر نہ ہو سکے ۔سنا ہے آج کل شہباز شریف اور صدر ممنون حسین ایک ساتھ دکھائی دیتے ہیں یعنی صدر ممنون کا ستارہ مسلسل عروج پر ہے ۔ابھی چند دن پہلے شہباز شریف انہیں اپنے ساتھ چین کے دورے پر لے گئے تھے۔یہ بات وزیرِاعلیٰ پنجاب کے لئے یقیناً باعثِ افتخار قرار دی جا سکتی ہے کہ اُن کے وفد میں صدرِ پاکستان بھی شامل تھے۔یہ خیال آرائی اکثر لوگوں نے کی کہ چین میں ملاقاتوں کیلئے مقام و مرتبہ کا بہت خیال رکھا جاتا ہے۔وہاں پاکستان کے اکیسویں گریڈ کا آفیسر چین کے بائیسویں گریڈ کے آفیسر سے ملاقات نہیں کر سکتا۔ اسی طرح کسی صوبے کے گورنر سے چین کا صدر ملاقات نہیں کر سکتا، وغیرہ وغیرہ ۔پچھلی مرتبہ جب وزیر اعلیٰ پنجاب اکیلے چین گئے تھے تو انہیں اس بات کا شدت سے احساس ہوا تھا سو اس مرتبہ وہ اپنے وفد میں پاکستانی صدر کو بھی ساتھ لے گئے تاکہ چینیوں کو پتہ چل سکے کہ وہ کوئی ایسے ویسے وزیراعلیٰ نہیں۔ سو اب صدر ممنون کے شہباز شریف کے ساتھ چین کے دورے پکے ہو گئے ہیں۔ چلیں صدر مملکت کو کرنے کیلئے کوئی کام تو ملا ۔اسی طرح کی ایک نوکری ایک مرتبہ ڈاکٹر شیر افگن کو بھی کرنا پڑ گئی تھی۔یہ ان دنوں کی بات ہے جب وہ وفاقی وزیر ہوتے تھے اور محترمہ بے نظیر بھٹو نے ابھی آصف زرداری کو وزیر نہیں بنایا تھا۔

مسئلہ یہ تھا کہ پاکستان کے قانون کے مطابق مکمل وفاقی وزیر ہی کوئی سرکاری طیارہ کہیں بھی لے جا سکتا ہے اور آصف زرداری سرکاری طیارے پر نواب شاہ آنا جانا چاہتے تھے۔انہوں نے سوچا کہ یہ کام ڈاکٹر شیر افگن سے لیا جائے سو آصف زرداری کو جب بھی نواب شاہ جانا ہوتا تھا وہ ڈاکٹر شیر افگن کو ساتھ لے جاتے تھے ۔تنگ آکر ڈاکٹر شیر افگن نے ایک دن محترمہ بے نظیر بھٹو سے شکایت کردی اور محترمہ نے مسئلے کا حل کچھ یوں نکالا کہ آصف زرداری کو بھی وزیر بنا دیا۔ہاں تو میں بات کر رہا ہوں الحمرا آرٹ کونسل میں ہونے والی کانفرنس کے متعلق۔یوں تو اس کانفرنس میں بہت سی یادیں یادگاریں بن گئیں۔میرے لئے بھی اعتزاز احسن کی تقریر خاصی دلچسپ ثابت ہوئی۔ ہوا یوں کہ جب میں نے اپنی یادوں پر مشتمل کچھ واقعات کانفرنس میں سنائے جن کا موضوع یہ تھا کہ میں جوانی میں ملحدانہ نظریات کا حامل ہوا کرتا تھا۔ مجھے ایک شخص نے کیسے سچا اور کھرا مسلمان بنادیا تو اعتزاز احسن کو بڑی تکلیف ہوئی انہوں نے نظامت کرنے والی خوب صورت خاتون سے کہا کہ میرے بعد اسے بلایا جائے اور پھر وہ آئے اور ترقی پسندی کے داستان گو بن گئے۔ جب جانے لگے تو الحمرا کے ایک ڈپٹی ڈائریکٹر سے یہ کہہ کر داد چاہی کہ میں نے اُس مولوی (یعنی منصور آفاق) کو کیسے آڑے ہاتھوں لیا۔ اعتزاز صاحب! اپنی اپنی قسمت کی بات ہے کچھ لوگ مولویوں کے ہاتھ لگنے سے کمیونسٹ بن جاتے ہیں اور کچھ مسلمان۔

اُداس نسلیں لکھنے والے عبداللہ حسین نے کہا جب میں اسکول میں پڑھتا تھا تو ایک شخص روز اسکول کے راستے پر کھڑا ہوتا تھا۔ایک دن اُس نے مجھے بھی گھیر لیا ،بڑے لالچ دیئے ،میں بڑی مشکل سے اپنی عزت بچاکر اسکول پہنچا اور پھر کبھی اسکول جانے کیلئے اس راستے سے نہیں گزرا۔ یہ واقعہ انہوں نے اتنی ہی تفصیل سے سنایا جتنی تفصیل سے اپنے ناول میں وہ کسی پرانے مکان کی جزئیات بیان کرتے ہیں اور پھر آخر میں اُس شخص کا نام بتاتے ہوئے ایک بہت بڑی شخصیت کا نام لے لیا۔ میرا اُس شخص سے کوئی ذاتی تعلق نہیں مگر مجھے تکلیف بہت ہوئی۔ غرناطہ کے الحمرا میں بھی الف لیلیٰ کی کہانی کئی بار ایسے موڑ مڑی تھی کہ شہزادوں اور شہزادیوں کی چیخیں نکل گئی تھیں۔

mansoor afaq

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے