آپریشن ڈبل کراس . mansoor afaq
دیوار پہ دستک

آپریشن ڈبل کراس

آپریشن ڈبل کراس

عمران خان نے کہا ہے کہ طالبان کو مذاکرات کے لئے دفتر کھولنے کی اجازت دی جائے ۔کچھ لوگوں نے ان کے اس بیان پر بہت برہمی کا اظہا ر کیا ہے مگرمیرے خیال میں تواس اجازت کے بغیر طالبان کے ساتھ نتیجہ خیز مذاکرات ممکن نہیں ہوسکتے ۔ جب تک انہیں سامنے آنے کا موقع نہیں فراہم کیا جاتا ان کی کوئی حیثیت تسلیم نہیں کی جاتی اس وقت تک ان کے ساتھ کسی فائدہ مند مکالمہ کا امکان دکھائی نہیں دیتا ۔امریکہ نے بھی طالبان سے مذاکرات کیلئے انہیں قطر میں دفتر کھولنے کی اجازت دی تھی اور اس وقت جہاں حکومت پاکستان مذاکرات کی کامیابی کیلئے مسلسل طالبان رہنما ئوں کوآزاد کر رہی ہے وہاں انہیں دفتر کھولنے کی اجازت دینا کوئی اچنبھے کی یا غیر منطقی بات نہیں ہے ۔اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس دفتر کی حیثیت کیا ہوگی یقیناًدفتر کی وہی ہوگی جو قطر میں طالبان کے دفتر کی تھی۔جہاں طالبان نے اپنا پرچم لہرایا اور عمارت کے باہر’’اسلامی امارات ِ افغانستان ‘‘ کا بورڈ لگایامگر مذاکرات کی ابتدائی ناکامی پر ہی پرچم اور بورڈ دونوں ہٹا لئے گئے ۔

پاکستان میں بھی معاملاتِ افغانستان سے جڑی ہوئی تحریک طالبان کا دفتر یقیناً ویسا ہی ہوگا جیسا قطر میں تھا یا قطر میں ہے ۔کیونکہ طالبان سمجھتے ہیں کہ افغانستان کی حکومت پر ان حق ہے ۔ پاکستانی طالبان بھی اپنے آپ کو اسی تحریک کاحصہ قرار دیتے ہیں اور پاکستان میں اس لئے تخریبی کارروائیاں کرتے ہیں کہ پاکستان امریکہ اور طالبان کی جنگ میں پوری طرح امریکہ کی نہ صرف حمایت کررہا ہے بلکہ اس کی جنگ لڑ رہا ہے۔اس لئے وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان میں اسلامی نظام کا نفاذ ہو اور اس کی خارجہ پالیسی میں تبدیلی آئے اگرچہ لمحہ موجود میں طالبان سے مذاکرات کا سلسلہ امریکہ سے لے کر تحریک انصاف اور نون لیگ تک پھیلا ہوا ہے اور امریکہ شام میں طالبان اور القائدہ کے انہی گروپوں کی حمایت بھی کر رہا ہے مگرمیں ذاتی طور پر طالبان کے ساتھ مذاکرات کے عمل کو ملک کیلئے بہتر عمل نہیں سمجھتا لیکن چونکہ تمام پارٹیوں نے متفقہ طور پر طالبان کے مذاکرات کا فیصلہ کیا ہے اس لئے ان کے ساتھ مذاکرات ضرور کئے جانے چاہئیں مگر اس سلسلے میں میری کچھ گزارشات ہیں ۔سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر طالبان مذاکرات کے عمل میں سنجیدہ ہیں تو وہ فوری طور پر اپنی تخریبی کارروائیاں روک دیں اور جیسے ہی وہ اس بات کا اعلان کریں انہیں دفتر کھولنے کی فوری طور پر اجازت دے دی جانی چاہئے ۔ اگرچہ گرجاگھر پر خودکش حملے کے بعد طالبان کو بھی اس بات کا احساس ہوگیا ہے کہ کوئی اورطاقت نہیں چاہتی کہ پاکستان میں حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات ہوں مگر ابھی طالبان نے کھل کر یہ نہیں کہایہ گرجاگھر پر حملہ کرنے والے ہم میں سے نہیں بلکہ اپنے کسی چھوٹے گروپ کو اس کارروائی کا کریڈٹ دیتے رہے ہیں۔دوسری اور اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ ان مذاکرات کیلئے ایک دورانیہ مقرر کیا جائے جو مہینوں پرنہیں ہفتوں پر محیط ہو ۔کیونکہ اگر طالبان سے ہونے والے مذاکرات نے طوالت پکڑ لی اور اگلے مارچ اپریل تک چلے گئے تو پھر مذاکرات کی ناکامی کے بعدان کے خلاف آپریشن بہت مشکل ہوجائے گاکیونکہ افغانستان سے نیٹو کی افواج کا انخلا شروع ہوجائے گاخیال کی جاتا ہے کہ خود طالبان چاہتے ہیں ان کے خلاف پاک آرمی اپنے آپریشن کا آغاز اس وقت کرے جب نیٹو کی افواج افغانستان سے جا چکی ہو تاکہ انہیں اپنے مقاصد کیلئے افغانستان کے بارڈرکو استعمال کرنے کیلئے پوری آزادی حاصل ہوکیونکہ پاک آرمی کیلئے اس طویل ترین بارڈرکو مکمل طور پر سیل کرنا تقریباً ناممکن ہے ۔پرویز مشرف کے دور میں اس بارڈر پرکانٹوں کی باڑ لگانے کا فیصلہ ہوا تھا مگرامریکہ نے اپنے مفادات کے پیش نظر اس فیصلے پر عمل در آمد نہیں ہونے دیا تھا

ضرورت اس بات کی ہے کہ طالبان کے ساتھ ہونے مذاکرات فوری طور پر کئے جائیں اگر وہ نتیجہ خیز ثابت ہوتے ہیں تو بہت اچھی بات ہے وگرنہ نیٹو کی افواج کے انخلا سے پہلے پہلے طالبان کے خلاف ایک بڑا بھرپور اورحتمی آپریشن کر کے اس ناسور کو جسمِ پاکستان سے مکمل طور پر کاٹ دیا جائے ۔مذاکرات اس لئے بھی ضروری ہیں کہ پاکستان کے وہ لوگ جو طالبان کیلئے اپنے دل میں کوئی نرم گوشہ رکھتے ہیں ان پر واضح ہوجائے کہ یہ انسانیت کش تحریک دھڑکتے ہوئے دلوں کے ہاتھ میں نہیں بلکہ پاکستان دشمن قوتیں انہیں پاکستان کے خلاف استعمال کررہی ہیں ۔یہ اسلامی نہیں غیر اسلامی تحریک ہے ۔اس تحریک کے توسط سے دنیا بھر میں اسلام کے نام کو بدنام کیا جارہا ہے ۔کچھ علمائے کرام نے تو یہاں تک کہاہے کہ طالبان نے ہزاروں پاکستانی شہید کئے ہیں ۔ بے شمار مساجد کو بموں کے ذریعے گرایا ہے ۔مشائخ عظام کے مزارات تباہ کئے ہیں ان کے ان تمام جرائم کو معاف کر دینے کا حق موجودہ حکومت اور اس کی طالبان نواز حواری پارٹیوں کو کس نے دیا ہے ۔بے شک ان پارٹیوں کو پاکستانی عوا م نے اقتدار کیلئے ووٹ دئیے ہیں مگراس مقصد کیلئے کسی نے ووٹ نہیں دیا کہ وہ قاتلوں اور مجرموں کے ساتھ انہی کی شرائط پر مذاکرات کرتے پھریں گے۔ پھر اسلام کی رو سے قاتلوں کو معاف کرنے کا حق ان لوگوں کے پاس نہیں ۔ یہ حق صرف ان خاندانوں کے پاس ہے جن کے لوگ شہید ہوئے ہیں ۔ یہ کون ہوتے ہیں مذاکرات کرنے والے ۔یہ مذاکرات مکمل طور پر غیر اسلامی ہیں اورہم اس کی بھرپور مذمت کرتے ہیں ۔اگر حکومت ہمارے شہیدوں کے قاتلوں کوگرفتار نہیں کر سکتی تو وہ اقتدار چھوڑ دے ۔ہم حکومت کا اپنے مفادات کیلئے اپنے شہیدوں کا لہو بیچنے کی اجازت نہیں دے سکتے ۔

ایک مطالبہ یہ بھی سامنے آیا ہے کہ ان تمام مدارس پر پابندی عائد کی جائے جہاں دہشت گردی کی تعلیم دی جارہی ہے اور باقی مدارس کو اس بات کا پابند بنائے کہ وہ اپنے مدارس میں صرف اپنے علاقہ کے طالب علموں کو داخلہ دے سکتے ہیں ۔دور دراز کے علاقوں سے بچے لاکر انہیں دہشت گردی کی تعلیم نہیں دے سکتے۔کچھ دانشوروں نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ حکومت کو چاہئے کہ وہ ملک میں حقیقی اسلامی نظام حکومت کا نفاذ کردے اور قاتلوں کو اسلام کے مطابق سزائے موت دے۔ تمام سرکاری ہائی اسکولوں اور کالجوں میں درس ِ نظامی کی تعلیم کا سلسلہ شروع کرکے ملک بھر سے تمام ایسے مدارس بند کردے جو بچوں کو صرف مذہبی تعلیم دیتے ہیں۔

اگرچہ یہ تمام مطالبات بظاہر بڑے خوبصورت نظر آتے ہیں مگر ان پر عمل درآمد سے مسائل کا فوری حل ممکن نہیں۔ سوال وہی عمران خان والا سامنے آجاتا ہے کہ اس جنگ کا انجام کیسے ممکن ہے ۔کیا طاقت کے زور سے ہم تمام طالبان نواز دماغوں کو ختم کر سکتے ہیں ۔بے شک ہم طالبان کو تو مار دیں گے مگر اس ذہن کا کیا کریں گے ۔میرا ذاتی خیال ہے کہ اس طرح کے معاملات میں قوموں کو بڑے بڑے اور مشکل فیصلے کرنے پڑتے ہیں ۔اس لئے وہ لوگ جو طالبان سے کسی طرح کی کوئی ہمدردی رکھتے ہیں انہیں ایک مختصر دورانیہ دے کرطالبان سے مذاکرات کا پورا موقع دیا جائے تاکہ ان پر بھی روز ِ روشن کی طرح واضح ہوجائے کہ پاکستانی قوم کے پاس اس ناسور کو کاٹ دینے کے سوا کوئی راستہ نہیں۔ اور ہاں خدانخواستہ اگر یہ ناسور جلدی نہ کاٹا گیا تو اس کے کینسر بننے کے قوی امکان ہیں۔

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے