
آپریشن سے مرہم پٹی تک
آپریشن سے مرہم پٹی تک
اس وقت آپریشن کا بہت چرچاہے ہے۔تقریباً تمام اہم سیاسی پارٹیاں آپریشن کے آپشن پر متفق ہوتی نظر آرہی ہیں۔اس وقت آپریشن تھیٹر سجادیا گیا ہے۔ڈاکٹروں اور نرسوں نے اپنے مخصوص لباس پہن لئے ہیںاور مریض کو بے ہوشی کے انجکشن دئیے جارہے ہیںیعنی یہ کہا جا سکتا ہے کہ آپریشن تقریباً شروع ہوچکا ہے مگرشدت پسندی کے خلاف فوجی آپریشن تو وہی آپریشن ہے جو آپریشن تھیٹر میں جاری ہے۔ سوال یہ ہے کہ مریض جب آپریشن تھیٹر سے باہر آئے گا تو پھر کیا ہوگا۔زخم کی مرہم پٹی کیسے ہوگی۔میرے خیال میںیہ زخم کو جراثیم سے محفوظ رکھنے والا دوسرا حصہ فوجی آپریشن سے کہیں زیادہ اہم ہے ۔بے شک فوجی آپریشن سے اس حصے کو کاٹ دیا جائیگا جو ناسور بن چکا ہے۔مگر ہم نے ابھی تک زخم کے باقی حصے کا کچھ نہیں سوچا وہ حصہ جسے صاف کرنےاور دوبارہ جراثیم سے بچانے کی ضرورت ہے۔اتنے بڑے آپریشن کے بعد مہینوں تک مسلسل مرہم پٹی کی ضرورت ہے ۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ یہ مرہم پٹی کیسے ممکن ہوسکتی ہے ۔اس حقیقت سے تو کسی کو انکار نہیں کہ قبائلی علاقہ جات میں رہنے والے لوگ برسوں سے بنیادی ضروریات سے محروم چلے آرہے ہیں۔ وہاں تعلیم اور صحت کے شعبوں میںکام نہ ہونے برابر ہواہے۔ہم نے وہاںاسی قدیم معاشرت کو برقرار رکھاہے جو جنگل کی شہریت کے قریب ترین ہے۔ہم نے وہاں وہی قانون رہنے دیا جسے ایک صدی پہلے انگریزوں نے رائج کیا تھا۔جسے دنیا کی کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ہم نے وہاں کے انتظامی معاملات کی طرف کبھی توجہ نہیں دی۔ ہمارے جو جرائم پیشہ افراد وہاں جا کر رہنے لگتے تھے ہم انہیں بھول جاتے تھے۔ہم نے وہاں اسکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے قیام کے بارے میں کبھی غور نہیںکیا۔ جدید نظام تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے وہاں مدارس کو مقبولیت حاصل ہوئی ۔ماضی کی حکومتوں نے بھی انہی مدارس کی ترویج کو بہتر سمجھا۔وہاں صرف ایک مخصوص نقطہ نظر کی تعلیم دی جاتی ہے اور مجاہد تیار کئے جاتے ہیںیہ سلسلہ اس وقت بہت زیادہ عروج پر پہنچ گیا تھا جب افغانستان میں روس کے خلاف جہاد شروع ہوا اورامریکہ نے ان مدارس کے لئےبڑی فنڈنگ فراہم کی ۔ان مدرسوں سے پڑھے ہوئے لوگ جدید علوم حاصل نہ کرسکے۔انہیںدنیا کے ساتھ مل جل کر رہنے کا کچھ اندازہ نہ ہوسکا۔یہ بات انہیں دیگر انسانی معاشروں سے اور بھی دور لے گئی۔
جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تووہاںکے لوگوں نے اپنے افغان بھائیوں کا ساتھ دینے کو ایک مذہبی فریضہ سمجھا۔وہ پہلے بھی اپنے افغان بھائیوں کے ساتھ مل کر روس کے خلاف ایک جنگ لڑ چکے تھے ۔سووہا ں سےلشکر تیار ہو کر افغانستان جانے لگے ۔دوسری طرف حکومت ِ پاکستان پر امریکی دبائو بڑھا اور اس نے کوشش کی کہ یہ مجاہدین افغانستان کے معاملات میں شریک نہ ہوں تو مسائل جنم لینے لگے ۔سرحدی راستوں پر فوجی پہرے داروں نے جب انہیں افغانستان جانے سے کسی حد تک روکا تو انہوںنے پاکستانی فوج کے خلاف کارروائیوں کا آغاز کر دیااور جب حکومت نے وہاں اپنی رٹ قائم کرنا چاہی تووہاںموجود کمزور حکومتی نظام ریت کی دیوار ثابت ہوا۔وہ نظام جوپولٹیکل ایجنٹ کی وساطت سے کام کرتا تھاوہ مفلوج ہو کر رہ گیا ۔کئی علاقوں سے تو انہوں نے تقریباً اس نظام کو اکھاڑ کرہی پھینک دیا۔پہلی بارپاکستان کے ارباب اقتدار نے سوچا کہ یہاں کسی نظا م کی ضروت ہے وگرنہ ہم نے تو وہاںکبھی کوئی نظام رائج کرنے کی کوشش ہی نہیں کی تھی بلکہ اسے ’’علاقہ غیر ‘‘کہتے ہوئے ہمیں کوئی پریشانی نہیں ہوتی تھی ۔ہم یہ سوچتے ہی نہیں تھے کہ پاکستان کا ایک علاقہ پاکستانیوں کی نظر میں علاقہ غیر کیوں ہے ۔وہاں کے نظام کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ یہ علاقے پاکستان کے آئین کے مطابق سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار میں بھی نہیں آتے ۔ستائیس ہزار دو سو بیس مربع میل پر پھیلے ہوئے اس علاقہ میں تقریباً چوتیس لاکھ کے قریب لوگ آباد ہیں۔اس میں سات ایجنسیاں اور چھ ملحقہ سرحدی علاقے شامل ہیں اوراس وقت سوال یہ ہے کہ اگر شمالی وزیرستان میں آپریشن کردیا جاتا ہے وہاںسے طالبان مکمل طور نکل جاتے ہیںیا ختم ہوجاتے ہیں تو اس کے بعد وہاں متبادل نظام کیا ہوگا۔
میرے خیال میں اس مسئلہ کا حل اس وقت تک ممکن نہیں جب تک آئین میں ترمیم نہ کی جائے۔سو ضروری ہے کہ پارلیمنٹ میں موجودہ ساری جماعتیں مل کر آئین میں شمالی علاقہ جات کی حیثیت تبدیل کریں وہ تمام علاقے جہاں انگریزوں کادیاہواقبائلی قانون اب تک رائج ہے اسے تبدیل کرکے وہاں وہی نظام نافذ کیا جائے جو پورے ملک میں ہے تاکہ قبائلی عوام الگ تھلگ رہنے کی بجائے ملک کے اجتماعی دھارے میں شریک ہوسکیں۔وہاں عدالتیں بنائی جائیں، تھانے قائم کئے جائیں۔اسلحہ کے لائسنس جاری کئے جائیں۔تمام علاقے کو اضلاع میں تقسیم کرکے باقاعدہ اسے صوبہ پختون خواہ کی انتظامیہ کے حوالے کیا جائے۔وہاں ہر شخص کو ووٹ کا حق دیا جائے تاکہ وہاں کے لوگ حقیقی جمہوریت سے آشنا ہوسکیں۔
اور یہی وقت ہے ۔ آپریشن کے دوران حکومتی نظام فوج کی مدد سے آسانی کے ساتھ رائج کیا جاسکتا ہے ۔اور جب قانون نافذ کرانے والے اداروں کوپورے علاقے پر مکمل کنٹرول حاصل ہوجائے تو فوج ان علاقوں سے سہولت کے ساتھ واپس آجائے گی ۔میرے خیال میں یہی ایک کامیاب آپریشن کی صورت ہوسکتی ہے ۔وگرنہ یہ فوجی آپریشن فوری علاج تو قرار دیا جا سکتا دیر پا نہیں۔

