ہیر رانجھا ڈے. منصور آفاق
دیوار پہ دستک

ہیر رانجھا ڈے

ہیر رانجھا ڈے

منصورآف

آج چودہ فروری ہے اور یار لوگ ویلنٹائن ڈے منانے کی ڈٹ کر مخالفت کر رہے ہیں۔کئی کیدو ڈنڈے اٹھائے گلیوں میں پھر رہے ہیں کہ کہیں کوئی ہیر یا رانجھا نظر آئے تو اس کی اچھی طرح پذیرائی کی جائے ۔

کئی حکومتی کھیڑوں نے تو باقاعدہ پابندیوں کے اشتہار علاقائی کیبلز پر آن ایئر کرادئیے ہیں ۔سو کئی شہروں کی گلیوں میںرانجھے بھیس بدل بدل کر پھر رہے ہیں کہ کہیں کھیڑوں یعنی پولیس والوں کے ہاتھ نہ لگ جائیں مگر زیادہ تر علاقوں میںاِس دن کی بہاریں پوری آب و تاب پر ہیں۔ یار لوگوں کے غصے کا سبب صرف اتنا ہے کہ اِس دن کا تعلق کافروں کے ساتھ ہے مسلمان اسے کیوں منا رہے ہیں ۔کچھ بھولے بھالے تہذیبی طور پربھی اسے منانے کے حق میں نہیں کہ اس تہوار کا تعلق ہماری تہذیب و ثقافت سے نہیں ہے ۔وہ کہتے ہیں ہمیں محبت کا دن منانا چاہئے مگر دوسروں کی محبت نہیں اپنوں کی محبت کا ۔

وہ چاہتے ہیں کہ ’’ہیررانجھا ڈے ‘‘منائیں۔شایدانہی میں سے کچھ لوگ جھنگ میںہیر کے مزار پر بھی یہ دن مناتے ہیں۔ان کی یہ خواہش بری نہیں کہ اس دن کو پورے پاکستان میں منایا جائے مگرکل گجرات کے کچھ لوگ’’ سوہنی مہیوال ڈے‘‘ منانے پربھی بضد ہوسکتے ہیں۔ پرسوںتھل مارو اور تخت ہزارہ والے’’ سسی پنوں ڈے‘‘ منانے کی فرمائش بھی کر سکتے ہیں ۔ترسوں’’مرزا صاحباں ڈے‘‘ والے بھی اٹھ کھڑے ہوسکتے ہیں۔سو اپنا محبت کا کوئی دن منانے کا فیصلہ کرتے ہوئے ان تمام مسائل کو بھی نظر میں رکھا جائے ۔کچھ لوگ اِسے اس لئے بھی پسند نہیں کرتے کہ نوجوان اسے مناتے ہوئے غیراخلاقی حرکات تک پہنچ جاتے ہیں جو واقعتا بری بات ہے۔ مگر نوجوانوں کا کیا کیا جائے وہ تو سال کے بارہ مہینے غیر اخلاقی حرکتوں میں مصروف رہتے ہیں۔ جب تک خانہ آبادی نہیں ہوتی یعنی شادی نہیں ہوتی۔ اس دن کے منانے کے خلاف بڑ ے بڑے دلائل موجود ہیںیعنی انکار کی گنجائش ہی نہیں۔ہمارے لئے یہی کافی ہے کہ محبت کا یہ بدبخت دن مغرب کے نگار خانے سے برآمد ہوا ہے ۔اہل مغرب بھی عجیب لوگ ہیں یونہی دن مناتے رہتے ہیں۔کبھی مدر ڈے منا کر دنیا بھر کی تمام مائوں کو خوش کر دیا تو کبھی فادر ڈے کے نام پر دنیا بھر کے باپوں کو بے وقوف بنالیا ۔یہ محبت کا دن بھی اسی طرح کی ان کی ایک اختراع ہے۔اس دن کوکسی کے نام سے منسوب کرنا تھا۔سوبیچارے پوپ ویلنٹائن کو بدنام کردیا جسے محبت کی وجہ سے مرنا پڑگیا تھا۔
اس دن کے حق میں دلیلیں لانے والے دانشور بھی کسی سے کم نہیں۔کہتے ہیںکیا ہوا جو اس دن کا تعلق ہمارے مذہب یا اسلامی تہذیب و ثقافت سے نہیںہے ۔ہم پاکستانی بہت سے تہوار ڈنکے کی چوٹ پرمناتے ہیں جن کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ۔مثال کے طور پر ہم پیچ لڑاتے ہیں یعنی بسنت مناتے ہیں ۔ آتش بازی کرتے ہیںحتیٰ کہ شب برأت پر بھی۔ بزرگوںکے عرس پرمیلے لگاتے ہیں۔ دھمالیں ڈالتے ہیں۔

قوالیاں کرتے ہیں۔ ہر ضلع میں ایک مخصوص دن کو جشنِ بہاراں منایا جاتا ہے۔ جس میںموسیقی کی محفلوں کا انعقاد ہوتا ہے۔ تھیٹرلگائے جاتے ہیں۔ رقص کیا جاتا ہے ۔ہر ضلع کی آرٹس کونسل اپنے دن مناتی ہے ۔جن میں ڈرامے اور فلمیں دکھائی جاتی ہیں۔ یار لوگوں کو اگراِن تمام دنوں سے کوئی تکلیف نہیں تو بیچارے پوپ ویلنٹائن نے کونسی ان کی گائے چرالی تھی۔ ایک بڑی مذہبی شخصیت سے جب ڈرتے ڈر تے میں نے یہی سوال کیاکہ ویلنٹائن ڈے کا مسئلہ کس طرح حل کیا جائے۔ پاکستانی قوم یہ دن منانے پر تلی ہوئی ہے مگر راستےمیںکچھ شدت پسند حائل ہیں تو انہوں نے بردباری سے کہا’’ اگر اس دن میں کوئی غیر اسلامی کام نہ کیا جائے اور اسے دین اسلام کی کسی محبت کرنے والی شخصیت سے منسوب کردیا جائے تو یہ دن منانا بری بات نہیں ۔جہاں تک مخالفت کی بات ہے تو کچھ عرصہ پہلے کچھ علمائے کرام سالگرہ منانے کی بھی مخالفت کرتے تھے بلکہ کرسمس منانے کو تو اب بھی گناہ سمجھتے ہیں حالانکہ ’’کرسمس دراصل ’’میری کرسمس‘‘ ہے یعنی مریم کے بیٹے کی پیدائش کی خوشی منانا اور اسلام ہمیں کسی طور پر بھی اسے منانے سے نہیں روکتا۔ مگر ان کچھ شدت پسند لوگوں کو کیا کہا جائے یہ تو عید میلادالنبیؐ منانے کے بھی خلاف ہیں۔‘‘

کچھ لوگوںکے خیال میں ویلنٹائن ڈے کی مخالفت کرنے والے اندر سےشدت پسند ہیں۔وہ اپنی تنگ نظری تمام معاشرے پر تھوپ دینا چاہتے ہیں ۔یہ وہی لوگ ہیں جن کی وجہ سے پاکستان میں دہشت گردی کو فروغ مل رہا ہے مگرمیں کیا کروںمجھے تو اس حمام میں ملائیشیا میں قیام پذیرایک پاکستانی عالم دین بھی دکھائی دے رہے ہیں ۔انہوں نے بڑی دلسوزی سے کہا ہے ’’ہر گزرتے سال ، میڈیا کے زیر اثر، ہمارے ملک میں بھی اس(ویلنٹائن ڈے ) کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ہم مغرب سے آنے والی ہر چیز کے مخالف نہیں، مگر کسی دوسری قوم کے وہ تہوار ،جن کا تعلق کسی تہذیبی روایت سے ہو، انھیں قبول کرتے وقت بہت محتاط رہنا چاہیے۔یہ تہوار اس لئے منائے جاتے ہیں تاکہ کچھ عقائد وتصورات انسانی معاشروں کے اندر پیوست ہوجائیں۔ مسلمان عیدالاضحی کے تہوار پر حضرت ابراہیم کی خدا سے آخری درجے کی وفاداری کی یاد مناتے ہیں۔آج ہم ویلنٹائن ڈے مناتے ہیں تو گویا ہم اس نقطہ نظر کو تسلیم کررہے ہیں کہ مردو عورت کے درمیان آزادانہ تعلق پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ ‘‘

ویلنٹائن ڈے کے حق میں بولنے والے کے خیال میں یہ ویلنٹائن ڈے منانے والوں پر الزام ہے ۔کیونکہ پاکستان میں کوئی شخص دائرہ نکاح سے باہر کسی طرح کے جسمانی تعلق کو ظاہر نہیں کرسکتا اور نہ لوگ ایسے تعلق کو قبول کرتے ہیں ۔ ہر پاکستانی مسلمان کی محبت نکاح پر ہی منتج ہوتی ہے اور پھردنیا بھر میں ہر مذہب کے لوگ اس دن کو صرف محبت کے دن کے طور پر مناتے ہیں ۔ہاںمحبت کا طریقہ ہر مذہب اور تہذیب کا اپنا اپنا ہے ۔مغرب کا اپنا ہے۔ مشرق کا اپنا۔بحث بڑی گمبھیر ہوگئی ہے ۔میں تو’’ہیر رانجھا ڈے ‘‘منانے نکلا تھا۔

mansoor afaq

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے