ہیجان انگیزدن
منصورآفاق
’’ہیجان انگیز ابلاغی یلغار‘‘ کے نام سے ڈاکٹر صغری صدف کی ایک خصوصی تحریر شائع ہوئی ۔اس سےپاکستان میں میڈیا کے کردار پر ایک نئی بحث کا آغاز ہوا ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈاکٹر صاحبہ نے وہ تحریر بڑی درد مندی سے لکھی ہے ۔مگر انہیں اس بات کا احساس نہیں ہو سکا کہ یہ وہ نقطہ نظر ہے جو ہردور میں اہل ِ اقتدارکو پسند رہا ہے ۔سو اس تنا ظرمیں ،میں اُس کالم کے ایک ایک لفظ سے اختلاف رکھتا ہوں ۔ میرے نزدیک اگر کوئی معاملہ ہیجان انگیز ہے تو اس کا ویسا ہی ابلاغ ہو نا چاہئے جیسا وہ ہے۔مصلحت کے نام پرحقائق کو مسخ کرنے والوں کو تاریخ کبھی معاف نہیں کرتی ۔
کہیں کسی نے کسی کو قتل کردیا ہے اور اخبار میں اس وقوعہ کی خبر پڑھ کر محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے کسی بتِ ناوک فگن ،کسی حسن ِ قاتل ادانے کسی دل والے کی جان لے لی ہے تو یہ قتل کی ہولناکی کا قتل ہے۔یہ دروغ ِ مصلحت آ میز نہیں ۔فریب ِ سبک سر ہے ۔اِس دو نمبر کے مثبت عمل سے حکمران تو خوش ہو سکتے ہیں مگر مقتول کی روح برزخ میں بھی تڑپ تڑپ اٹھے گی ۔میڈیا کو وہی کہنا ہے جو اس کی آنکھوں نے دیکھا ہے ۔اُس کے کانوں نے سنا ہے۔
اب اگر چیف جسٹس نےکہا ہےکہ تمام اداروں کا دیوالیہ ہو چکا ہے ۔گڈگورننس نام کی کوئی شے ملک میں موجود نہیں تو میڈیا اسے کس طرح پیش کرتا ۔کیا جھوٹ بولتا یا گول مول کرتا کہ چیف نے اداروں کی گڈ گورننس کی بات کی ہے ۔اگر ایک معزز جج نے کہہ دیاہے کہ قائم علی شاہ کے ہوتے ہوئے عوامی بھلائی کا کوئی کام کیسے ہوسکتا ہے ۔اب اگر میڈیا اسے اس طرح توڑ موڑ کر پیش کرتا کہ عوامی بھلائی قائم علی شاہ کے ساتھ جڑی ہوئی ہے توسچ شرم سے منہ نہ چھپا لیتا۔ تھر میں غذائی قلت کے سبب جب معصوم بچےمرنے لگے تھے تواس وقت قوم کو اس المیے کی طرف میڈیا متوجہ نہ کرتا تو میں اُس چلو بھر پانی میں ڈوب مرنے کا مشورہ دیتا ۔اگر پاناما لیکس پر پاکستانی میڈیا کے لائوڈا سپیکر نہیں جاگتے تو کیا پاکستانی میڈیا نہ صرف دنیا بھر میںذلیل و رسوا ہوتابلکہ پاکستانی قوم کو منہ دکھانے کے قابل بھی نہ رہتا۔اب اگر یہ بات کہ نواز شریف کے پاس اپنی جگہ کسی اور کو وزیر اعظم بنانے کا جو آپشن موجود ہے ،چند دن کے بعد وہ ختم ہوجائے اگر میڈیا عوام کو نہ بتائے تو پھر وہ میڈیا نہ ہوا وزیر اطلاعات کا دفتر ہوگیا۔دراصل میڈیا کسی سیاسی نظریئے کا نام نہیں۔ میڈیاکوئی سیاسی جماعت نہیں ۔میڈیا صرف سچ کے اظہار کا نام ہے ۔تمام تعصبات سے مبرا اظہار تحریک ہے۔آسکر وائلڈ نے جب کہا تھاکہ’ نظریاتی اور سیاسی وابستگی ایک فنکار کیلئے نا قابل معافی جرم ہے ‘‘تو مجرموں کا ایک جم غفیر اسے حرف حرف مصلوب کرنے کیلئے گلیوں میں نکل آیا تھا وہ اعتماد کے کسی سفاک لمحے سے بار بار مجروح ہوا ۔مگراس نے قلم کومعاشرتی مسائل کے حل کی کی قربان گاہ کی نذر نہیں ہونے دیا ۔یہ کل کی بات ہے اور آج اس کا حرف حرف ستارہ ہے اور آج کا قاری اسی اختر شماری کو حاصل ِ علم و قلم سمجھتا ہے ۔ادیب ،کالم نگار یا صحافی مغرب کا ہو یا مشرق کا ۔وہ ہزار بار مصلوب ہو کر بھی اپنے لفظ اور اپنی آوازکی ضو میں بار بار جنم لیتا رہتا ہے اسی کو سچ کہتے ہیں ۔یہی روشنی ہے ۔
جہاں تک صحافت سے معاشی اور سماجی الجھنوں کے سلجھانےکا تعلق ہے تو وہ اُسی طرح ہے جیسے منو بھائی کے کسی ڈرامے سے قومی اسمبلی کی کارروائیوں کے نتائج اخذ کئے جائیں ۔سچاتحقیقی اورتخلیقی عمل ہر طرح نظریات سے بلند تر ہوتا ہے ۔کالم نگار صرف سچ لکھتاہے ۔ صحافی جو کچھ دیکھتا ہے اسی کی تفہیم کرتاہے ۔ میڈیا کا کام صرف اور صرف لوگوں کو سچ کی کمک دینا ہے ۔حقائق سے روشناس کرانا ہے ۔زندگی کی تلخیوں سے، چہروں سے نقاب نوچناہے ۔معاشرے کے جسم کی جراحی ہے ۔مکروہ چہروں کو آ ئینہ دکھاناہے ۔میڈیا اُس بددیانت افسر کا داغ دار چہرہ بار بار دکھاتا ہے جس نے کرپشن کی ہے اور ہاں کسی دیانت دارافسرکی ایمان داری کی تعریف و توصیف میں کچھ کہنا قطعاً میڈیا کا کام نہیں ۔کیونکہ کسی کادیانت دار ہونا معمول کی بات ہے ۔ ہر افسر کو دیانت دار ہونا چاہئے مگر بدیانت ہوناغیر معمولی بات ہے اور اسے معاشرے میں غیر معمولی بات ہی رہنا چاہئے۔ڈاکٹر صغریٰ صدف نے اپنی خصوصی تحریر میں یہ بھی لکھا ہے۔ ’’میڈیا کوبہترین اپوزیشن کا کردار ادا کرنا چاہئے ۔‘‘۔میرے نزدیک میڈیا کوئی سیاسی پارٹی نہیں۔اُس کو اقتدار نہیں حاصل کرنا۔سڑکیں تعمیر کرانا۔اسکول قائم کرنا ۔اسپتال کھولنا میڈیا کا کام نہیں ہے ۔ میڈیا کا کام ٹوٹی سڑکوں کی نشان دہی ہے۔خستہ حال اسکولوں کی عکاسی کرنا ہے ۔مریضوں سے ابلتے ہوئے اسپتالوں کے منظر دکھانا ہے ۔انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ ’’اس وقت میڈیا نے ذہنی طور پر قوم کو مسلسل خلفشار میں مبتلا کر کے ایک ہیجان انگیز فضا قائم کررکھی ہے ۔‘‘
بے شک میڈیا نے سچ لکھ کر ، سچ سنا کر ، سچ دکھا کر قوم کو ذہنی خلفشار میں مبتلا کردیا ہے مگر اسی ذہنی خلفشارکے سبب قوم مسائل کے حل کی تلاش میں متحرک ہوئی ہے۔خدا نخواستہ اگر میڈیا انہیں سچ کی تلخی دکھانے کی بجائے جھوٹ کے چمکتے دمکتے ہیرے دکھاتا تو کیا ہوتا۔یہی قوم کرپشن کی جس کھائی کی آخری تہہ میں گرنے جارہی ہے ۔اسی میں گرپڑتی ۔اب بہتری کی امید کے کئی چراغ جل اٹھے ہیں ۔کئی ستارے روشن ہوگئے ہیں ۔کئی چاند لبِ بام آ گئے ہیں ۔وگرنہ وہ زمانہ جب میڈیا زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا۔اس زمانے میں قوم کی آنکھوں میں سلائیاں پھری رہتی تھیں ۔ جنرل ایوب کا مارشل لا دس گیارہ سال رہا کہ میڈیا پورا سچ نہیں دکھا سکتا تھا ۔ جنرل ضیا کا دوربھی اسی لئے اتنا طویل رہا کہ عوام حقائق سے پوری طرح روشناس نہ ہوسکے ، جنرل پرویز مشرف نے جیسے ہی میڈیا کو مکمل آزاد کیا تو اس کادور اقتدار سکڑتا چلا گیا۔میڈیا پر کسی طرح کی قدغن بھی لگانا عوام کے ساتھ نا انصافی ہے۔ میڈیا نہ خواب دکھانے کا عمل ہے اورنہ ہی روٹی کپڑا اور مکان کے حصول کی سیاسی داستان درد ہے ۔میڈیا کی آنکھیں حقیقت کی آنکھوں میں گڑی ہوئی ہیں ۔میڈیا تو آگہی کا نام ہے۔وہ انسان کی اُس ضرورت کو پورا کرتا ہے جس سے شخصیت کے خلا پُر ہوتے ہیں۔جس سے شیشے کے بت کرچیاں کرچیاں ہو کر گلیوں میں بکھر جاتے ہیں ۔میڈیا زندگی کے کسی ایک حصہ کا نہیں پوری زندگی کا عکاس ہے۔سو اسے پوری زندگی پر ہی محیط ہو نا چا ہئے ۔میڈیا چاہے کچی نالیوں کے کناروں پر پرورش پانے والے کیڑوں کے مسائل بیان کرے یا نامعلوم پھولوں سے خوشبو کشید کرے یہ اُس کا اپنا حق ہے ۔ مگریہ کام کرتے ہوئے میڈ یا کو خودتھانیدار ، تحصیلدار ،مولوی ، خاکروب یا سیاست دان نہیں بنناچاہئے۔
ڈاکٹر صاحبہ نے یہ بھی لکھا کہ’’ بریکنگ نیوز میں تو مخصوص چٹخارے دار زبان و بیان اور غیراہم موضوعات کو بلند آ ہنگ میں یوں نشر کیا جاتا ہے جیسے قیامت دروازے پر کھڑی ہو‘‘جہاں تک میڈیا کی زبان کا تعلق ہے تو وہ وہی ہوتی ہے جو عوام بولتےہیں ۔ہمیشہ روزمرہ کی زبان ہی میڈیا کی زبان ہوا کرتی ہے ۔جہاں تک غیر اہم موضوعات کو بلند آہنگ انداز میں نشر کرنے کی بات ہے تو یہ طے کرنا کہ کونسا موضوع غیر اہم ہے اور کونسا اہم ہے بحث طلب معاملہ ہے ۔نواز شریف کےلئے جو بات بالکل غیراہم ہوسکتی ہے وہی بات عمران خان کےلئے اہم ترین بھی ہوسکتی ہے ۔میں پاکستانی میڈیا کو اس کے عظیم کردار پر مبارک باد دیتا ہوں۔بہر حال یہ طے ہے کہ پاکستان قوم ان دنوں کسی ہیجان انگیز کیفیت سے گزررہی ہے ۔۔
mansoor afaq
Like this:
Like Loading...