ہم کو امید ہے دیوار کے وا ہونے کی۔ منصور آفاق
دیوار پہ دستک

ہم کو امید ہے دیوار کے وا ہونے کی

ہم کو امید ہے دیوار کے وا ہونے کی

منصور آفاق

میں نے کسی زمانے میں کہا تھا

ہر قدم پر کوئی دیوار کھڑی ہونی تھی
میں بڑا تھا مری مشکل بھی بڑی ہونی تھی

عمران خان کا معاملہ بھی مجھے اِسی شعر سے ملتا جلتا دکھائی دیتا ہے ۔وہ بھی انصاف کی تلاش میں جس سمت جاتے ہیں سامنےکوئی دیوار کھڑی ہوتی ہے یا کھڑی کر دی جاتی ہے ۔جنہیں بڑی حکمت اور چالاکی سے گرانا پڑتا ہے ۔یعنی یہ کام کوئی عمر رسیدہ عمرو عیارہی کر سکتا ہے۔ایک فوک کہانی ہے کہ دلہن والوں نے شرط عائد کی کہ بارات میں کوئی بزرگ آدمی نہیں ہوگا ۔شر ط تسلیم کر لی گئی ۔جب بارات منزل پر پہنچی تو انہیں ایک اینٹوں کی دیوار نظر آئی ۔ دلہن والوں نے کہا کہ دلہن کے لے جانے کےلئے ضروری ہے کہ یہ دیوار گرائی جائے مگر دیوار گرانے کےلئے صرف ایک اینٹ دیوار میں سے کھینچنے کی اجازت ہے ۔

بڑی دیر تک غور ہوتا رہا ۔ نوجوان دیوار کا جائزہ لیتے رہے مگر کسی ایسی اینٹ پر متفق نہ ہوسکے کہ جس کے کھینچنے سے ساری دیوار کا گرجانایقینی ہوجاتا ۔رات ہوگئی۔ مایوسی کے عالم میں اچانک پتہ چلا کہ بارات کا باورچی اپنی مدد کےلئے اپنے باپ کو دیگ میں چھپا کر ساتھ لایا ہوا ہے ۔جب اُس بزرگ کے سامنے مسئلہ رکھا گیا تواس نے جا کر اندھیرے میں دیوار پر ہاتھ پھیرا اور ایک اینٹ پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ یہ وہ اینٹ ہے جس کے کھینچنے سے دیوار گر پڑے گی ۔ صبح جب بارات نے دیوار گرا کر دکھائی تو دلہن والوں نے کہا تمہارے درمیان ضرور کوئی بزرگ آدمی موجود ہے ۔بہرحال وہ شرط جیت گئے ۔ عمران خان کے سامنے بھی جو دیوار کھڑی ہے اسے گرانے کےلئے بھی صرف ایک اینٹ نکالنے کی ضرورت ہے مگر ابھی تک عمران خان اُس اینٹ تک نہیں پہنچ رہے جس کے کھینچنے سے اس فرسودہ نظام کا راستہ روکنے والی دیوار زمین بوس ہوسکتی ہے۔

دوسری طرف نون لیگ نے بڑے بڑے بزرگ جمع کر رکھے ہیں ۔نون لیگ کے دامن میںتونوے نوے سال کےبزرگ بھی موجود ہیں۔جنہوں نے ساری زندگی دیواریں بنانے اور گرانے کا کام کیا ہے۔انہیں معلوم ہے کہ وقت کی رفتار کو کیسے سست کیا جاتا ہے ۔بے شک وقت نے ایک روز خود ہی اِن بوسیدہ دیواروں کو گرا دینا ہوتا ہےمگر میرے خیال میں آج کل اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ وقت کی رفتار تیز کرنے کےلئے اُس کی مدد کی جائے ۔اس میں بھی شک نہیں کہ عمران خان اٹھارہ سال سےمسلسل وقت کی امداد میں مصروف عمل ہیں مگرجن لوگوں نے دیوارکو سہاررکھا ہے وہ بھی کچھ کم نہیں ۔یہ جوابھی وزیر داخلہ کو گھر بھیجنے کا بندوبست کیا گیا ہے اس کے پیچھے بھی ایسے ہی کسی بزرگ کے ذہن ِ رسا کا باریک کام ہے ۔ قاضیوں کی عظمت اور فیض سے ایسے چراغ جلا لینا ہر کسی کے بس کا روگ نہیں کہ سانپ بھی مر گیا ہے اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹی۔ پیپلز پارٹی سے کیا گیا تازہ ترین بھی پورا ہو گیا ۔اب تو لگ رہا ہے کہ بلاول بھٹو کے کئی مطالبات27 دسمبر سے پہلے پہلے پورے ہوجائیں گے۔بیچارےاعتزاز احسن ،ندیم افضل چن ، قمر زمان کائرہ اور فیصل کریم کنڈی منہ دیکھتے رہ جائیں گے ۔پیپلز پارٹی اور نون لیگ میں کوئی خلیج کوئی رخنہ کچھ بھی نہیں ڈالا جا سکے گا ۔

بہر حال سپریم کورٹ کی طرف سےجاری کردہ رپورٹ میں کئی حیرتیں حکومت کےلئے واقعتاً پریشانی کا سبب بھی بن سکتی ہیں خاص طور پرسپاہِ صحابہ، ملتِ اسلامیہ اور اہلِ سنت والجماعت کے نام سے کام کرنے والی ایک ہی تنظیم جس کے سربراہ مولانا محمد احمد لدھیانوی ہیں اور خود فورتھ شیڈول میں شامل ہیں اس کے باوجود وزیر داخلہ سے ملاقاتیں کرتے ہیں اور اپنے مطالبات تسلیم کراتے ہیں ۔حکومت انہیں اسلام آباد میںجلسہ کرنے کی اجازت دیتی ہے۔خیر اس بات کا ذکر رپورٹ میں تو نہیں ہے مگرپاکستان تو سارا جانتا ہے کہ اِسی تنظیم کے ایک شخص کونہ صرف الیکشن لڑنے کی اجازت دی گئی بلکہ اس کی فتح کا نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا گیا ہے ۔

دہشت گردی کے خاتمہ کےلئے وہ جو اکیسویں ترمیم کی گئی تھی جس کے تحت فوج کو اختیارات دئیے گئے تھے اور نیکٹا نام کا ایک ادارہ بنایا گیا تھاجس کی کار کردگی بظاہر توابھی تک زیرو ہے۔پتہ نہیں اب اُس کا کیا ہوگا کیونکہ اکیسویں ترمیم تو چند دنوں تک ختم ہونے والی ہے ۔اس رپورٹ میں وزیر داخلہ کے ساتھ تمام دہشت گردی کے سلسلے میں کام کرنے والی انٹیلی جنس ایجنسیوں کو بھی موردِ الزام ٹھہرایا گیا ۔خاص طور پر ایک اہم خفیہ ایجنسی کو۔پیپلز پارٹی کی حکومت بھی اس سے مطمئن نہیں تھی ۔اس دور میں بھی اس ادارے کووزیر داخلہ کے ماتحت کرنے کی ایک ناکام کوشش کی گئی تھی ۔اگر چہ نئے چیف جسٹس کی طرح اس خفیہ ادارےکے نئے سربراہ کے متعلق یہ افواہ گرم ہے کہ وہ بھی موجودہ حکومت کا اپناآدمی ہے اس کے باوجود لوگوں کا خیال ہے کہ یہ حکومت اس ادارے کے کردار سے مکمل طور پر کبھی مطمئن نہیں رہی ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا صرف وزیر داخلہ ،داخلہ کی وزارت کو چھوڑتے ہیں یا رپورٹ میں درج باقی باتوں پر بھی کوئی عمل در آمد ہوتا ہے ۔ امکان تو نہیں ہے مگر ہو سکتا ہے ۔کیونکہ یہ سارے معاملات بزرگوںکے مشورے سے ہی طے ہوئے ہیں وگرنہ دیوار کے وا ہونے کی بھلا کہاں کوئی صورت ہوتی ہے ۔

mansoor afaq

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے