
ہم عاشق اور معشوق امریکہ
ہم عاشق اور معشوق امریکہ
منصور آفاق
پاکستان کی خارجہ پالیسی کو بغور دیکھا جائے تو لگتا ہے جیسے امریکہ پاکستان کا معشوق ہے اور بھارت رقیبِ روسیاہ ۔اب تو مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے بھی کہہ دیا ہے کہ امریکہ مطلب پرست دوست ہے ۔پوری اردو شاعری میں بیچارہ معشوق ہمیشہ مطلب پرست ہی قرار پایا ہے مگر عشاق بھی میر تقی میر جیسے رہے ہیں
میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
میں امریکہ کو عطار کا لونڈا کہنے سے تو رہا مگر سادہ لوح پاکستانی خارجہ پالیسی کو میر تقی میرکی عاشقانہ پالیسی سے ضرور تعبیر کرتا ہوں ۔اردو شاعری میں معشوق کے ہاتھوں قتل ہونے کی بھی ایک روایت موجود ہے ۔غالب نے کہا تھا ۔کی مرے قتل کے بعد اُس نے جفا سے توبہ ۔سو اس محبت میں قتل ہونے کی بھی کئی داستانیں موجود ہیں ۔سب سے پرانی ایک سازشی کہانی تو پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم لیاقت علی خان کے قتل کےحوالے سے ہے جسے اسی معشوق کی نگاہ ِ ناز نے قتل کر دیا تھا ۔اس سازشی کہانی کے مطابق امریکی غیر تصدیق شدہ ذرائع کی جانب سے عام کی جانے والی انتہائی خفیہ معلومات سے ابھی چند دن پہلے معلوم ہوا ہے کہ لیاقت علی خان کوامریکہ نےافغان بادشاہ ظاہر شاہ کی مدد سے قتل کرایا تھا ۔یہ غیر تصدیق شدہ خبر 65 سال کے بعدمنظر عام پر آئی ہے ۔شاید امریکہ کےلئے ہی کسی شاعر نے کہا تھا ۔
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
یہ امریکہ سے ہمارا عشق ہی ہے کہ ہم نے اس کہانی کو بڑی بے توجہی سے ایک طرف پھینک دیا۔معشوق کی تو ہر ادا عاشق کواچھی لگتی ہے ۔اگر ایسی کوئی سازشی کہانی کسی اور ملک کے حوالے سے سامنے آتی کہ وہاں منتخب وزیراعظم کوسی آئی اے نےقتل کرایا تھا تو اُس ملک نے اس وقت تک امریکہ کے خلاف کیا کیا ہوتا ۔اس کا صحیح اندازہ ہم کرپشن کے جھولے میں سوئے ہوئے پاکستانی لگا ہی نہیں سکتے۔کوئی گیا گزرا ملک بھی ہوتا تو کم از کم اس نےاس سازشی کہانی کے سچ ثابت ہونے پر امریکہ کے خلاف اپنے وزیر اعظم کے قتل کے اقرار پرعالمی عدالتِ قانون میں مقدمہ ضرور دائر کردیا ہوتا ۔اور کچھ نہ ہوتاامریکہ کو قتل کے قصاص میں اربوں ڈالر ادا کرنے پڑتے مگر ہم اُس معشوق کو کیسے ناراض کر سکتے ہیں جس میں ہماری اشرافیہ کی جان ہے۔ جس کے ویزے کےلئے امریکی سفارت خانے کے باہر کھڑکی توڑ رش لگا ہوتا ہے پھر ایسے وقت تو اِس معشوق کو ناراض کیا ہی نہیں جا سکتا جب وہ ہمارے رقیب ِرو سیاہ یعنی بھارت سےاپنی پینگیں بڑھانے میں مصروف ہے ۔بے شک اس وقت ہم خاصے غصے میں ہیں کہ امریکہ نے ڈرون کے ذریعے بلوچستان میں ملا منصور کا قتل کیوں کیا مگر ہم نے اپنے غصے کا اظہار اتنا دھیما دھیما رکھا ہےکہ امریکہ نے ہماری بھنبھناہٹ سن کر صرف کان جھاڑدئیے ہیں یعنی دوچار لوگ ہمیں سمجھانے کےلئے پاکستان بھجوادئیے ہیں جو ہمیں حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی پر مجبور کر رہے ہیں ۔بار بار کہتے ہیں کہ طالبان کو مذاکرات کی میز لایا جائے ۔امریکہ اپنا معشوق ہے بھائی ۔سو کوئی بھی مطالبہ کر سکتا ہے ۔اسے یہ خیال ہی نہیں آ رہا کہ جن کے لیڈر کو پاکستان میں اس نے ڈرون مار کرقتل کیاہے ۔کیا وہ اتنے بے وقوف ہیں کہ اب بھی پاکستان پر اعتبار کریں گے ۔مگر امریکہ کو اس بات کی سمجھ نہیں آ رہی ۔افسوس کہ امریکہ نے بات صرف یہیں تک محدود نہیں رکھی ۔ہمیں جلانے کےلئے رقیب روسیاہ (بھارت )کے ساتھ شبِ وصال بھی منائی جارہی ہے ۔ ملا فضل اللہ اینڈ کمپنی کوافغانستان میں اپنے انجام تک پہنچانےکی بجائے ان پرنوازشات کی بارش شروع کردی ہے ۔
لوگ کہتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل ضیا بھی اِسی معشوق ِ مغرب کے ناوک ِ نیم کش کا شکار ہوئے تھے ۔71کی جنگ میں بھی ساتواں بحری بیڑہ کہیں راستے میں رہ گیا تھا ۔ہر ناصح نے ہمیں اس معشوق سے روکا۔بزرگ چیخ چیخ کر کہتے رہے کہ یہ حسن ناقابل ِ اعتبار ہے مگر ہم نے کسی کی نہیں سنی اور اب تو اپناحال بقول ِ فیض کچھ یوں ہے’’گر فکرِ زخم کی تو خطاوار ہیں کہ ہم ۔کیوں محوِ مدحِ خوبی ء تیغ ادا نہ تھے ‘‘شعر تو اردو کا ہے پھر بھی وضاحت ضروری لگ رہی ہے ۔ فیض نے فرمایا ہے کہ ہم اس لئے قصور وار ہیں کہ ہم نے اپنے زخم کی فکر کی ہمیں تو چاہئے تھا کہ ہم معشوق کی ادا کی تلوار کے وار کی مدح میں محو رہتے ۔واقعی ان دنوں امریکہ کا رویہ ہمارا ساتھ کچھ ایسا ہی ہے اوراوپر سے ہم اپنے زخم کی فکر میں لگے ہوئے ہیں۔کبھی ملا فضل اللہ کا نام لیتے ہیں ۔کبھی ڈرون حملے پر احتجاج بھی کرتے ہیں۔یقینا ہم ہی خطاوار قرار پائیں گے بلکہ قرار پا چکے ہیں تب ہی رقیب ِ روسیاہ کی بن آئی ہے ۔وہی جو کل تک راندہ ء درگاہ تھا جس کے امریکہ میں داخل ہونے پر بھی پابندی تھی ۔وہی امریکہ میں دولہا بنا ہوا ہے ۔کانگریس میں پھیرے ہورہے ہیں ۔
نیوکلیئر سپلائر گروپ کی رکنیت کی نگاہِ حمایت بھی اِ س وقت رقیب ِ روسیاہ کی جانب ہے ۔پاکستان کےلئے توہرلمحہ بدلتی ہوئی محبوبہ نے صرف اتنا کہا ہے کہ گروپ کی مرضی ہے وہ پاکستان کو رکنیت دے نہ دے ۔ویسے پاکستان نے بھی امریکہ کو جلانے کےلئے چین کے ساتھ جائز اور ناجائز دونوں تعلق رکھے ہوئے ہیں ۔سو جب مغربی محبوبہ بہت زیادہ آنکھیں دکھاتی ہے تو پاکستان چین کے گلے میںبانہیں ڈال کر گھومنے لگتاہے ۔اس وقت بھی اگر امریکہ نیوکلیئر سپلائر گروپ کی رکنیت کےلئے بھارت کی حمایت کر رہا ہے تو چین پاکستان کی بھرپور حمایت کےلئے وہاں موجود ہے ۔
بین الاقوامی تجزیہ نگار کہتے ہیں امریکہ زیادہ دیر تک پاکستان کو ناراض نہیں رکھ سکتا کیونکہ امریکہ سمجھتا ہے کہ ابھی افغانستان میں اس کا کردار ختم نہیں ہوا اور اب تو افغانستان میں امریکی فوج کے کردار میں توسیع کردی گئی ہے ۔اب پاکستان کو ناراض کرنے کے دو مطلب ہو سکتے ہیں ایک تو یہ کہ امریکہ نے پاکستانی سے ہمیشہ کی جدائی کا فیصلہ کرلیا ہے جو مستقبل میں کسی خوفناک لڑائی کا پیش خیمہ بھی ہو سکتا ہے ۔جس کا بظاہر کوئی امکان نہیں ۔دوسرا یہ کہ معمول کے مطابق امریکہ پاکستان پر معمولی سا دبائو بڑھا کر افغانستان میں اپنے مطلوبہ نتائج حاصل کرنا چاہتا ہے ۔
جنرل راحیل شریف کی موجودگی میں اگر چہ یہ ممکن ہے کہ پاکستان افغانستان میں امن کےلئے امریکہ کا ساتھ دے مگر جس طرح ملا منصور کو ڈرون حملے میں مار کر امریکہ نے ضرب عضب کو نقصان پہنچایا ہے ۔اس سے یہ سوال بہت زیادہ نمایاں ہو جاتا ہے کہ آخر امریکہ اصل میں چاہتا کیاہے ۔سوچنے والے یہ ماننے کو تیار نہیں کہ امریکہ مزاجاًکسی بہت ہی بدلحاظ معشوق کی طرح ہے ۔بہر حال کہیں چاند نکلا ہے یا نہیں ہم عشاق کی خارجہ پالیسی میں خاصا مدوجزرآیا ہوا ہے۔اور اگر واقعی کسی وقت امریکی ڈرون طیارے کو پاکستانی فورسز نے مارگرایا تو اس کے بعد کیا ہوگا ؟۔یہ سوال بھی جنم لے رہا ہے کہ کیا کسی اسی طرح کے واقعہ کی پیش بندی کے طور پر افغانستان میں امریکی افواج کے کردار میں توسیع کی گئی ہے۔
mansoor afaq

