کچھ سانوں مرن دا شوق وی سی
منصورآفاق
ہر طرف لوگ یہی کہتے پھرتے ہیں کہ ’’کسی رائفل کی اندھی گولی جمہوریت کے تعاقب میں ہے۔صاحبان ِ جمہوریت مانیں یا نہ مانیں جمہوریت کی زندگی خطرے میں ہے‘‘۔خدا نہ کرےکہ وہ موسم کبھی اسلام آبادکی گلیوں میں آئےجس میں قانون فردِ واحد کی جاگیر بن جاتا ہے۔ لوگوں کا یہ وہم وہم ہی رہے میں اتنا جانتا ہوں کہ افواج ِ پاکستان جمہوریت پہ شب خون نہیں مارنا چاہتیں۔مگرلگتا ہےکہ کچھ اہل سیاست اپنے مفادات کی قربان گاہ پرجمہوریت کو بھینٹ چڑھانا چاہتے ہیں اورشہیدہونے کی خواہش صاحب ِ اقتدار میں بھی ہے۔ (کچھ شہر دے لوک وی ظالم سن ، کچھ سانوں مرن دا شوق وی سی )۔ ایسا لگ رہا ہے کہ یہ بات طے ہوگئی ہے کہ وہ موسم آگیا ہے جس کے متعلق میر تقی میر نے کہا تھا۔موسم آیا تو نخلِ دار پہ میر ۔سر منصور کا ہی بار آیا۔
بظاہر جمہوریت پر ہونے والے امکانی قاتلانہ حملے کی ذمہ داری کوئی بھی قبول نہیں کر رہا۔ حکومت کےحق میں اور اپوزیشن کے خلاف بے شمار کالم نگار ایک طویل عرصے سے لکھ رہے ہیں (ہر حکومت کے حق میں اور ہر اپوزیشن کے خلاف )مگر وقت نے انہیں کبھی کچھ نہیں کہا۔ وہ پھر وہی کچھ کہہ رہے ہیں جو انہوں نے 93میں لکھا تھا۔جو وہ 99 میں لکھ رہے تھے ۔یہ وہی لوگ ہیں جو اپنے دل میں اسٹیبلشمنٹ کیلئے ایک نرم گوشہ بھی رکھتے ہیں اور اس کے خلاف تقریریں بھی فرماتے ہیں۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ خود حکمراں جمہوریت کوقتل کرنا چاہتے ہیں ۔
موجودہ جمہوریت کے دادا کانام برطانیہ تھا وہ ٹین ڈائون ا سٹریٹ میں عقل وحکمت کیا کرتے تھے ۔ان کے والدپروفیسر واشنگٹن سرمایہ دارانہ مزاج کے حامل تھے۔نیویارک یونیورسٹی میں پڑھاتے تھے اور معروف اخبار نویس تھے جمہوریت کی والدہ ماجدہ ملکہ برطانیہ بہت نیک خاتون تھیں۔جب جمہوریت پیدا ہوئی تھی تو اس نے اس کا نام رولز آف برٹش ایمپائررکھا تھا پھر یہ بچی بیمار ہوگئی اس کا بہت علاج کرایا گیامگرکوئی امید بر نہ آئی۔ ڈاکٹرز نے اسے تقریباً لاعلاج قرار دے دیا تھا۔ ڈاکٹروں اور حکیموں سے مایوس ملکہ برطانیہ اپنی لاعلاج بیٹی کواُس درویش کے پاس لے گئی جسے عوام کہتے ہیں ۔ اس درویش نے کہا کہ اس کا نام بدل دیا جائے تو یہ ٹھیک ہوجائے گی اس درویش کے کہنے پر اس بچی کا نام جمہوریت رکھ دیاگیا۔ وہ بچی نام بدلتے ہی چند سالوں میں صحت یاب ہوگئی۔ لوگ کہتے ہیں کہ جمہوریت کی تمام تر کامیابیوں کے پیچھے اسی درویش کی دعا ہے اسی کا فیض ہے جو ابھی تک جاری ہے ۔نوے سالہ بوڑھی ملکہ برطانیہ آ ج بھی ہر چار سال کے بعد اس بچی کو اسی درویش کے پاس لے جاتی ہےوہی بچی جب ہمارے ملک میں آئی تو اسے اُس درویش یعنی عوام کے پاس لے جانے والا کوئی نہیں تھا۔ ملکہ برطانیہ انگلینڈ میں رہ گئی تھی۔ قائداعظم اللہ کو پیارے ہو گئے تھے ۔ لیاقت علی خان کو سی آئی اے نے قتل کرا دیا تھا۔سو یہاں رضیہ غنڈوں کے گھیرے میں آگئی۔ درویش سے دعا لینے کا طریقہ بدل دیا گیا ۔اور پھر درویش نہ چاہتے ہوئے بھی غنڈوں کے حق میں ووٹ کاسٹ کرنے لگا۔مجبوریوں کے جال در جال ایک طلسم میں درویش جکڑاجا چکا تھا۔بے شک اسے ہمیشہ غنڈوں سے وطن کے چوکیداروں نے رہائی دلائی مگر اس کارِ خیر میں بڑے چوکیدار کی نیت کئی بار خراب ہوئی ۔بڑے چوکیدار کے اس عمل میں ہمیشہ سیاست دان شریک ِ جرم ثابت ہوئے ۔مگر ہمارے یہاں جزا سزا کے عمل کےلئے صرف قیامت کا ایک دن معین ہے ۔
کہانی ایک بار پھر اُسی موڑ پر ہے ۔ایک بار پھرحکومت اور اپوزیشن میں جنگ جاری ہے ۔کوئی بھی لوح و قلم قتل گاہ میں رکھنے پر آمادہ نہیں ۔اس ملک کواللہ تعالیٰ اپنی حفاظت میں رکھے۔صلح کی کوشش بھی اپنے عروج پر ہےاور لڑائی میں شدت آنے کا امکان بھی ہے ۔امید کی جاتی ہے کہ درویش کو غنڈوں سے چوکیدار رہائی دلائیں گے اور جمہوریت کا بستر گول بھی نہیںکیا جائے گا ۔ان دنوں درویش آف شور کمپنیوں کے زائچے بنانے میں لگا ہوا ہے ۔حکومت کے خلاف بھی اور حکومت کےحق میں بھی۔یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ ہر گلی کوچے میں حکومت کے خلاف تقریر یں کرنے والے اسے ووٹ دینے پر بھی مجبور ہیں ۔مسئلہ آف شور کمپنیوں کا ہے ۔جمہوریت کے دادا جان یعنی برطانیہ کی نظریں ان کمپنیوں میں پڑے ہوئے اربوں کھربوں ڈالرز پر لگی ہوئی ہیں ۔اسکی طرف سے منعقدہ عالمی اینٹی کرپشن اجلاس ابھی ابھی ختم ہوا ہے۔ اکتالیس ممالک کے اینٹی کرپشن کے سربراہان اس میں شریک ہوئے ۔ پاکستان کی طرف سے اس اجلاس میں کوئی حکومتی نمائندہ شامل نہیں ہوا صرف ایک سیاسی پارٹی کی طرف سے حمایت کا بیان اجلاس میں پہنچا ہوا تھا۔ اطلاعات کے مطابق چند ہی روز میں آف شور کمپنیوں کے تمام مالکان پریہ پابندی عائد ہونے والی ہے۔ ان کا سرمایہ برطانوی حکومت کی اجازت کے بغیر کسی اور ملک میں منتقل نہیں کیا جاسکتا۔اس قانون کا نفاذ برطانیہ میں اس لئے کیا جارہا ہے کہ آف شور کمپنیوں کے خلاف کریک ڈائون کی صورت میںسرمایہ دار اپنا سرمایہ کہیں ملک سے باہر نہ لے جائیں ۔
ایسی صورت حال میں وزیراعظم کو دو طرح کی پریشانی لا حق ہے ایک تو یہ اپوزیشن ان کے خلاف آخری حد تک جانے کا سوچ رہی ہے ۔ دوسری یہ کہ کہیں نئے برطانوی قوانین کی زد میں ان کے بچوں کی زندگی بھر کی کمائی ضائع نہ ہوجائے ۔میر ے خیال میں عمران خان اور وزیر اعظم نواز شریف کومل بیٹھنا چاہئے اور اس مقصد کےلئے کام کرنا چاہئے کہ وہ تمام سر مایہ کسی صورت پاکستان لایا جاسکے جو وزیراعظم کے بچوں نے ان کے بقول سعودیہ اور دبئی سے کمایا ہے ۔ وہ قانونی ہے یا غیرقانونی اس کی بحث بعد میں بھی کی جاسکتی ہے ۔ پہلے اس بات پر آیا جائے کہ وہ سرمایہ پاکستان کیسے منتقل ہوگا۔ صرف وزیر اعظم نواز شریف کا ہی نہیں ۔ہر پارٹی کے تمام سرمایہ داروں کا سرمایہ جن کی آف شور کمپنیاں ہیں.
mansoor afaq
Like this:
Like Loading...