کرپشن کی زنجیر۔ منصورآفاق
دیوار پہ دستک

کرپشن کی زنجیر

کرپشن کی زنجیر

منصورآفاق

رینجرز کے اختیارات کا تنازع عجیب وغریب حد تک حیرت انگیز ہے ۔انہیںچوروں ،ڈاکوئوں اور لٹیروں کے خلاف کارروائی کرنے کااختیار نہیں دیا گیا۔البتہ وہ بھتہ خوروں ، اغواکاروں اور ٹارگٹ کلرز کے خلاف کارروائی کر سکتے ہیں۔اِس اعلان کے بعد کئی سوال ذہن میں اٹھے ۔میں سوچنے لگا کہ کیارینجرزاب ایسے بھتہ خوروں کے خلاف کارروائی کرسکے گی جو دفتروں میں بیٹھ کربشکل رشوت بھتہ وصول کر رہے ہیں ۔کیا رینجرز والےایسے اغواکاروں کو پکڑ سکیں گے جنہوں نے آدھے کراچی کی مغوی زمینیں حبس بے جا میں رکھی ہوئی ہیں ۔کیا وہ ایسے ٹارگٹ کلرز کو بھی گرفتار کرسکیں گے جوانصاف کے ماتھے میں گولیوں کا سنساتا ہواسیسہ اتاررہے ہیں۔
ویسے مجھے کہنا تونہیں چاہئے مگر ایسا لگتا ہے جیسے پیپلز پارٹی کی موجودہ حکومت کے دل میں ایسے مجرموں کیلئے کوئی نرم گوشہ ضرور موجود ہے۔وگرنہ اختیارات میں اِس من و تُو کی تمیزکی کیا ضرورت تھی ۔بھتہ خور ،بھتہ خورہے چاہے وہ جتنا بھی صاحب ِثروت ہو۔قاتل، قاتل ہے ۔چاہے انسان کا قتل کرے چاہے انصاف کا۔کرپٹ آدمی کرپٹ ہے چاہے سیاست دان ہو یا کوئی بہت بڑا افسر ۔فریب اور جھوٹ کو حکمت عملی نہیں کہا جاسکتا۔مگرصرف پیپلز پارٹی کی حکومت پر کیا موقوف۔

یہاں جس شخص کے پائوں کی طرف بھی غور سے دیکھا جائے اسی کے پائوں میں کرپشن کی زنجیر موجود ہے ۔فرق صرف اتنا ہے کہ کسی کی زنجیر بہت بھاری ہے اور کسی کی زنجیر باریک ۔لیکن دکھ کی بات یہ ہے کہ کسی کو بھی اپنے پائوں کی زنجیر دکھائی نہیں دیتی اور جنہیں نظر بھی آتی ہے وہ اُس سے اسقدرمانوس ہوچکے ہیں کہ اس کے بغیر زندگی کا تصور بھی نہیں رکھتے ۔۔کہتے ہیں ہاتھی کے بچے کے پائوں میں جب اسے سدھانے کیلئے زنجیر ڈالی جاتی ہے تو اس وقت اس کیلئے ممکن نہیں ہوتا کہ وہ اُس زنجیر کو توڑ سکے مگر جب ہاتھی کا بچہ بڑا ہوجاتا ہے اور اس کے جسم میں اتنی طاقت آجاتی ہے کہ وہ ایک جھٹکے سے اس زنجیر کو توڑ سکتا ہے تو وہ اپنی زنجیر کو نہیں توڑتا۔اسے وہ زنجیر اب اپنی ذات کاحصہ محسوس ہونے لگتی ہے۔وہ سمجھتا ہے کہ اس زنجیر کے بغیر ادھورا ہے۔افسوس کہ کرپشن کی زنجیر نے ہمارے معاشرے کو اس طرح جکڑ رکھا ہے کہ رہائی کی کوئی امید دکھائی نہیں دیتی کیونکہ کوئی فرد بھی رہائی چاہتا ہی نہیں ۔سب یہی سمجھتے ہیں کہ خدا نخواستہ اگر یہ زنجیر ٹوٹ گئی تو ان کیلئے زندگی شرمندگی میں بدل جائے گی ۔زیادہ ترلوگ تو کرپشن کو کرپشن سمجھتے ہی نہیں بلکہ انہیں معلوم نہیں کہ وہ جو کچھ کر رہے ہیں دراصل وہ بھی کرپشن کا حصہ ہے ۔مثال کے طور پر پورے معاشرے میں شاید ہی کوئی ایسا فرد ہو جس نے کبھی سفارش نہ کرائی ہو یا خود سفارش نہ کی ہو یا پھر کسی کی سفارش مانی نہ ہو۔یعنی ہر شخص دوسرے کا حق مارنا چاہتا ہے اور حق مارنے کے اس عمل کو برا بھی نہیں سمجھتا ۔ہمارے تمام ایم پی ایز ، ایم این ایز اور منسٹر زپانچ سال صرف اپنے حلقے کے ووٹرز کی سفارشیں ہی کرتے رہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ انہوں نے بہت اچھا کام کیا ہے ۔ووٹر بھی یہی سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اپنے نمائندے کو اسی مقصد کیلئے ووٹ دئیے سو ان سے سفارش کرانا اور ان کا سفارش کرنا ہمارا حق ہے ۔

کسی کو بھی سفارش کرپشن نہیں لگتی ۔حتی کہ قانون کو بھی ۔ قانون میں بھی کوئی ایسی شق موجود نہیں جس کے تحت سفارش کرنے والے کو یا سفارش کرانے والے کو سزا دی جا سکے ۔ سچ یہی ہے کہ ہمارے معاشرےمیں جنگل کی شہریت رائج ہوچکی ہے ۔جنگل سے یاد آیا کہ ایک دن ایک شیر نے مجھ سے کہاتم جب جنگل میں شکار کیلئے آتے ہو تو سارا جنگل یہی سمجھتا ہے کہ جنگل میں کوئی درندہ آگیا ہے ہر جانور اپنی جان بچانے کیلئے چھپتا پھر رہا ہوتا ہے اور جب میں کسی شہر میں جاتا ہوں تو شہر والے دروازے بندکر لیتے ہیں ۔اور شور اٹھنے لگتاہے کہ درندہ آگیا ۔درندہ آگیا ۔اس بات کا فیصلہ کون کرے گا کہ ہم میں سے درندہ کون ہے ۔بالکل اسی طرح اِس بات کا فیصلہ بھی ممکن نہیں کہ ہمارے معاشرے میں کرپشن کس بلا کا نام ہے کرپٹ کون ہے ۔سب لوگ ایک سے دکھائی دیتے ہیں ۔امانت دار اور بدیانت میں تفریق مشکل سے مشکل ترہوگئی ہے ۔کہیں بھیڑوں کے ریوڑ میںشیر گھاس کھاتے نظر آتے ہیں تو کہیں شیرنی کا دودھ بکری کا بچہ پیتا ہوا نظر آتا ہے ۔مجھے ڈر ہے کہ کہیں ہم کسی خوفناک انجام سےدوچار نہ ہو جائیں کیونکہ قدرت کا بھی ایک اپنا نظام ہے جب کوئی شے حد سے بڑھ جاتی ہے تو قدرت کا قانون اسے واپس اپنے دائرے میں لے آتا ہے ۔یہ واقعہ افریقہ کے ایک جنگل کا ہے جس میں دس بارہ شیرہوا کرتے تھے وہاں رفتہ رفتہ شیروں کی آبادی میں اضافہ ہونے لگا۔شیروں میں فیملی پلاننگ کا کوئی تصور ہی نہیں تھا سو ایک وقت آیاکہ وہاں شیروں کی تعداد ڈھائی سو سے بڑھ گئی ۔شیروں کی کثرت کے سبب شکار مشکل سے مشکل تر ہو گیا ۔بھوکے شیروں کے خوف سے کوئی جانور اس علاقے کے قرب و جوار سے گزرتا ہی نہیںتھا ۔جب شکار بالکل مفقود ہوگیا تو خطرہ پیدا ہوا کہ شیر ایک دوسرے کو چیرنے پھاڑنے نہ لگ جائیں تو قدرت کی طرف سے ایک مکھی بھیج دی گئی ۔یہ ایک عجیب و غریب مکھی تھی وہ شیر کے بدن پر جہاں بیٹھتی تھی وہیں سوراخ کر دیتی تھی ۔یعنی ان مکھیوں کے سبب شیروں کے بدن چھلنی ہونے لگے ۔شیر جن کیلئے اٹھارہ گھنٹوں کی نیند ضروری ہے وہ اس آفت کے سبب چھ گھنٹے بھی سونے سے محروم ہوگئے۔یوں ان مکھیوں کی کارروائی سے جنگل میں شیروں کی تعداد کم ہوتی چلی گئی اور پھر ایک دن بہت خوفناک بارش ہوئی ۔اس بارش سے وہ تمام مکھیاں مر گئیں۔جو دس بارہ شیر بچ گئے تھے چند دنوں بعد وہ مکمل طور پر صحت مند ہوگئے اور جنگل کا نظام پھراپنے معمول کے مطابق چلنے لگا۔

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے