چلے بھی جائو کہ گلشن کا کاروبار چلے۔ منصورآفاق
دیوار پہ دستک

چلے بھی جائو کہ گلشن کا کاروبار چلے

چلے بھی جائو کہ گلشن کا کاروبار چلے

منصورآفاق

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب میانوالی کے شہرکوٹ چاند میں افغان مہاجرین کاکیمپ بنایا گیا تھاتو اس نے میانوالی کی معیشت پر بڑے مثبت اثرات مرتب کئے تھے ۔یہ کیمپ ڈیڑھ لاکھ افغانیوں پر مشتمل تھا ۔اس کیمپ کیلئے اقوام متحد ہ سے جو امداد آتی تھی وہ کیمپ سے نکل کر پورے ضلع میں پھیل جاتی تھی ۔خود افغان مہاجرین بھی اپنے ساتھ جو سرمایہ لائے تھے ۔وہ بھی گردش کرنے لگا تھا۔اس پر جماعت سلامی کے دوست نے افغان مہاجر کیمپ کو میانوالی کی ترقی کا ایک قدم قرار دیا تو سید نصیر شاہ جنہیں ڈاکٹر اجمل نیازی میانوالی کی گمشدہ دانش کہا کرتے تھے انہوں نے کہا ’’یہ ترقی نہیں تباہی کا ایک گڑھا ہے جو ہم نے اپنے مستقبل کیلئے خود کھود دیا ہے ‘‘اُس وقت یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئی تھی مگر اب جب میں دائودخیل اور کمرمشانی کے گردو نواح کی زمینوں کے افغان مالکان کو دیکھتا ہوں تو پریشان ہو جاتا ہوں ۔انہوںنے کیسے پاکستانی شناختی کارڈ بنوائے ۔کیسے زمینیں خریدیں ۔یہ لوگ پاکستان کے کس شہر میں پاکستانی بن کر آباد نہیں ؟۔ہر جگہ موجود ہیں اورہر جگہ ایک کمیونٹی کی صورت میں رہتے ہیں ۔لاہور جیسے شہر میں یہ ہزاروں کی تعداد میں آباد ہیں لاہور میں ان کے کئی سہراب گوٹھ موجود ہیں ۔ شاہدرہ کے قریب ان کی بستیوں میں وہ تمام چیزیں میسرہیں جو کراچی میں سہراب گوٹھ کے علاقے سے ملتی ہیں ۔ان لوگوں کے پاس سب سے زیادہ پاکستانی شناختی کارڈ ضلع اٹک کے ہیں ۔اٹک ضلع کے نادرا کے دفتر سے ہزاروں افغانیوں کو پاکستانی شناختی کارڈ بناکر دئیے گئے۔یہی اٹک ضلع کے افغانی باشندے پورے ملک میں پھیل چکے ہیں ۔

کیاحیرت انگیز بات ہے کہ یہ افغانی سب سے پہلے اٹک جاتے تھے وہاں سے پاکستانی کارڈ حاصل کرتے تھے اور پھر اللہ کی زمین پر پھیل جاتےتھے۔راولپنڈی میں بھی بہت سے یہی جعلی پاکستانی ضلع اٹک کا شناختی کارڈ رکھتے ہیں ۔افغانیوں نے پاکستان میں ہر شعبہ زندگی میں اپنا حصہ ڈالا۔کاروباری مزاج توخیر انہیں صدیوں سے حاصل ہے مگر سیاست میں بھی پاکستان میں آ کر افغانیوں نے دلچسپی لی جس کی افغانستان کی تاریخ میںکوئی مثال موجود نہیں ۔کیسے تعجب کی بات یہ ہے کہ راولپنڈی میں نون لیگ کا ایک کو نسلر بھی ا فغانی ہے ۔ اس کا شناختی کارڈ بھی اٹک سے بنا ہے اور وہ راولپنڈی میں بزنس کرتا ہے۔ اٹک کے بعد جہاں سے زیادہ پاکستانی شناختی کارڈ افغانیوں کو بنا کر دئیے گئے وہ صوبہ بلوچستان ہے۔ابھی ابھی جو طالبان سربراہ ملا منصور ایک ڈرون حملے میں ہلاک ہوا ہے اس کا شناختی کارڈ بھی ولی محمد کے نام سے بلوچستان کے ایک شہر سے بنا ہوا تھا۔جس کی تصدیق کرنیوالے ایک رسالدار میجرکو گرفتار کیا جا چکا ہے۔نادرا کا ایک اہلکار بھی اس جرم میں پکڑا جا چکا ہے مگر انہیں کون پکڑے گا جن کے بارے میں یہ سن کر تومیں پتھرا گیا ہوں کہ ملا منصور کی لاش ر اکھ ہوگئی ہے مگر شناختی کارڈ کو ہلکی سی آنچ بھی نہیں آئی ۔ممکن ہے نادرا والوں نے فائر پروف شناختی کارڈ بھی بنانے شروع کر رکھے ہوں۔ وزیر داخلہ کوئی بھی حکم کسی وقت بھی جاری کر سکتے ہیں ۔ یقیناًملا منصورکو ویسا ہی کوئی شناختی کارڈ بنا کر دیا گیا تھا تب ہی آگ کے دریاسے تیر کر نکل آیا کچھ لوگ کہہ رہے ہیں وہ شناختی کارڈ بہت برگزیدہ تھا ۔ اس تبرک کی باقاعدہ نمائش کااہتمام کیا جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ ثواب دارین حاصل کر سکیں ۔ اس شناختی کارڈ والے شخص کے کراچی میں دو فلیٹ بھی ہیں ۔اطلاع کے مطابق ہر ماہ وہ ان کا کرایہ لینے خود آیا کرتا تھا ۔کہتے ہیں ملا عمر کے پاس بھی پاکستانی شناختی کارڈ موجود تھا ۔یہ اس لئے زیادہ اچنبھے کی بات نہیں ہے کہ ملا عمر کا بچپن اور ان کی جوانی پاکستان میں ہی گزری تھی یہی سے ہی اُنہوں نے تعلیم حاصل کی تھی ۔یہیں ان کا گھر بار تھا۔اکثر لوگ ان کے افغانی شناختی کارڈ پرشک کا اظہار کرتے تھے ۔ ممکن ہے اسامہ بن لادن کے پاس بھی پاکستانی پاسپورٹ موجود ہو ۔وہ بھی تو ایک طویل عرصے تک پاکستان میں رہے ۔

انہوں نے بے نظیر بھٹو کی حکومت گرانے کےلئے پاکستانی سیاست دانوں کی بھرپور مدد بھی کی تھی۔ سرمایہ بھی فراہم کیا تھا ۔جعلی شناختی کارڈز بنانے کا کام ابھی رکا نہیں جاری و ساری ہے ۔ کچھ دوستوں کی اطلاعات کے مطابق گزشتہ دنوں ڈی جی نادرا بلوچستان نے چیئرمین نادرا کو ایک خط لکھا ۔ جس میں کہا کہ حکومتی اتحادمیں شامل بعض لوگ اور پارٹی کے کچھ وزرا مجھ پر دبائو ڈال رہے ہیں کہ افغانیوں کو شناختی کارڈ بنا کر دئیے جائیں۔یقیناً وہ اس سے پہلے ہزاروں افغانیوں کو شناختی کارڈ بنا کر دے چکے ہونگے ۔

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے