پی آئی اے سے اورنج ٹرین تک . منصورآفاق
دیوار پہ دستک

پی آئی اے سے اورنج ٹرین تک

پی آئی اے سے اورنج ٹرین تک

منصورآفاق

چند ایک کو چھوڑ کردنیا کی تمام ایئرلائنیں منافع میں ہیں۔بے شک ایک پی آئی اے ہے جوپچھلے سولہ سال سے مسلسل خسارے میں ہے ۔کئی حکومتیں آئیں اور گئیں۔کئی چیئرمین آئے اور گئے مگرچارٹ میں خسارے کی لائن بلندیوں کو چھوتی رہی۔ صرف پچھلے پانچ سال میں ایک سو ساٹھ ارب روپے کا خسارہ ہوا یعنی اِس خسارے سے لاہور میں ایک اور اورنج ٹرین چلائی جاسکتی تھی ۔تقریباً ہر حکومت نے قومی ایئر لائن کو بیچ دینے کا سوچا مگرراہ میں کئی مشکل مقام آتے تھے سوہمت نہ پڑی ۔موجودہ حکومت نے بھی کوشش کی مگر پی آئی اے کے ملازمین کے دبائومیں آکراپنی کوشش کوچھ ماہ کیلئے موخر کردیا۔ 21ارب کا اور خسارہ ۔ زندہ باد۔اگرچہ یہ بات سب جانتے ہیں کہ پی آئی اے کو خسارے سے کس طرح نکالا جا سکتا ہے مگر کرپشن کے عفریت کے سامنے کون آئے ۔بالخصوص اِس عفریت کے اطفال تو اِسے قطعاً نہیں روک سکتے ۔لوگ کہتے ہیں پنجاب حکومت کی کاروباری کارکردگی بہت اچھی ہے وہ لاہور اور راولپنڈی میںبھی کامیابی کے ساتھ میٹرو بس سروس چلا رہی ہے ۔ اورنج ٹرین بھی چلا نے والی ہے ۔ اس لئے پی آئی اے کو بھی اُس کے حوالے کر دینا چاہئے۔سنا ہے پی آئی آے کے کئی ملازمین نے جنرل راحیل شریف کو بھی خطوط لکھے ہیں کہ قومی ایئر لائن کا تحفظ کیا جائے ۔ ہاںافواج پاکستان بھی پی آئی آے کو چلا سکتی ہیں۔خاص طور پر ایئر فورس مگر پھرواپڈا کا خیال آجاتا ہے اور سوچنے لگتا ہوں کہ کچھ سالوں بعد میٹرو بس سروس اور لاہور اورنج ٹرین پر بھی ’’ برائے فروخت‘‘ کا بورڈنہ لگ جائے۔کیونکہ شروع شروع میں تو پی آئی اے بھی ایک منافع بخش ادارہ تھا۔ لاہور میں اورنج ٹرین چلنے کی ہم دیارِ غیر میں رہنے والوں کو بہت خوشی ہے ۔ہم جب لندن یورپ کے دوسرے شہروں میںزمینی سرنگوں میں دوڑتی پھرتی ہوئی ٹرینیں دیکھتے ہیں تو ہمارا جی کرتا ہے کہ ایسی ٹرینیں ہمارے ملک میںبھی ہوں۔وہاںکے عام لوگ بھی خوبصورت زندگی کی طرف کوئی قدم رکھیں۔

سو وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے جب اورنج ٹرین کا اعلان کیا تو تحفظات کے باوجود دل کو خوشی ہوئی کہ چلوموٹروے کے بعدیورپ جیسے کسی دوسرے پروجیکٹ پر پاکستان میں بھی کام ہورہا ہے مگر یہ خبر پڑھ کر مجھے عجیب سی وحشت ہوئی کہ لاہور ہائی کورٹ نے گیارہ تاریخی عمارتوں شالیمار گارڈن، گلابی باغ گیٹ وے، بدھو کا آوا، چوبرجی، مقبرہ زیب النساء، لکشمی بلڈنگ، جنرل پوسٹ آفس، ایوان اوقاف، سپریم کورٹ رجسٹری بلڈنگ، سینٹ اینڈریو چرچ اور بابا موج دریا کے 200فٹ کے احاطے میں اورنج لائن ٹرین کی تعمیر روک دی ہے۔وحشت کی وجہ یہ تھی کہ کیا حکومت ِپنجاب کے بیوروکریٹ اتنے نا اہل ہیں کہ انہوں نے اورنج ٹرین کیلئے ایسا راستہ منتخب کیا جس میں گیارہ تاریخی مقامات آتے ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہوگیاجب کہ اقوام متحدہ تک نے پنجاب حکومت کو اس سلسلے میں خبردار کیاتھا۔میں نے جب لاہور سے تعلق رکھنے والے برطانیہ کے معروف صحافی طاہر چوہدری سے کہا کہ ’’یہ کیا ہورہا ہے۔محکمہ آثار قدیمہ نے کیسے این او سی جاری کردیا۔کیا لاہور میں کوئی تردماغ اور مضطرب دل باقی نہیں رہا۔اہلِ علم و دانش کہاں چلے گئے ۔ نیئر علی دادا جیسے کیسے خاموش رہے۔نیشنل کالج آف آرٹ کے ٹیچرز اور طالب علم بھی آنکھیں بند کرکے اس ظلم کوہوتا دیکھتے رہ گئے ۔تو انہوں نے کہا ’’نہیں ایسا نہیں ہے اس سلسلے میں لاہور پریس کلب میں کامل خان ممتاز،نیرعلی دادا،یاسمین لاری ، سجادکوثر، ڈاکٹراعجاز انور، فریال گوہر،ایڈووکیٹ اظہرصدیق نےباقاعدہ پریس کانفرنس کی تھی کہ ڈی جی آرکیالوجی کو اس منصوبے کا این او سی جاری نہ کرنے پر تبدیل کردیا گیا ۔

انہوں نے حکومت کو سات دن کا وقت دیا تھا اگر ڈی جی آرکیالوجی کو بحال نہ کیا گیا اوراورنج ٹرین کا راستہ تبدیل نہ کیا گیا توعدالت سے رجوع کریں گے۔اور یہ ہائی کورٹ نے جو کام رکوایا ہے۔ اُس کا سبب یہی لوگ ہیں۔اس اورنج ٹرین کی وجہ سے اس وقت تک 26اموات ہوچکی ہیں ۔میرے خیال میں شہباز شریف کو ان کے سرکاری مشیر غلط گائیڈ کررہے ہیں ‘‘

میں اورنج ٹرین کے ساتھ وابستہ مسائل پر غور کرنے لگاتو پہلی بار میری سمجھ میں یہ بات آئی ہے کہ پورے لندن میں انڈر گروانڈٹیوب کا جال کیوں پھیلایا گیا ہے ۔صرف اسلئے کہ یہ ٹرین سطح ِزمین کے اوپر چلائی جاتی تو بہت سے تاریخ مقامات منہدم ہوتے ۔بہت سے لوگ بے گھر ہوتے۔شہر کی شکل تبدیل ہوکر رہ جاتی ۔لندن ٹرینوں کا شہر کہلانے لگتا ۔بہر کیف سڑکوں پر بھی ٹرام چلتی ہیں ۔ شہروں میں ٹرینیں جاتی ہیں۔لاہور میں اورنج ٹرینیں ضرور چلنی چاہئیں ۔ اگر انڈر گرائونڈ ہوں توبہت اچھا ہے مگر سیکورٹی کے معاملات خاص طور پر دیکھنے پڑیں گے کیونکہ اورنج ٹرینیںاسکولوں کی طرح دہشت گردوں کیلئے آسان ہدف ہونگی۔مگراپنا کیاہے جس دن دہشت گردی کا خدشہ زیادہ ہوگا اُس دن اسکولوں کی طرح ان کو بھی بند کردیاجائے گا۔بقول چوہدری نثار نفسیاتی جنگ تو ہم ہار چکے ہیں اور اب توبیچارے شہباز شریف دہشت گردوں کو پنجاب میں دہشت گردی کرنے سے منع بھی نہیں کر سکتے کہ ان کے برادرِ بزرگ وزیر اعظم نواز شریف دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بوسیلہ صدر ممنون حسین سپریم کمانڈر ہیں۔شہباز شریف کیلئے ایک مسئلہ اور بھی ہے کہ انہیںرینجرز کو پنجاب میں کارروائی کی اجازت دینا بھی مشکل ہو رہا ہے۔کیا کریں وزیر قانون رانا ثنااللہ کی ناراضگی کا شدید خدشہ ہے اور بہت سے سیاستدان اور افسرراستے کی رکاوٹ بنے ہوئے ہیںجو کسی زمانے میں دہشت گردوں کے سہولت کار رہے ہیں ۔تسلیم کہ اب ان کا دہشت گردوں سے کوئی واسطہ نہیں مگر جس کے ساتھ کبھی تعلق رہا ہو اس کیلئے دل میں ہمدردی تو ہوتی ہی ہے ۔ایسے ساتھیوں کا دل بھی توانہیں رکھنا ہے ۔اس سلسلے میں وفاقی وزارت ِ داخلہ اورپنجاب کے محکمہ داخلہ کی کوششیں جاری ہیں کہ کسی طرح ایپکس کمیٹی کے فیصلوں پر عمل در آمد ہوجائے مگر ابھی تک خاموشی ہی خاموشی ہے ۔ دیکھئے کیا ہوتا ہے ۔لگتا ہے اس کیلئے خودجنرل راحیل شریف کو لاہور آنا پڑے گا۔خورشید شاہ کے ہوتے ہوئے چوہدری نثار کی بات کوئی نہیں سنتا۔

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے