
پیارے ہم وطنو! تمہیں نیند کیوں آتی ہے
پیارے ہم وطنو! تمہیں نیند کیوں آتی ہے
منصور آفاق
یہ اتوار کی ایک سرد اور طوفانی رات تھی میں کسی کام سے ایک دوست کے گھر گیا وہاں تھوڑی دیر پہلے چوری کی واردات ہوچکی تھی ۔وہ میاں بیوی اپنے چاروں بچوں سمیت پکنک منانے کہیں گئے تھے۔واپس آئے تومعلوم ہوا کہ وہ لٹ چکے ہیں ۔گھر کی ہر چیز کھلی پڑی تھی ۔بہت سی چیزیں ٹوٹی ہوئی تھیں۔ تمام قیمتی سامان غائب تھا۔بچوں کے لیپ ٹاپ،کیمرے الیکٹرانکس کی تمام چیزیں ،تمام جیولری چوری ہوچکی تھی ۔کچھ تو بہت ہی قیمتی جیولری تھی جو خاندانی طور پر چلی آرہی تھی ۔کچھ کیش تھاجو برے وقت کیلئے گھر میں رکھ دیا گیا تھا۔وہ دونوں میاں بیوی جاب کرتے تھے ۔انہوںنے عمر بھر جو کچھ کمایا تھا چور لے جا چکے تھے۔جو کچھ ورثے میں ملاتھا وہ بھی چوری کا مال بیچنے والی کسی دکان پر پہنچ چکا تھا۔ پولیس آئی جیسے آتی ہے اوراپنی کاغذی کارروائی مکمل کر کے چلی گئی ۔اس کے سوا کر ہی کیا سکتی تھی ۔پڑوسیوں کو خبر ہوئی تو وہ آگئے ۔کچھ قریبی دوستوں اور رشتہ دار وں کو فون کر کے بلا لیا گیا۔سب لوگ آئے دلاسہ دیااور ایک وقت کے بعدچلے گئے ۔چور گھر میں پڑی ہوئی چابیاں بھی اٹھا کر لے گئے تھے ۔خراب موسم کے باوجودرات کوہی تالے بدلنے والوں کو بلا لیا گیا ۔انہوں نے ابھی پچھلے دنوں نئی کار خریدی تھی ۔دوچابیاں ملی تھیں چالاک چورکار کی ایک چابی بھی ساتھ لے گئے تھے ۔یہ خطرہ پیدا ہوگیا چور رات کو کسی وقت آکرکار بھی نہ لے جائیں ۔وہ چیک بکس اور کچھ بنک کارڈزبھی اٹھا کر لے گئے تھے ۔سو بنک والوں کو فون کئے گئے۔ دونوں میاں بیوی کی عجیب کیفیت تھی ۔وہ ساری رات بچوں کے ساتھ ٹوٹی ہوئی چیزوں کو درست کرتے رہے۔ گھر کو اس قابل بنایا کہ سویا جاسکے مگر نیند آنکھوں سے کوسوں دورتھی ۔ شوہر تو کچھ حوصلے میں تھا مگربیوی کی کیفیت بہت بری تھی ۔ وہ بری طرح خوف زدہ ہوگئی تھی ۔پھر اپنا سب کچھ چلے جانے کا ہولناک دکھ اپنی جگہ پر تھا ۔وہ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد دروازے اورکھڑکیاں چیک کرتی تھی کہ کہیں کچھ کھلا ہوا نہ ہو ۔ چورکسی راستے سے پھر اندر نہ آجائیں۔ اسے وہم ہوگیا تھا کہ چور کہیں مکان کے اندر چھپاہواہے۔ حالانکہ وہ سارا گھر اچھی طرح دیکھ چکی تھی ۔رات تقریباً آنکھوں میں کٹ گئی ۔صبح ورکنگ ڈے تھا ۔موسم بھی تھوڑا بہتر ہوگیا تھامگر دونوں میاں بیوی کام پر نہیں گئے ۔ بچوں نے بھی ا سکول سے چھٹی کرلی تھی۔ماں میں اتنی ہمت بھی نہیں رہی تھی کہ ناشتہ تیار کرسکتی ۔باپ بازار سے ناشتہ لے آیا ۔ بیڈرومز کے زخم زخم دروازوں کو جوڑنے کیلئے مستری بلالیاگیا۔چیزوں کو دیکھنا شروع کیاگیا کہ کیا کیا بچ گیا ہے ۔اور کیا کیا لے گئے ہیں۔ دوردراز سے کئی دوست اور کچھ رشتہ داربھی افسوس کیلئے آگئے۔گلی والے بھی جمع ہوگئے ۔گلی والوں کو پریشانی تھی کہ اگر آج ان کے گھر میں چوری ہوئی ہے تو کل ہمارے گھر میں بھی ہوسکتی ہے ۔سب لوگ اس موضوع پر گفتگو کرنے لگے کہ گھروں کو کیسے محفوظ بنایا جائے وغیرہ وغیرہ ۔کئی دن تک میاں بیوی نے چوروں کے ڈر سے گھر کو خالی نہیں چھوڑاتھا ۔یہ چوری کی واردات کسی ہتھوڑے کی طرح ان کے ذہنوں پر لگنے لگی تھی ۔شوہر دفترجاتا تھا تو بیوی چھٹی کرتی تھی ۔ بیوی دفتر جاتی تھی تو شوہر چھٹی کر لیتا تھا۔میں چوری کی اس واردات پر غورکرتے ہوئے سوچنے لگا کہ پاکستان بھی ہم سب کاگھر ہے جہاں روز چور ی کی واردات ہوتی ہے مگر ہمیںمن حیث ا لقوم اس بات کا کوئی احساس تک نہیں ہوتا کہ آج پھر ہماراگھر لٹ گیاہے ۔کیاہم پاکستان کو اپناگھر نہیں سمجھتے ۔یا ہر طرح کے احساسات سے محروم ہوچکے ہیں۔یہ نہیں ہوسکتا کہ قوم یہ سوچ کر اس گھر (پاکستان ) میں رہ رہی ہو کہ تم بس اپنی جیبیں بھرو ۔گھر جاتا ہے تو جانے دو۔کہیں اسٹیل مل لٹ رہی ہے تو کہیں پی آئی اے کے تھکے ہارے طیارے ایئرپورٹس پر فروخت ہونے والے پرندوں کی طرح کھڑے ہیں کہ پتہ نہیں نیا صیاد کون ہے ۔کہیں پاکستان سپر لیگ کادبئی میں جشن جاری ہے ۔ یعنی ہم وہ بے حس لوگ ہیںکہ اپنے فنکشن بھی اپنے گھر نہیں کرا سکتے مگرہمیں کوئی پرواہی نہیںہے۔الٹا دن رات میڈیا پریہی نعرے لگا تے ہیں کہ ہم نے دہشت گردی کا خاتمہ کردیا ہے ۔ ہم کرپشن کے خلاف جنگ بھی شروع کر چکے ہیں جب کہ لگتا ایسا ہے جیسے سوائے فوج کے ہر ادارے میں غدر کا عالم ہے یعنی لوٹ مچی ہوئی ہے ۔پنجاب اور صوبہ پختون خوا کے حالات قدرے بہتر ہیں مگریہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہاں دہشت گرد موجود نہیں یا کرپشن نہیں ہورہی ۔ پیپلز پارٹی کے دور میں نیب کے چیئرمین نے کہا تھا کہ روزانہ سات ارب روپے کی چوری ہورہی ہے ۔لوگوں کے خیال میں اس چوری میں کوئی واضح کمی واقع نہیں ہوئی۔کچھ لوگ تو کہتے ہیںکہ نجکاری اور ٹیکس ایمنسٹی کے نام پرملک کے ساتھ کوئی بڑا فراڈ کیا جارہا ہے کچھ لوگ ان معاملات کو بہتری کی طرف ایک قدم بھی قرار دے رہے ہیں ۔ ایک طرف کہا جارہا ہے کہ پاکستان میں اربوں ڈالر کی بیرونی سرمایہ کاری ہورہی ہے۔ دوسری طرف یہ بھی سچ ہے کہ حکومت آئی ایم ایف سے اربوں ڈالر کا قرضہ بھی لے رہی ہے ۔معاملہ کیا ہے ۔کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ کوئی نگران حکومت بنانے کا مشورہ دے رہا ہے تو کوئی قومی حکومت کا شوشہ چھوڑ رہا ہے ۔کوئی چاہتا ہے کہ جنرل راحیل شریف فوری طور پر مارشل لاء لگا دیں۔جو چند درد مند افراد قوم میں موجودہیں وہ بیچارے دعائیںمانگنے پرلگے ہوئے ہیں مگربقول حسن نثار’’ جہاں دودھ اور دوا تک خالص نہ ہو وہاں دعا بھی خالص نہیں رہتی‘‘ ۔کاش اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کا نام تبدیل کرنے کےبجائے اُس کے کا م پر توجہ دی جاتی ۔کاش پی آئی اے اورا سٹیل مل کو اونے پونے فروخت کرنے کی بجائے انہیں خسارے سے نکالا جاتا ۔کاش آرمی چیف کی طرح چیف جسٹس بھی بیڈگورننس کے المیے کی نشان دہی کرنے کی بجائے اس کے لئے کوئی عملی اقدام کرتے۔ کاش وزیر اعظم پاکستان مری کو اپنی اصل شکل میں بحال کرنے کیلئے کئی گھنٹے میٹنگ کرنے کی بجائے مری کے لوگوں کی کردار سازی کیلئے صرف ایک گھنٹے کی میٹنگ کرتے ۔آپ یہاںمری کو پورا پاکستان تصورکیجئے کاش کہ یہ ہجوم ایک قوم میں تبدیل ہوجاتا ۔اپنے ملک کو اپنا گھر سمجھتا اور اس گھرمیں ہونے والی چوری پر اسی طرح پریشان ہوتا جیسے اپنے گھر میںچوری ہونے پر اس کی نیندیں اڑ جاتی ہیں ۔پیارے ہم وطنو کیا تم بتا سکتے ہو کہ ہمیں نیند کیوں آتی ہے۔

