پنجاب کارڈ. منصورآفاق
دیوار پہ دستک

پنجاب کارڈ

پنجاب کارڈ

منصور آفاق

جمیل الدین عالی بھی رخصت ہوئے۔ایک عہد تمام ہوا۔عالی جی نجیب الطرفین ادیب اور شاعرتھے۔ان کے دادا غالب کے دوست اور شاگردتھے ۔ان کے والدبھی شاعرتھے اور والدہ کا تعلق بھی میر درد کے خاندان سے ہے۔ایک بارپنجاب میں ایک مشاعرہ پڑھتے ہوئے انہوں نے اپنے اس دوہے کے مصرعے میں’’ہم دل والے اپنی بھاشا کس کس کو سکھلائیں‘‘ میں ترمیم کرتے ہوئے دوہا کچھ یوں پڑھ دیا تھا

اردو والے، ہندی والے، دونوں ہنسی اڑائیں
لوگوں کو پنجابی بھاشا عالی جی سکھلائیں

یہ پنجاب اور اہل پنجاب کے ساتھ ان کی محبت کا عالم تھا۔پنجاب کے ذکر پرخواب کا ایک منظر ذہن میں لہرا گیاہے جسے میں نے اکثر جاگتی ہوئی آنکھ سے دیکھا ہے۔پاکستانی سیاست کی میز پر تاش کے بہت سے پتے الٹے پڑے تھے ۔اُس نے پہلا کارڈ سیدھا کیا تو اس پرپیپلز پارٹی کے پرچم کے رنگوں سے صوبہ سندھ کا نقشہ بنا ہوا تھا ۔سابق صدر آصف زرداری نے اسے فوراً اپنی طرف کھینچ لیا۔بے شک سندھ کارڈ پر صرف انہی کا حق تھا۔ اس نے دوسرا کارڈ سیدھا کیا تواس پر الطاف حسین کی تصویر بنی ہوئی تھی سو ’’مہاجر کارڈ ‘‘فوراً الطاف حسین کے سامنے رکھ دیا گیا۔اس نے تیسرا کارڈ سیدھا کیا ۔اس پر غفار خان کی تصویر تھی اس ’’پختون خوا کارڈ‘‘ کو غفار خان کے پوتے اسفند ولی خان کی طرف بڑھا دیا گیا ۔ وہ ایک ایک کر کے کارڈ سیدھے کرتی چلی گئی ۔کوئی بلوچستان کارڈ تھا،کوئی کشمیر کارڈ تھا کوئی میٹرو کارڈ تھا کوئی بے نظیر کارڈ تھا۔

پاکستان کی بہتری کیلئے کھیلے جانے والے ہر کھیل میں یہ کارڈ کسی نہ کسی طرح ضرور استعمال ہوئے۔مثال کے طور پر کالاباغ ڈیم کی تعمیرکو رکوانے کیلئے ان کارڈز کا استعمال کیا گیا۔حتیٰ کہ اس میں بلوچستان کارڈ بھی یوز کیا گیا جس کا اس پروجیکٹ سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا۔شاید انہی کارڈز نے پاکستانیوں کے ہجوم کو ایک قوم نہیں بننے دیا۔ یہ سارے کارڈ پنجاب کے خلاف استعمال کئے گئے۔اگرچہ میں پنجاب کی تقسیم کا اِس حد تک حامی ہوںکہ سرائیکی صوبے کی بنیادوں میں میری جوانی کا پسینہ بھی شامل ہے مگر آئے دن سندھ ، بلوچستان اور پختون خوا کی طرف سے ایسے پروجیکٹس کی مخالفت میرے لئے تکلیف دہ ہوتی جارہی ہے ۔جن کا ذراسا تعلق بھی پنجاب سے ہوتاہے۔ان دنوںپاک چین اقتصادی راہداری پر لوگوں کے تبصرے دیکھ کر سر پیٹنے کا جی چاہتا ہے۔کسی نے یوں کہا کہ حکومت نے صوبہ پنجاب کو نوازنے کے لئے اقتصادی راہداری کے ڈیزائن میں تبدیلی کر کے پہلے پنجاب والے رستے کو مکمل کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔کوئی یوں بولا کہ اقتصادی راہداری میں چھوٹے صوبوں خاص طور پر سندھ کو نظرانداز کیا جا رہا ہے اس سے پنجاب سے دوسرے صوبوں کی ناراضی بڑھے گی۔پتہ نہیں ان لوگوں نے تعصب کی کونسی عینک لگا رکھی ہے ۔انٹرنیٹ پر موجود نقشے کے مطابق اقتصادی راہداری گوادر سے خنجراب تک تقریباً چاروں صوبوں سے گزرتی ہے مگرانہیں یہ نقشہ دکھائی ہی نہیں دیتا ۔جواقتصادی زون بنائے جارہے ہیںان میں سے بلوچستان میں گیارہ خیبر پختون خوا میں آٹھ گلگت بلتستان میں ایک اور پنجاب میں سات ہیں ۔پھر پنجاب کا گلہ کیا جارہا ہے ۔کوئلے سے انرجی پیدا کرنے کے تمام پروجیکٹس صوبہ سندھ میں لگ رہے ہیں کیونکہ کوئلہ وہیں سے نکلنا ہے ۔مگر یار لوگ ناراض ہیں کہ ہمارا حق مارا جا رہا ہے ۔او بھئی حق کس بات کا۔ہر پاکستانی کا پاکستان پر برابر حق ہے چاہے وہ سندھی ہو بلوچی ، پختون ہو یا پنجابی۔میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ اس حق کو صوبوں کے تناظر میں کیسے تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ 1998کی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی کل آبادی 13کروڑ 24 لاکھ کے قریب تھی جس میںتقریباً 7 کروڑ 37لاکھ لوگ صرف پنجاب میں آباد تھے یعنی باقی تمام صوبوں میںمل کرساڑھے پانچ کروڑ کے قریب لوگ رہتے تھے ۔اب اگر ملک کی آبادی بیس کروڑ ہے تواس میں سے بارہ تیرہ کروڑ افرادپنجاب میں رہتے ہیں ۔کیا پاکستان کے وسائل پر ان کا اتنا حق نہیں ہونا چاہئے جتنا کسی دوسرے صوبے کے فرد کاہے۔

لوگ یہ بات بھی بھول جاتے ہیںکہ اقتصادی راہداری صرف ایک سڑک نہیں بلکہ یہ ایک میگا پروجیکٹ ہے۔بے شک بظاہر یہ ایک راستہ ہے جو جنوب مغربی پاکستان میں گوادر پورٹ کو چائنا کے شمال مغرب میں صوبے زنجانگ سے ملائے گا۔یہ نیٹ ورک نہ صرف بڑی بڑی ہائی ویز ،ریلوے بلکہ تیل اور گیس کی ترسیل کے لئے پائپ لائن پر مشتمل ہو گا۔ بلکہ اِس اقتصادی راہدار ی کا روٹ کاشغر سے ہوتا ہوا خنجراب ،خنجراب سے تھا کوٹ تک آئے گا اور وہاں سے موٹر وے کے ا برہان انٹر چینج تک پہنچے گا۔اسی طرح گوادر سے کراچی کو ملانے والی ہائی وے ML2ایک طرف کوئٹہ اور دوسری طرف ڈیرہ اسمعٰیل خان سے ہوتی ہوئی برہان انٹر چینج پہنچے گی ۔اور پھر قراقرم ہائی وے کے ذریعے چین کی طرف جائے گی۔مگریہ منصوبہ ہائی ویز اور ریلویز سے بڑھ کر کچھ اورہے اس میں ویر ہائوسز،انڈسٹریل ٹائونز،فیول سٹیز،میڈیا سٹیز اورا سمارٹ سٹیز شامل ہیں۔اس سے پاکستان کو جو فوائد حاصل ہوں گے اس میں ہائیڈل،کوئلے،ہوا اور شمسی توانائی کے ذریعے16400 میگاواٹ بجلی کا اضافہ شامل ہے۔یہ پروجیکٹ نہ صرف چائنا کے لئے تجارت کے نئے راستے کھولے گابلکہ اس سے چائناکو مڈل ایسٹ اور افریقہ کی منڈیوں تک ڈائریکٹ رسائی حاصل ہو گی۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ اقتصادی راہداری منصوبہ دو دنیائوں کے درمیان ایک زنجیر ہے۔۔اس راہداری کے حوالے سے عمران خان سے بھی گزارش ہے کہ وہ دوسرے صوبوں کے حقوق کے ساتھ ساتھ ان پاکستانیوں کے حقوق کا بھی تحفظ کریں جو پنجاب میں رہتے ہیں۔

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے