پاکستانی پانچ ارب ڈالر. منصورآفاق
دیوار پہ دستک

پاکستانی پانچ ارب ڈالر

پاکستانی پانچ ارب ڈالر

منصورآفاق

چیئرمین نیب نے کہا ’’قوم کی نظریں احتساب بیورو پر لگی ہیں ‘‘لندن کے ایک ہوٹل کی خریداری کیلئے سرمائے کی منتقلی مسئلہ بنی ہوئی ہے ۔بے شک اکیسویں صدی میںمنی لانڈرنگ کے جرم کو خاص توجہ حاصل ہوئی ہے۔دنیا بھر میں سرمائے کی نقل و حرکت پرآنکھیں نصب کردی گئی ہیں۔انہی آنکھوں کی وساطت سے امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل نے ورلڈ بینک کے حوالے سے ایک عجیب و غریب دعو یٰ کیا کہ پچھلے سال پانچ ارب ڈالر پاکستان سے بھارت منتقل ہوئے ۔اخبارکے خیال میں اس رقم کا بڑا حصہ وہ لوگ بھیج رہے ہیں جن کے خاندان قیام پاکستان کے وقت دونوں ملکوں میں تقسیم ہو گئے تھے۔ان میں چودہ لاکھ افرادپاکستان میں ایسے ہیں جو بھارت میںپیداہوئے تھے اور گیارہ لاکھ لوگ بھارت میں ایسے ہیں جنہوں نے پاکستان میں جنم لیاتھا۔یہی لوگ اپنے عزیزوں رشتہ داروں کو رقمیںبھیجتے رہتے ہیں اور یہ سلسلہ یک طرفہ نہیںدو طرفہ ہے۔ مگر گزشتہ سال پاکستان سے بھارت منتقل کئے جانے والے زرمبادلہ میں یک دم بہت زیادہ اضافہ ہو اہے۔ یعنی بھارت پر پاکستانی خزانوں کے دروازے کھل گئے ہیں۔ دونوں ملکوں میں زرمبادلہ کے براہ راست تبادلے پر بہت سی پابندیاں عائد ہیں۔ اُن کی موجودگی میںایک سال میں اتنی بڑی رقم کا اِدھر سے اُدھر کرناآسان نہیں ۔یقیناکسی ہنرمندہاتھ نے یہ کرامت دکھائی ہے ۔ چھوٹے موٹے لوگ اتنے بڑے کارنامے سرانجام نہیں دے سکتے ۔ اس کی جو توجیہہ امریکی اخبار نے دی ہے۔وہ کم از کم میرے حلق سے نہیں اتر سکی ۔ ہجرت کو تقریباً ستر سال ہونے والے ہیں۔( انشااللہ اگلے سال وقت کے ماتھے پہ لکھوں گا۔شجر ستر برس کا ہوگیا ہے )اور وہ بچہ جوہجرت کے وقت دس سال کا تھا ۔وہ اس وقت یا تو دنیا سے رخصت ہوچکا ہے یا 80سال کا بوڑھا آدمی ہے ۔جسے موت کی چاپ سنائی دے رہی ہے ۔وہ اس عمر میں بھارت میں نہیں جنت الفردوس میں بنگلے تعمیر کرنا چاہتا ہے۔پھر ان بزرگوں کی تعداد چند ہزار سے زیادہ نہیں ہوسکتی ۔ایسی صورت میں یہ کہنا کہ یہ منی لانڈرنگ کرنے والے وہی ہیںجنہوں نے ہجرت کی تھی اور ہجرت نہ کر نے والے رشتہ داروں کی مدد کیلئے رقوم بھیجتے رہتے ہیں ۔یہ درست بات نہیں۔تجزیہ کرنے والا زمینی حقائق سے واقف نہیں تھا۔یہ توممکن ہے کہ دوچار سو لوگ ایسا کچھ کرتے ہوں مگروہ رقم ایک سال میں زیادہ سے زیادہ چالیس پچاس ہزار ڈالر تک جاسکتی ہے ۔ پانچ ارب ڈالربہت زیادہ ہیں ۔پھر بھارت میں ایسے مسلمان بہت کم ہیں جن کے رشتہ دار پاکستان میں ہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستان نے 1965تک وہاں سے آنے والے مسلمانوں کو کشادہ دلی کے ساتھ قبول کیا ۔اس لئے جو لوگ 1947میں ہجرت کر کے پاکستان نہیں آسکے تھے وہ اگلے دس پندرہ سال مسلسل ہجرت کر کے آتے رہے ۔مثال کے طور پرمعروف شاعر افتخار عارف 1962میں پاکستان آئے تھے ۔دوسرا بھارت میں سرمایہ منتقل کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ اس کا ایک تجربہ مجھے ذاتی طور پرہوچکاہے ۔میں کیئر اینڈ ریلیف فائونڈیشن کا کچھ سرمایہ برما سے ہجرت کر کے بھارت جانے والے مسلمانوں کی امداد کرنے کیلئے برطانیہ سے بھارت منتقل کرنا چاہتا تھا۔یقین کیجئے اتنی زیادہ رکاوٹیں تھیں۔ بھارتی حکومت کے اتنے تحفظات تھے کہ پوری کوشش کے باوجود بھارت میں موجود برمی مہاجرمسلمانوں کی مدد نہیں ہوسکی تھی ۔ ہم نے صرف انڈونیشیا اور بنگلہ دیش میں مقیم برمی مسلمانوں کی امداد کی تھی۔

اخبار کی رپورٹ میں یہ دعویٰ بھی کیا گیاہے کہ بھارت سے بھی پاکستان میں رقوم کی منتقلی ہورہی ہے ۔یہ بھی ایک ایسی بات ہے جس پر یقین کرنا میرے لئے مشکل ہے۔ مگر ورلڈ بینک نے جو کچھ کہا ہے وہ غلط بھی نہیں ہوسکتا۔یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جو سرمایہ بھارت سے آرہا ہے ۔اسے پاکستان میںکون وصول کررہاہے ۔یہ بات تومیں پورے یقین سے بتا رہا ہوں کہ پاکستان میں موجود ہندو کمیونٹی کوبھارت سے ایک ڈالر بھی نہیں ملتا ۔میں نے تھرپارکر میں خاصاچیریٹی ورک کیا ہے ۔وہاں کی80 فیصد آبادی ہندو ہے اوروہ لوگ غربت کی لکیر سے کئی ہزار گنا نیچے زندگی گزار رہے ہیں ۔ہماری چیریٹی آرگنائزیشن نے پوری کوشش کی کہ برطانیہ کی ہندو کمیونٹی پاکستانی ہندو کمیونٹی کی امدادکرے مگر ہم بری طرح ناکام ہوئے ۔تحقیق کی تو پتہ چلا کہ بھارت سے تعلق رکھنے والا کوئی شخص بھارت میں ہو یا دنیا کے کسی خطے میں اس کاسرمایہ کسی صورت میں پاکستان نہیں جاسکتا۔یہ من الحیث القوم بھارتیوں کا فیصلہ ہے ۔ حتیٰ کہ بھارتی مسلمان بھی پاکستان سے متعلق چیریٹیز کو برطانیہ میں فنڈنگ نہیں دیتے ۔(بقول حسین احمد مدنی ۔قومیں وطن سے بنتی ہیں مذہب سے نہیں )

ہمارے وہ پانچ ارب ڈالر جو 2015میں بھارت منتقل ہوئے ۔ان پر تبصرہ کرتے ہوئے خودورلڈ بینک کے ماہر ِاقتصادیات دلیپ ریتھانے کہا کہ’’ اس سوال کے جواب میں پراسراریت پنہاں ہے ‘‘بھارت کے مرکزی بینک کے مطابق 2015میںصرف دس لاکھ ڈالر قانونی طور پر پاکستان سے بھارت منتقل ہوئے ہیں ۔مجھے سرکاری ذرائع سے بھارت جانے والے ان دس لاکھ ڈالر پر بھی حیرت ہے۔ پانچ ارب ڈالرتوبہت بڑی رقم ہے ۔چیئرمین نیب اِس منی لانڈرنگ کا مقدمہ کس کے خلاف درج کرائیں گے۔ کون ہیںوہ لوگ جو پاکستانی سرمایہ بھارت منتقل کررہے ہیں یقینا ان میںزیادہ تر بزنس مین ہی شامل ہونگے جن کے بھارت میں کاروبار ہیں کارخانے ہیں اور کسی کے پاس اتنا سرمایہ کہاں سے آسکتا ہے ۔ہاں یہ ممکن ہے کہ کسی ایک ہی پاکستانی شخصیت نے اپنا سرمایہ سوئزلینڈ سے بھارت منتقل کرادیا ہو۔پچھلے تین سال میںپاکستانیوں نے تقریباً چھ سات ارب ڈالرکی پراپرٹی دبئی میں خریدی ہے مگریہ بات سمجھ میں آتی ہے کیونکہ پاکستان سے اکثر سرمایہ وہاں ا سمگل ہوتا رہتا ہے ۔ ماڈلز گرفتار ہوتی رہتی ہیں ،نوٹوں سے بھری کشتیاں پولیس کے ہاتھ لگتی رہتی ہیں۔

پھرپاکستانیوں کے اندر خلیجی ریاستوں میںکاروبار کرنے کا ایک رجحان بھی موجود ہے مگروہاں 6.6ڈالر کی سرمایہ کاری تین سال میںہوئی ہے اس کے مقابلے میں صرف 2015میں بھارت میں منتقل ہونیوالے پانچ ارب ڈالربہت زیادہ ہیں اور اس منی لانڈرنگ کا کوئی واضح یا غیر واضح راستہ بھی دکھائی نہیں دے رہا۔یہ اور بھی پریشان کن بات ہے ۔ جب کوئی دروازہ ۔کوئی گلی۔ کوئی سڑک۔ کوئی موٹر وے دکھائی ہی نہیں دے رہی تو اسے بند کیسے کیا جاسکتا ہے ۔اورچیئرمین نیب کے تو ویسے بھی ناخن کاٹے جارہے ہیں۔

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے