
پاناما کا فیصلہ
پاناما کا فیصلہ
منصور آفاق
اس وقت پاناما کا شور پڑا ہوا ہے۔ لوگ پوچھتے پھرتے ہیں کہ کیا پھر ایک اورسوال ہماری تاریخ کے ماتھے پرسج جائے گا۔ ہم کتنی بدقسمت قوم ہیں کہ ہمارے لئے یہ بھی ممکن نہیں کہ ہم اپنی تاریخ کو درست کر سکیں۔ اپنی نسلوں کو بتا سکیں کہ قائداعظم محمد علی جناح کی وفات کا ذمہ دار کون ہے۔ کس طرح پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کوئٹہ سے کراچی جاتی ہوئی سڑک پر ایک ٹوٹی ہوئی ایمبولینس میں اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ بقول محترمہ فاطمہ جناح ’’ایمبولینس کا ایک شیشہ ٹوٹا ہوا تھا جس سے مکھیاں بے ہوش قائداعظم کے کھلے ہوئے منہ میں داخل ہونے کی کوشش کرتی تھیں اور میں انہیں ہاتھ ہلا ہلا کر ہٹاتی تھی‘‘۔ کیا واقعی وہ ویران سڑک جس پرخراب ایمبولینس کھڑی تھی وہاں دور دور تک فاطمہ جناح اور ایمبولینس کے ڈرائیور کے سوا کوئی نہیں تھا۔ کیا واقعی لیاقت علی خان اسی وقت فرانسیسی سفارت خانے کی ایک تقریب میں کہہ رہے تھے کہ محمد علی جناح بالکل ٹھیک ہیں۔
کیا واقعی محترمہ فاطمہ جناح کو قائداعظم کی وفات کے بعد تین ماہ کیلئے نظر بند کر دیا گیا تھا؟ لیاقت علی خان کے قتل کے پیچھے کون تھا۔ محرکات کیا تھے ان کے قتل کی تحقیقات کرنے والے جسٹس اور ان کی ٹیم اپنی تمام تحقیقاتی فائلوں سمیت جس جہاز میں سفر کر رہی تھی اسے ایک راکٹ لانچر کے فائر سے گرا دیا گیا۔ اس زمانے میں راکٹ لانچر پاکستان میں کن لوگوں کی دسترس میں تھے؟ لیاقت علی خان کے قتل کے بعد غیر منتخب حکمراں ملک پر کیسے مسلط ہوئے۔ جنرل ایوب چیف آف آرمی اسٹاف ہوتے ہوئے کیسے وزیر دفاع بھی بن گئے۔ میجر جنرل اسکندر مرزا اور ان کے بعد جنرل ایوب کے ملک پرقبضہ کرنے کے اسباب کیا تھے۔ فاطمہ جناح کے انتخاب کیسے چرائے گئے۔ ان کی وفات کیسے ہوئی۔ مرنے کے کتنے دنوں بعد پتہ چلا کہ وہ فوت ہوچکی ہیں۔ ان کے ملازم کے اس بیان میں کس حد تک سچائی تھی کہ ان کے تکیے پر خون کے چھینٹے تھے۔ جنرل ایوب نے اس الزام کی تحقیقات کرانے سے کیوں انکار کردیا کہ مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کو قتل کیا گیا ہے؟ جنرل ایوب نے جاتے جاتے اقتدار ایک اور جنرل، جنرل یحییٰ کے سپرد کیوں کردیا تھا؟ کیا ان دنوں یہ لوگ پاکستان پر حکومت صرف اپنا حق سمجھتے تھے اور پھر پاکستانی تاریخ کا سب سے المناک واقعہ سقوط ڈھاکہ کیوں ہوا کیا صرف ہوسِ اقتدار کیلئے۔ پاکستان کے جسم کا وہ حصہ جس میں ستاون فیصد آبادی تھی، جسے ہم مشرقی پاکستان کہتے تھے، کیا ان کی عددی اکثریت سے ہم نے روزِ اول سے خوف کھانا شروع کر دیا تھا۔ کیوں پہلے ہم نے اپنے چاروں صوبوں کو توڑ کر ون یونٹ اس لئے بنایا کیا کہ صوبہ مغربی پاکستان کو بمقابلہ مشرقی پاکستان کھڑا کر دیں۔ کیا یہ سچ ہے کہ جب ہم نے دیکھا کہ اب بھی جمہوریت کے مسلمہ اصول کے مطابق بالغ رائے دہی پر الیکشن ہوتے ہیں تو مشرقی پاکستانیوں کی تعداد زیادہ ہے تو ہم نے جمہوریت کا منہ چڑانے کیلئے یہ فارمولا ایجاد کیا کہ دونوں صوبوں سے برابر کی تعداد میں نمائندے منتخب ہونگے۔ یوں ستاون فیصد اور تنتالیس فیصد کا حیرت انگیز اصول نکالا گیا۔ مغربی پاکستان کا ایک ووٹ مشرقی پاکستان کے تقریباً ڈیڑھ ووٹ کے برابر شمار کیا جانے لگا اور ان غربیوں نے یہ بات بھی قبول کرلی۔ پھر جنرل یحییٰ نے مارشل لا لگادیا۔ اور جب مارشل لا کے بعد ملک کے پہلے جنرل انتخابات ہوئے اور مشرقی پاکستان کو واضح کثریت حاصل ہوگئی تو ہم نے وہاں فوج بھیج دی۔ بے انتہا قتل و غارت کے بعد بالآخر وہ حصہ ہم سے علحیدہ ہو گیا۔ یعنی سچ یہی ہے کہ ہمارے صاحبانِ اقتدار کی ہوسِ اقتدار نے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بننے پر محبور کر دیا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کیوں ختم کی گئی۔ ان کا کیوں عدالتی قتل ہوا۔ جنرل ضیا الحق کے اقتدار پر قبضے کی وجوہات کیا تھیں۔ اس نے ملک میں کرپشن کو کیوں فروغ دیا۔ نظریہ ضرورت کی کالک پاکستان کے چہرے پر کیوں اور کیسے ملی گئی۔ جونیجو حکومت کیوں توڑ دی گئی اور اس میں نواز شریف نے کیا کردار ادا کیا۔ جنرل ضیاءالحق کا طیارہ فضا میں کیوں اور کیسے پھٹ گیا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کیسے اقتدار میں آئیں اور ان کی حکومت اٹھارہ مہینوں کے بعد انہیں کیسے ایک غیر منتخب صدر، صدر اسحاق نے ختم کردی۔ صدر اسحاق کیسے صدر بنے اور مسلسل صدر رہے۔ نواز شریف کیسے اقتدار میں لائے گئے اور پھر کیسے اقتدار سے الگ کئے گئے۔ پھر محترمہ بے نظیر بھٹو کو حکومت میں کیوں آنے دیا گیا۔ وہ کیا مسئلہ تھا جس کی وجہ سے صدر فاروق لغاری نے اپنی لیڈر محترمہ بےنظیر بھٹو کی حکومت توڑ دی۔
نواز شریف دو تہائی اکثریت سے کیسے منتخب ہو گئے، گارگل کی جنگ کیوں ہوئی۔ پرویز مشرف نے کیوں انڈیا سے اپنے شہیدوں کی لاشیں لینے سے انکار کر دیا اور پھر نواز شریف کی دو تہائی کی اکثریت جنرل پرویز مشرف نے کیسے ہائی جیک کر لی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کا پس منظر کیا ہے۔ بھٹو خاندان کو کیوں قبروں کا خاندان بنا دیا گیا؟ شاہنواز بھٹو کا قتل اور اس کے بعد مرتضیٰ بھٹو کا قتل کیوں ہوا۔
دہری نیشنلٹی والے دو وزیراعظم کیوں اور کیسے بنے۔ ایک دہری شہریت والا چودہ سال کیسے گورنر رہا۔ پاکستان کیسے مقروض ہوا۔ قرض میں لئے گئے اربوں ڈالر کہاں چلے گئے۔ پچھلے تیس برس میں کون کون ارب پتی ہوا۔ تاریخ کی آنکھوں سے ابلتے ہوئے بے شمار چھوٹے چھوٹے سوال میں نے درمیان میں چھوڑ دئیے ہیں کیونکہ ہر سوال کی گرہ میں کچھ اور سوال بندھے ہوئے ہیں اور ایک اہم ترین سوال کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان دوستی دشمنی کی کہانی کیا ہے بھارت مسئلہ کشمیر کو کیوں نہیں حل کرتا جب کہ جانتا ہے کہ اسی میں دونوں ممالک کی بقا ہے۔ دونوں اپنے وسائل صرف کیوں ہولناک سے ہولناک تر اسلحہ تیار کرنے پر پھونک رہے ہیں۔ کیوں عوام کے منہ سے نوالے چھیننے کا مقابلہ جاری ہے۔ کیا ہم کوئی ایسا عدالتی کمیشن نہیں بنا سکتے۔ جو ان تمام سوالات کے جواب پوری تحقیق و تفتیش کے بعدسامنے لائے تاکہ پاکستان کے عوام کو مستقبل کے فیصلے کرنے میں کوئی دشواری نہ رہے۔ کیا پاکستانی عوام کا یہ حق نہیں کہ سچائی اس تک پہنچے۔ کیا لوگوں کو ان سوالات کے جوابات بتائے بغیر ہونے والے انتخابات ویسے ہی نہیں ہوں گے جیسے کسی کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر اس سے کہا جائے کہ اب تم کو راستہ بتانا ہے۔کتنے ستم کی بات ہے آج ہم یہ قانون سازی کررہے ہیں کہ کروڑوں اربوں کی چوری کرنے والا اگر رقم واپس کردے تو اسے سرکاری عہدے کےلئے نااہل قرار دیا جائے گا۔ کوئی اور سزا نہیں دی جائے گی۔ بہرحال مایوسی گناہ ہے۔ شاید پاناما کا فیصلہ اس سلسلے میں بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہو۔
mansoor afaq

